Please wait..

آن سوے افلاک (آسمانوں کے اس طرف یا آسمانوں کے پار )
مقام حکیم المانوی نطشہ
(جرمن فلسفی نیٹشے کا مقام)

 
ہر کجا استیزہ بود و نبود
کس نداند سر این چرخ کبود

مطلب: ہر جگہ وجود اور نیستی میں جنگ جاری ہے کوئی بھی اس نیلے آسمان کے راز سے باخبر نہیں ہے (کوئی نہیں جانتا ہے ) ۔

 
ہر کجا مرگ آورد پیغام زیست
اے خوش آن مردے کہ داند مرگ چیست

مطلب: ہر کہیں زندگی کا پیغام لاتی ہے، مبارک ہے وہ شخص جسے یہ علم ہو کہ موت کیا ہے

 
ہر کجا مانند باد ارزان حیات
بے ثبات و با تمناے ثبات

مطلب: پر کہیں زندگی ہوا کی طرح ارزاں ہے، بے ثبات ہے اور اسے ثبات کی تمنا بھی رکھتی ہے ۔

 
چشم من صد عالم شش روزہ دید
تا حد این کائنات آمد پدید

مطلب: میری آنکھوں نے سینکڑوں چھ روزہ جہان دیکھے، تب کہیں جا کر اس کائنات کی حد ظاہر ہوئی ۔

 
ہر جہان را ماہ و پروینے دگر
زندگی را رسم و آئینے دگر

مطلب: اس جہان کے اپنے چاند اور پروین ستارے ہیں اور ہر کسی میں زندگی کے طور طریقے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔

 
وقت ہر عالم روان مانند زو
دیر یاز این جا و آن جا تند رو

مطلب: ہر جہاں کا وقت دریا کی مانند رواں ہے جو یہاں اس جہان میں تو سست رفتار ہے اور اس جہان میں وہ تیزی سے چل رہا ہے ۔

 
سال ما این جا مہے آنجا دمے
بیش این عالم بآن عالم کمے

مطلب: ہماری دنیا کے سال مہینے ہیں جبکہ وہاں ایک پل ہیں ۔ یہاں کے سال میں تو بارہ ماہ ہیں لیکن وہاں کے سال محض ایک پل ہے ۔

 
عقل ما اندر جہانے ذوفنون
در جہانے دیگرے خوار و زبون

مطلب: اس جہان میں ہماری عقل ذوفنون ہے لیکن دوسرے جہان میں وہ ذلیل و خوار ہے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔

 
بر ثغور این جہان چون و چند
بود مردے با صداے دردمند

مطلب: اسباب اور مقدار کے اس جہان کی سرحد پر ایک مرد درد بھری صدائیں بلند کر رہا تھا ۔

 
دیدہ او از عقابان تیز تر
طلعت او شاہد سوز جگر

مطلب: اس کی نگاہیں عقابوں سے بھی زیادہ تیز تھیں ، اس کا چہرہ اس کے سوز جگر کا گواہ تھا ۔

 
دمبدم سوز درون او فزود
بر لبش بیتے کہ صد بارش سرود

مطلب : ہر لمحہ اس کے باطنی سوز میں اضافہ ہو رہا تھا، اس کے ہونٹوں پر ایک شعر تھا جو اس نے سو مرتبہ پڑھا ۔

 
نہ جبریلے ، نہ فردوسے، نہ حورے نہ خداوندے
کف خاک کہ می سوزد ز جان آرزومندے

مطلب: نہ جبرئیل، نہ جنت، نہ کوئی حور اور نہ خداوند، یہ مٹی کا پتلا آدم ہی ہے جو ایک آرزو مند جان کے باعث سلگ رہا ہے ۔

 
من بہ رومی گفتم ایں دیوانہ کیست
گفت این فرزانہ المانوی است

مطلب: میں نے رومی سے پوچھا کہ یہ دیوانہ کون ہے انھوں نے کہا کہ یہ ایک جرمن دانشمند (نیٹشے) ہے ۔ نیٹشے ایک فلسفی تھا لیکن اس پر مجذوبی کی حالت طاری ہو گئی تھی ۔

 
درمیان این دو عالم جائے اوست
نغمہ ی دیرینہ اندر نائے اوست

مطلب: اس کا مقام ان دو جہانوں کے درمیان ہے، اس کی بانسری میں وہی پرانا نغمہ ہے ۔

 
باز این حلاج بے دار و رسن
نوع دیگر گفتہ آن حرف کہن

مطلب: اس حلاج (یعنی نیٹشے) نے جسے سولی پر نہیں لٹکایا گیا ایک مرتبہ پھر وہی پرانی بات نئے انداز سے کہی ہے یعنی انا الحق کی بات ۔

