در حضور رسالت مآب
(بحضور رسالت مآب ﷺ )
اے تو ما بیچارگان را ساز و برگ وارہان این قوم را از ترس مرگ
مطلب: رسول اللہ ﷺ آپ ہم بیچارے لوگوں کا بہت بڑا سرمایہ ہیں ۔ اس قوم کو موت کے خوف سے رہائی دلائیے ۔
سوختی لات و منات کہنہ را تازہ کردی کائنات کہنہ را
مطلب: یا رسول اللہ ﷺ آپ نے پرانے بت لات و منات جلا دیے ۔ آپ نے قدیم دنیا کو نئی زندگی عطا فرمائی ۔
در جہان ذکر و فکر انس و جان تو صلوٰت صبح تو بانگ اذان
مطلب: انسانوں اور جنوں کے جہان ذکر و فکر میں حضور صبح کی نماز ہیں اور حضور ہی اذان کی آواز ہیں ۔
لذت سوز و سرور از لا الہ در شب اندیشہ نور از لا الہ
مطلب: سوز و سرور کی لذت لا الہ سے ہے ۔ اندیشے کی تاریک رات کو لا الہ کا نور روشن کرتا ہے ۔
نے خداہا ساختیم از گاوَ خر نے حضور کاہنان افگندہ سر
مطلب: حضور ہم نے نہ توکسی گائے، گدھے کو اپنا معبود بنایا اور نہ کاہنوں کے آگے اپنا سر جھکایا ۔
نے سجودے پیش معبودان پیر نے طواف کوشک سلطان و میر
مطلب: نہ پرانے خداؤں کو سجدہ کیا نہ بادشاہوں اور امراء کے محلات کا طواف کیا ۔
این ہمہ از لطف بے پایان تست فکر ما پروردہ احسان تست
مطلب: یہ سب (ہمارا سجدہ وغیرہ کرنا) حضور ہی کے بے حد لطف و کرم کے طفیل ہے ۔ ہماری فکر حضور ہی کے احسان کی پروردہ ہے ۔
ذکر تو سرمایہ ذوق و سرور قوم را دارد بہ فقیر اندر غیور
مطلب: حضور کا ذکر ذوق و سرور (روحانیت) کا سرمایہ ہے ۔ اسی سے قوم فقر میں غیور ہے ۔
اے مقام و منزل ہر راہرو جذب تو اندر دل ہر راہرو
مطلب: حضور آپ ہر مسافر کے لیے مقام و منزل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ہر سالک کے دل میں حضور ہی کا جذب ہے ۔
ساز ما بے صوت گردید آنچنان زخمہ بر رگہاے او آید گران
مطلب: حضور ہمارا ساز کچھ ایسا بے آواز ہو گیا ہے کہ اب تو مضراب بھی اس کے تاروں پر گراں گزرتی ہے ۔
در عجم گردیدم و ہم در عرب مصطفی نایاب و ارزان بولہب
مطلب: میں عجم میں بھی پھرا ہوں اور عرب میں بھی ۔ ہر جگہ حضور کے رنگ میں رنگے ہوئے لوگ نایاب ہیں ۔ ابولہب زیادہ ہیں ۔
این مسلمان زادہ روشن دماغ ظلمت آباد ضمیرش بے چراغ
مطلب: اس روشن دماغ نسل مسلم کی حالت یہ ہے کہ اس کے ضمیر کی اندھیر نگری چراغ کے بغیر ہے ۔
در جوانی نرم و نازک چون حریر آرزو در سینہ او زود میر
مطلب: جوانی میں ریشم کی طرح نرم و نازک ہے، اس کے دل میں پیدا ہونے والی آرزو کا جلد ہی دم گھٹ جاتا ہے ۔
این غلام ابن غلام ابن غلام حریت اندیشہ او را حرام
مطلب: یہ نسل در نسل غلام ہے اس کے لیے آزادی کے بارے میں سوچنا حرام ہے ۔
مکتب ازوے جذبہ دین در ربود از وجودش این قدر دانم کہ بود
مطلب: مکتب نے اس سے دین کا جذبہ چھین لیا ہے ۔ اسکے وجود کے متعلق میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ کبھی تھا ۔
این ز خود بیگانہ این مست فرنگ نان جو می خواہد از دست فرنگ
