حضور ملت
مجو از من کلام عارفانہ کہ من دارم سرشت عاشقانہ
مطلب: مجھ سے عارفانہ شاعری کی خواہش نہ رکھ (تلاش نہ کر) کیونکہ میں عاشقانہ فطرت رکھتا ہوں ۔
سرشک لالہ گون را اندرین باغ بیفشانم چو شبنم دانہ دانہ
مطلب: میں اس (ملت کے) باغ میں لالہ کے پھول کے سرخ آنسو شبنم کی طرح دانہ دانہ کر کے بکھیر رہا ہوں ۔ یعنی اپنی شاعری کے ایک ایک لفظ کو ملت کے افراد کے ذہن و قلب میں سمو رہا ہوں ۔
(۱)
بحق دل بند و راہِ مصطفی رو (اللہ کے ساتھ دل لگاوَ اور مصطفی کے راستے پر چلو)
بمنزل کوش مانند مہ نو درین نیلی فضا ہر دم فزون شو
مطلب: نئے چاند کی طرح منزل کو پانے کی کوشش کرتے رہو ۔ اس نیلی فضا میں ہر لمحہ بڑھتے رہو ۔
مقام خویش اگر خواہی درین دیر بحق دل بند و راہ مصطفی رو
مطلب: اگر تو اس جہان میں اپنا مقام پانا چاہتا ہے تو اللہ سے دل لگا اور حضرت محمد ﷺ کے راستے پرچلو (ان کی شریعت اور اسوہَ حسنہ کو اختیار کرو) ۔
چو موج از بحر خود بالیدہ ام من بخود مثل گوہر پیچیدہ ام من
مطلب: میں اپنے سمندر سے لہر کی طرح ابھرتا ہوں ۔ میں موتی کی طرح اپنے آپ سے الجھتا ہوں ۔
از آن نمرود بامن سرگردان است بہ تعمیر حرم کوشیدہ ام من
مطلب: دور حاضر کا نمرود (انگریز) ا س لیے مجھ سے ناراض ہے کیونکہ میں نے کعبہ کی تعمیر کی کوشش کی ہے ۔ یعنی اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں میں ازسر نو اسلام کی روشنی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
بیا ساقی بگردان ساتگین را بیفشان بر دو گیتی آستین را
مطلب: اے ساقی آ اور شراب کے بڑے پیالے کو گردش میں لا ۔ اپنی آستین کو دونوں جہانوں سے بے نیاز کر دے ۔
حقیقت را بہ رندے فاش کردند کہ ملا کم شناسد رمز دین را
مطلب : کارکنان قضا و قدر نے حقیقت کو ایک رند پر ظاہر کر دیا ۔ ملا دین کی باتوں کو نہیں پہچانتا ۔
بیا ساقی نقاب از رخ برافگن چکید از چشم من خون دل من
مطلب: اے ساقی آ، میرے چہرے سے چہرہ اٹھا دے یعنی حجاب اٹھا دے ۔ میری آنکھ سے میرے دل کا خون ٹپک رہا ہے ۔
بہ آن لحنے کہ نے شرقی، نہ غربی است نواے از مقام لا تخف زن
مطلب: اس زبان (قرآن کی زبان) سے جو نہ شرقی ہے اور نہ مغربی ۔ لا تخف کے مقام سے صدا پیدا کر ۔ مراد کہ قرآن کی روشنی سے استفادہ کرتے ہوئے وقت کے فرعونوں سے جہاد کر ۔
بروں از سینہ کش تکبیر خود را بخاک خویش زن اکسیر خود را
مطلب: اپنے سینے سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر ۔ اپنی مٹی میں اکسیر کا سا عمل پیدا کر ۔
خودی را گیر و محکم گیر و خوش زی مدہ در دست کس تقدیر خود را
مطلب: اپنے اندر خودی پیدا کر، پھر اسے مضبوط بنا اور تو خوشی سے زندگی گزار ۔ اپنی تقدیر کو کسی کے ہاتھ میں نہ دے ۔
