Please wait..

جواب (پہلا بند)

 
اگرچہ چشمے کشائی بر دل خویش
درون سینہ بینی منزل خویش

مطلب: اگر تو اپنے دل کی باطنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرے تو تو اپنی منزل اپنے دل کے اندر دیکھ لے گا ۔

 
سفر اندر حضر کردن چنین است
سفر از خود بخود کردن ہمین است

مطلب: حضر کے اندر سفر کرنا ایسا ہی ہے جیسے خود سے خود کی طرف سفر کرنا ہے ۔ ایک سفر ظاہری ہے جس میں مقام تبدیل ہوتے ہیں لیکن دوسرا سفر باطنی ہے ۔ اس سفر میں ٹھہراوَ کے باوجود سفر ہوتا ہے ۔ یہ سفر اپنی ہی تلاش کا سفر ہوتا ہے ۔

 
کسے اینجا نداند ما کجائیم
کہ در چشم مہ و اختر نیائیم

مطلب: اس جگہ کسی کو معلوم نہیں کہ ہماری اصل کیا ہے کیونکہ ہم تو چاند اور تاروں کی نظروں میں بھی نہیں آتے ۔ اہل نظر (عارفان الٰہی) کے سوا ان مسافروں کے سفر اور ان کی منازل کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ۔

 
مجو پایان کہ پایانے نداری
بپایان تا رسی جانے نداری

مطلب: اس لیے تو معر کی حد تلاش نہ کر کیونکہ تیری اپنی کوئی حد نہیں ۔ جب تو حد (اپنی معرفت کی پہچان) کو پہنچے گا تو خود نہیں ہو گا بلکہ مقامِ بقا حاصل کرے گا ۔

 
نہ ما را پختہ پنداری کہ خامیم
بہر منزل تمام و نا تمامیم

مطلب: تو ہ میں اپنی خودی میں پختہ تجربہ کار نہ سمجھ کہ ہم ابھی ناقص ہیں ۔ ہر منزل پر ہم تمام ہیں اور ناتمام ہیں ۔ یعنی ایک منزل کو پا کر دوسری کی جستجو میں روانہ ہو جاتے ہیں ۔

 
بپایان نارسیدن زندگانی است
سفر ما را حیات جاودانی است

مطلب: حد کو نہ پہنچنا ہی زندگی ہے ۔ سفر ہمارے لیے ہمیشہ کی زندگی ہے ۔

 
ز ماہی تا بہ بمہ جولانگہ ما
مکان و ہم زمان گرد رہ ما

مطلب: دریا میں رہنے والی مچھلی سے لے کر چاند تک ، زمین کی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی بلندیوں تک ہماری جدوجہد کا میدان ہے ۔ زما ن و مکان بھی ہمارے راستے کی گرد ہیں ۔

 
بخود پییچیم و بے تاب نمودیم
کہ ما موجیم و از قعر و جودیم

مطلب: ہم خود پر خودی کو لپیٹتے ہیں اور نمود کی تاب تڑپ کے بغیر ہیں ۔ خودی خدا ہی کا عکس ہے ۔ اسے غیر سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ کیونکہ ہم موج ہیں اور وجود کے سمندر کی گہرائی کے باعث زندہ ہیں ۔ موج سمندر ہی سے پیدا ہوتی ہے اور الگ نظر آنے کے باوجود سمندر ہی کا حصہ ہوتی ہے ۔ اسی طرح خودی بھی خدا ہی کا عکس ہے ۔ اور انائے مقید میں انائے مطلق کی صفات جلوہ گر ہوتی ہیں ۔ اس لیے انائے مقید غیر کی محتاج نہیں ہوتی ۔

 
دمادم خویش را اندر کمین باش
گریزان از گمان سوے یقین باش

مطلب: ہر وقت اپنے آپ کو شکار یعنی خودی کی معرفت حاصل کرنے کے لیے گھات لگائے رکھ اور گمان (بے یقینی) سے دور بھاگتا ہوا یقین کی طرف آ تاکہ تجھے معرفتِ الہٰی حاصل ہو ۔

 
تب و تاب محبت را فنا نیست
یقیں و دید را نیز انتہا نیست

مطلب: یاد رکھ کی محبت کی تڑپ اور حرارت لافانی ہے اس طرح یقین اور دید کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔

 
کمال زندگی دیدار ذات است
طریقش رستن از بند جہات است

مطلب: زندگی کا کمال ذات خودی کا دیدار ہے ۔ اور اس دیدار کا طریقہ چاروں اطراف یعنی زمان و مکان کی حدود کی قید سے آزاد ہونا ہے ۔

 
چنان با ذات حق خلوت گزینی
ترا او بیند و او را تو بینی

مطلب: اور پھر تو محو ہو کر ذاتِ حق کی خلوت میں اس طرح دنیا سے بیگانہ ہو کر بیٹھے کہ تجھے وہ دیکھے اور تو اس کے حسن کا نظارہ کرے ۔

 
منور شو ز نور من یرانی
مژہ برہم مزن تو خود نمانی

مطلب: اس شعر میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ من یرانی فی المنان فقدار الحق (جس نے مجھے خواب میں دیکھا گویا اس نے حق کو دیکھا ) ۔ اے شخص تو خود کو حدیث من یرانی کے نور سے منور کر اور اس طرح فنا فی الرسول ہو کر دیدارِ حق سے روشن ہو جا ۔ یہ مقامِ نازک ہے یہاں نگاہ کی ذرا سی بھی کوتاہی سے تو خود بھی نہیں رہے گا ۔ کیونکہ دیدارِ محبوب کے وقت نگاہوں کا ادھر ادھر گھومنا اچھا نہیں ۔

 
بخود محکم گزر اندر حضورش
مشو ناپید اندر بحر نورش

مطلب: اس خدا کے حضور ثابت قدمی سے جا ۔ اور اس کے نور کے سمندر میں ڈوب کر کہیں ناپید ہو جا ۔ جس طرح موج سمندر میں رہ کر اپنا وجود برقرار رکھتی ہے اس طرح تو بھی نور کے سمندر میں اپنا وجود برقرار رکھ ۔

 
نصیب ذرہ کن آن اضطرابے
کہ تابد در حریم آفتابے

مطلب: اپنی ذات کے نصیب میں وہ اضطراب پیدا کر ۔ تو سورج کے گھر میں بھی اپنی ذات کی روشنی برقرار ررکھ سکے ۔ کیونکہ اپنی انفرادیت کھو کر تو فنا ہو جائے گا ۔

 
چنان در جلوہ گاہ یار می سوز
عیان خود را نہان او را بر افروز

مطلب: یار کی جلوہ گا میں اس طرح جل کہ تو روشن ہو جائے ، خود کو ظاہر اور اس محبوب کو پردے میں چمکا ۔ تیری چمک جلوہَ یار کی چمک ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں ۔ ذرے میں چمک نہ ہو تو سورج کی صوفشانی بے کار ہے ۔

 
کسے کو، دید، عالم را امام است
من و تو ناتمامیم او تمام است

مطلب: وہ شخص جس نے جلوہَ یار کا مشاہدہ کیا وہی اس جہان کا امام ہے ۔ میں اور تو کی باتیں بے کار ہیں ۔ صرف وہی کامل ہے ۔
خلاصہ
آدمی کی منزل اس کے اندر ہے ۔ خود سے خود کی طرف سفر کرنے والا مسافر ہے ۔ اپنی منزلِ مراد پا لینے والا راہرو کہلاتا ہے اور منزل پر ذاتِ حق کا شاہد مردِ کامل ہے ۔