مطلب: اپنے آپ سے نا آشنا ہے اور افکار فرنگ میں مست ہے ۔ وہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ فرنگیوں کے ہاتھ سے اسے جو کی روٹی مل جائے ۔
نان خرید این فاقہ کش با جان پاک داد ما را نالہ ہاے سوز ناک
مطلب: اس کنگال بھوکے نے اپنی پاک جان دے کر روٹی خریدی ۔ اس نے ہمیں جلا دینے والے نالے دیے ۔
دانہ چیں مانند مرغان سراست از فضائے نیلگوں نا آشناست
مطلب: وہ پالتو پرندوں کی طرح دانہ ہی چگ سکتا ہے اور آسمان کی وسعتوں سے نا آشنا ہے ۔
آتش افرنگیان بگداختش یعنی این دوزخ دگرگوں ساختش
مطلب: افرنگیوں کی آگ نے اس کو پگھلا کے رکھ دیا ہے ۔ یعنی اس دوزخ نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے ۔
شیخ مکتب کم سواد و کم نظر از مقام او نداد او را خبر
مطلب: شیخ مکتب کم علم اور کم نظر ہے اس نے اس نئی نسل مسلماں کو اس کے مقام سے آگاہ ہی نہیں کیا ۔
مومن و از رمز مرگ آگاہ نیست در دلش لا غالب الا اللہ نیست
مطلب: وہ ہے تو صاحب ایمان لیکن موت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہے ۔ اس کے دل کا لاغالب الا اللہ پر جیسے ایمان ہی نہیں ۔
تا دل او درمیان سینہ مرد می نیندیشد مگر از خواب و خورد
مطلب: چونکہ اس کا دل سینے میں مر چکا ہے اس لیے اسے کھانے پینے اور سونے کے علاوہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔
بہریک نان نشتر لا و نعم منت صد کس براے یک شکم
مطلب: ایک روٹی کی خاطر لا اور نعم کے نشتر کے زخم کھاتا ہے ۔ اور ایک پیٹ کے لیے سینکڑوں کا احسان اٹھانا پڑتا ہے (خوشامد کرتا ہے) ۔
از فرنگی می خرد لات و منات مومن و اندیشہ سومنات
مطلب: وہ فرنگی سے لات و منات خریدتا ہے (افسوس کہ ) وہ صاحب ایمان ہوتے ہوئے بھی سومناتی سوچ کا حامل ہے ۔
قم باذنی گوے و او را زندہ کن در دلش اللہ ہو را زندہ کن
مطلب: حضور قم باذنی فرمائیں اٹھ میرے حکم سے فرما کر اسے زندہ کر دیں اسکے دل کو اللہ ہو سے زندگی عطا کر دیں ۔
ما ہمہ افسونی تہذیب غرب کشتہ افرنگیان بے حرب و ضرب
مطلب: ہم سب تہذیب مغرب کے سحرزدہ ہیں ۔ ہمیں فرنگیوں نے بغیر جدال و قتال کے قتل کر دیا ہے ۔
تو ازان قومے کہ جام او شکست وا نما یک بندہ اللہ مست
مطلب: حضور آپ اس قوم میں سے جس کا جام ٹوٹ چکا ہے کسی درویش خدا مست کو ظاہر فرما دیجئے ۔
تا مسلمان باز بیند خویش را از جہانے برگزیند خویش را
مطلب: تاکہ مسلمان پھر اپنے آپ کو پا لے اور اس طرح خود کو دنیا میں برگزیدہ بنا لے ۔
شہسوارا یک نفس درکش عنان حرف من آسان نیاید بر زبان
مطلب: اے شہسوار میرے ایک لمحے کے لیے اپنے گھوڑے کو روکیے ۔ مہار روک لیں میری بات تو اتنی جلدی اور آسان سے زبان پر نہ آ سکے گی ۔
آرزو آید کہ ناید تابہ لب می نہ گردد شوق محکوم ادب
مطلب: میری آرزو (خدا معلوم) ہونٹوں تک آتی بھی ہے یا نہیں ۔ عشق تو ادب کا پابند نہ ہو گا ۔
آن بگوید لب کشا اے درد مند این بگوید چشم بکشا لب بہ بند