مسلمان از خودی مرد تمام است بخاکش تا خودی میرد غلام است
مطلب: خودی کی وجہ سے مسلمان ایک مکمل مرد ہے ۔ جب اس کی مٹی سے خود ی مر جاتی ہے تو غلام بن جاتا ہے ، مراد نفس کا غلام بن جاتا ہے ۔
اگر خود را متاع خویش دانی نگہ را جز بخود بستن حرام است
مطلب: اگر تو خود کو سرمایہ جانتا، سمجھتا ہے تو اپنے سوا کسی دوسرے پر نظر رکھنا حرام ہے ۔
مسلمانان کہ خود را فاش دیدند بہر دریا چو گوہر آرمیدند
مطلب: وہ مسلمان جنھوں نے اپنے آپ کو پوری طرح دیکھ لیا ۔ وہ جس دریا میں اترے وہ اس میں موتی کی طرح پرسکون رہے ۔
اگر از خود رمیدند اندرین دیر بجان تو کہ مرگ خود خریدند
مطلب: اگر وہ اس بت خانہ دنیا میں اپنے آپ سے دور اور بیگانہ رہے، تو تیری جان کی قسم انھوں نے اپنے ہاتھوں اپنی موت خریدی
کشودم پردہ را از روے تقدیر مشو نومید و راہ مصطفی گیر
مطلب: میں نے تقدیر کے چہرے سے نقاب ہٹایا ہے ۔ اے مسلمان مایوس نہ ہو اور مصطفی کا راستہ اختیار کر ۔
اگر باور نداری آنچہ گفتم ز دین بگریز و مرگ کافرے میر
مطلب: اگر تو اس پر یقین نہیں رکھتا جو کچھ بھی میں نے کہا تو اے مسلم دین اسلام سے بھاگ اور کافر کی موت مر ۔
بہ ترکان بستہ درہا را کشادند بناے مصریان محکم نہادند
مطلب: اہل ترک پر ترقی کے بند دروازے کھول دیے گئے ہیں ۔ اہل مصر کی بنیاد کو بھی مضبوط اور مستحکم کر دیا گیا ہے ۔
تو ہم دستے بدامان خودی زن کہ بے او ملک و دیں کی را ندادند
مطلب: تو بھی اپنے ہاتھ سے خودی کے دامن کو پکڑ لے کیونکہ اس کے بغیر ملک و دین کسی کو نہیں دیا گیا ۔
ہر آن قومے کہ می ریزد بہارش نسازد جز بہ بوہاے رمیدہ
مطلب: ہر وہ قوم جس کے باغ کی بہار جا چکی ہے یعنی جو زوال کا شکار ہو چکی ہے ۔ وہ سوائے اڑ جانے یا ختم ہو جانے والی خوشبووَں کے کسی سے موافقت نہیں رکھتی ۔
ز خاکش لالہ می روید و لیکن قباے دارد از رنگ پریدہ
مطلب: اس کی خاک سے لالہ اگتا ہے لیکن اس کی قبا (لالے کا سرخ لباس) ا رنگ اڑنے والا ہے ۔ یعنی اس کی خوبصورتی عارضی ہے ۔
خدا آن ملتے را سروری داد کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت
مطلب: خدا نے اس قوم کو حاکمیت ودیعت کی ہے جس نے اپنی تقدیر اپنے ہاتھ سے لکھی ہے ۔
بہ آن ملت سروکارے ندارد کہ دہقانش براے دیگران کشت
مطلب: وہ خدا اس قوم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا جس کے کسان دوسروں کے لیے کھیتی باڑی کرتے ہیں ۔
ز رازی حکمت قرآن بیاموز چراغے از چراغ او بر افروز
مطلب: اے مسلمان رازی سے قرآن کی حکمت سیکھ، اس کے علم کے چراغ سے اپنا چراغ روشن کر ۔
ولے ایں نکتہ را از من فراگیر کہ نتوان زیستن بے مستی و سوز
مطلب: لیکن اس بات کی باریکی کو مجھ سے سمجھ ۔ کیونکہ عشق کی مستی اور حرارت کے بغیر زندگی نہیں گزاری جا سکتی ۔