مطلب: آرزو کہتی ہے کہ اے صاحب درد تو لب تو کھول اور عشق کا کہنا ہے کہ ہونٹ بند رکھ اور آنکھیں کھول تاکہ نظارہ کر سکے ۔
گرد تو گردد حریم کائنات از تو خواہم یک نگاہ التفات
مطلب: حضور پوری کائنات آپ کے گرد گھوم رہی ہے ۔ میں حضور سے ایک نگاہ التفات کی التجا کرتا ہوں ۔
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی
مطلب: میرا ذکر اور فکر اور علم و عرفان حضور ہی ہیں ۔ میری کشتی ، میرا سمندر اور میرا طوفان سبھی کچھ حضور ہی ہیں ۔
آہوئے زار و زبوں و ناتوان کس بہ فتراکم نہ بست اندر جہان
مطلب: میں تو ایک نحیف و نزار لاغر اور دردمند ہرن ہوں ، دنیا میں مجھے کسی نے بھی اپنے فتراک میں نہیں باندھا ۔
اے پناہ من حریم کوے تو من بامیدے رمیدم سوے تو
مطلب: حضور آپ کا مبارک کوچہ میری پناہگاہ ہے ۔ میں ایک امید پر آپ کی طرف دوڑتا چلا آ رہا ہوں ۔
آن نوا در سینہ پروردن کجا وز دمے صد غنچہ وا کردن کجا
مطلب: حضور کا وہ فیض جو سینے میں نوا کی پرورش کرتا ہے کہاں ہے، اور آپ کی وہ ایک پھونک جس سے سینکڑوں غنچے کھل اٹھتے ہیں کہاں ہے
نغمہ من در گلوے من شکست شعلہ از سینہ ام بیروں نجست
مطلب : میرا نغمہ تو میرے گلے ہی میں ٹوٹ گیا ہے ۔ میرے سینے سے ایک بھی شعلہ باہر نہیں لپکا ۔
در نفس سوز جگر باقی نماند لطف قرآن سحر باقی نماند
مطلب: میرے سانس میں جگر کا سوز باقی نہیں رہا ۔ صبح کے وقت تلاوت قرآن کا لطف بھی جاتا رہا ۔
نالہ کو می نہ گنجد در ضمیر تا کجا در سینہ ام ماند اسیر
مطلب: وہ نالہ جو میرے ضمیر میں نہیں سما سکتا کب تک میرے سینے میں مقید رہے گا ۔
یک فضاے بے کران می بایدش وسعت نہ آسمان می بایدش
مطلب: اس کے لیے تو ایک بے کراں وسعت درکار ہے بلکہ اسے تو نو آسمانوں کی وسعت چاہیے ۔
آہ ز آن دردے کہ در جان و تن است گوشہ چشم تو داروے من است
مطلب: افسوس کہ جان و تن کو ایک دکھ لگ گیا ہے ۔ اس کا علاج صرف آپ کا گوشتہ چشم ہے ۔
در نسازد با دوا ہا جان زار تلخ و بویش بر مشامم ناگوار
مطلب: میری ناتوان جان ان دواؤں کو پسند نہیں کرتی ۔ دوا کی کڑواہٹ اور بو میرے دماغ کے لیے گویا اذیت ہے ۔
کار این بیمار نتوان برد پیش من چو طفلان نالم از داروے خویش
مطلب: مجھ بیمار کی بات آگے نہیں بڑھائی جا سکتی کیونکہ میں تو اپنی دوا دیکھ کر بچوں کی طرح رونے لگتا ہوں ۔
تلخی او را فریبم از شر خندہا در لب بدوزد چارہ گر
مطلب: دوا کی کڑواہٹ کو چینی ملا کر فریب دیتا ہوں ۔ جس پر میرا معالج اپنی ہنسی بمشکل ہی روک پاتا ہے ۔
چون بصیر از تومی خواہم کشود تا بمن باز آید آن روزے کہ بود
مطلب: بصیری کی طرح میں بھی آپ سے شفا کا خواہاں ہوں ۔ تاکہ میں پھر سے اپنی پہلی سی حالت صحت پر آ جاؤں ۔
مہر تو بر عاصیان افزوں تر است در خطا بخشی چو مہر مادر است
مطلب: حضور کی شفقت گنہگاروں پر زیادہ ہوتی ہے اور یہ محبت خطا سے درگزر کرنے کے معاملے میں ماں کی شفقت کی مانند ہے ۔
با پرستاران شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز
مطلب: میں تاریکی کے پرستاروں (یعنی باطل قوتوں کے پجاریوں ) سے الجھتا ہوں ، حضور میرے چراغ میں اور تیل ڈال دیجیے ۔
اے وجود تو جہان را نو بہار پرتو خود را دریغ از من مدار
مطلب: حضور کا وجود مبارک تمام کائنات کے لیے نوبہار ہے ۔ مجھ سے اپنے پرتو مبارک کو دور نہ رکھیے ۔
خود بدانی قدر تن از جان بود قدر جان از پرتو جانان بود
مطلب: آپ جانتے ہیں کہ جسم کی وقعت و اہمیت روح سے ہے اور روح کی قدر و وقعت محبوب کے پرتو سے ہے ۔
تا ز غیر اللہ ندارم ہیچ امید یا مرا شمشیر گردان یا کلید
مطلب: چونکہ مجھے کسی غیر اللہ سے کوئی امید نہیں ہے اس لیے حضور یا آپ مجھے تلوار بنا دیجئے یا پھر کلید ۔
فکر من در فہم دیں چالاک و چست تخم کر داری ز خاک من نہ رست
مطلب: میری عقل و دانش دین کے فہم میں بڑی تیز ہے لیکن افسوس ہے کہ میری خاک بدن سے عمل کا کوئی بیچ نہیں چھوٹا ۔
تیشہ ام را تیز تر گردان کہ من محنتے دارم فزون از کوہکن
مطلب: میری کلہاڑی کو اور تیز کر دیجئے کیونکہ مجھے فرہاد سے بھی زیادہ محنت در پیش ہے ۔
مومنم از خویشتن کافر نیم برفسانم زن کہ بد گوہر نیم
مطلب: میں صاحب ایمان ہوں ، اپنی ذات کا منکر نہیں ہوں ۔ مجھے سان پر لگائیے کیونکہ میں برا لوہا نہیں ہوں ۔
گرچہ کشت عمر من بے حاصل است چیز کے دارم کہ نام او دل است
مطلب: اگرچہ میری زندگی کی کھیتی بے حاصل ہے تاہم میرے پاس ایک حقیر سی چیز ہے جس کا نام دل ہے ۔
دارمش پوشیدہ از چشم جہان کرسم شبدیز تو دارد نشان
مطلب: میں نے اسے دنیا کی نظروں سے چھپا کر رکھا ہے کیونکہ اس دل پر حضور کے گھوڑے کے سم کا نشان ہے ۔
بندہ را کو نخواہد ساز و برگ زندگانی بے حضور خواجہ مرگ
مطلب: ایسے غلام کے لیے جو مال و دولت کا خواہاں نہیں ۔ آقا کے قرب کے بغیر زندگی موت کے برابر ہے ۔
اے کہ داری کرد را سوز عرب بندہ خود را حضور خود طلب
مطلب: حضور آپ نے ایک کرد کو سوز عرب سے نوازا ۔ اپنے اس غلام کو بھی اپنی خدمت اقدس میں طلب فرمائیے ۔
بندہ چون لالہ داغے در جگر دوستانش از غم او بے خبر
مطلب: ایک ایسا غلام (اقبال) جس کے جگر میں لالہ کی طرح داغ ہے اور اسکے دوست اسکے غم سے بے خبر ہیں ۔
بندہ اندر جہان نالان چون نے تفتہ جان از نغمہ ہاے پے بہ پے
مطلب: ایسا غلام جو دنیا میں نے کی مانند نالاں ہے اور پے بہ پے نغموں نے جس کی روح کو پگھلا کے رکھ دیا ہے ۔
در بیابان مثل چوب نیم سوز کاروان بگزشت و من سوزم ہنوز
مطلب: میری حالت اس ادھ جلی لکڑی کی مانند ہے جسے قافلہ والے جنگل ہی میں چھوڑ کر خود آگے نکل گئے ہوں اور وہ ابھی سلگ رہی ہو ۔
اندریں دشت و درے پہناورے بو کہ آید کاروانے دیگرے
مطلب: اس وسیع دشت اور درے میں پڑا جل رہا ہوں ۔ ممکن ہے پھر کوئی قافلہ ادھر آ نکلے ۔
جان ز مہجوری بنالد در بدن نالہ من واے من اے واے من
مطلب: روح حضور سے دوری کے باعث جسم میں تڑپ رہی اور فریاد کر رہی ہے ۔ میری یہ فریاد میری یہ آہ و فغاں سب بے اثر ہے ۔ حضور افسوس سب بے اثر ہے ۔