 
حرف او بے باک و افکارش عظیم
غربیان از تیغ گفتارش دو نیم

مطلب: اس کی باتیں بے باک اور اس کے افکار عظیم ہیں ۔ اہل مغرب اس کی گفتگو کی تلوار سے دو ٹکڑے ہیں ۔ اس نے اپنی باتوں یعنی افکار و نظریات سے عیسائی تہذیب و ثقافت کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ۔

 
ہم نشیں بر جذبہ او پے نبرد
بندہ مجذوب را مجنون شمرد

مطلب: اس کے ساتھی اس کے جذبے کو نہ پا سکے (نہ سمجھ سکے) انھوں نے اس مجذوب انسان کو دیوانہ سمجھ لیا ۔

 
عاقلان از عشق و مستی بے نصیب
نبض او دادند در دست طبیب

مطلب: عقلمندوں نے جو عشق و مستی کے جذبوں سے محروم ہیں اسکی نبض طبیب کے ہاتھ میں دے دی، یعنی ڈاکٹروں سے اسکا علاج کروایا ۔

 
با پزشگان چیست غیر از ریو و رنگ
وائے مجذوبے کہ زاد اندر فرنگ

مطلب: معالجوں کے پاس نمائش اور فریب کے سوا اور ہے ہی کیا، افسوس اس مجذوب پر جو افرنگ یا یورپ میں پیدا ہوا ۔

 
ابن سینا بر بیاضے دل نہد
رگ زند یا حب خواب آور دہد

مطلب: ابن سینا (بہت بڑا طبیب ) نسخہ جات کی بیاض پر دل لگاتا ہے یعنی جو کچھ کتابوں میں تھا ، جو اسی کے مطابق علاج کر جاتا یا پھر اس کی فصد کھولتا یا نیند لانے والی گولی دیتا ہے ۔

 
بود حلاجے بشہر خود غریب
جان ز ملا برد و کشت او را طبیب

مطلب: وہ (نیٹشے) ایک ایسا حلاج تھا جو اپنے شہر کے اندر بھی اجنبی تھا، ملا یعنی عیسائیوں کے مذہبی پیشواؤں سے تو اس کی جان بچ گئی لیکن طبیبوں نے اسے مار ڈالا ۔

 
مرد رہ دانے نبود اندر فرنگ
پس فزون شد نغمہ اش از تار چنگ

مطلب: یورپ کے اندر کوئی راہ داں آدمی نہ تھا اس لیے اس (نیٹشے) کا نغمہ ساز کے تاروں سے بڑھ گیا ۔

 
راہرو کس نشان از رہ نداد
صد خلل در واردات او فتاد

مطلب: مسافر (مراد نیٹشے) کو کسی نے راستے کا پتہ نہ بتایا اس لیے اس کی واردات (وارداتِ قلبی) میں سینکڑوں خلل پیدا ہو گئے ۔

 
نقد بود و کس عیار او را نکرد
کار دانے مرد کار او را نکرد

مطلب: وہ نقدی (سونا) تھا، کسی نے اسے کسوٹی پر نہیں لگایا (نہیں پرکھا) کسی مردِ کار (مردِ کامل) نے اسے مردِ کار (باتیں سمجھنے والا نہ بنایا) ۔

 
عاشقے در آہ خود گم گشتہ ئی
سالکے در راہ خود گم گشتہ ئی

مطلب: وہاں ایک ایسا عاشق تھا جو اپنی آہوں میں کھو گیا تھا (گم رہا) وہ ایک ایسا سالک تھا جو اپنے رستے ہی میں گم ہو گیا تھا (منزل تک نہ پہنچ سکا) ۔

 
مستی او ہر زجاجے را شکست
از خدا ببرید و ہم از خود گسست

مطلب: اس کی مستی نے ہر شیشے (نظریہ) کو توڑ ڈالا، وہ خدا سے تو بے تعلق ہوا ہی تھا اپنے آپ سے بھی بے تعلق ہو گیا ۔

 
خواست تا بیند بچشم ظاہری
اختلاط قاہری با دلبری

مطلب: اس نے دلبری اور قاہری کے اختلاط کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنا چاہا ۔

 
خواست تا از آب و گل آید برون
خوشہ ئی کز کشت دل آید برون

مطلب: اس نے چاہا کہ آب و گل یعنی آدم سے باہر نکلے ۔

 
آنچہ او جوید مقام کبریاست
این مقام از عقل و حکمت ماوراست

مطلب: اسے مقام کبریا کی تلاش تھی ، اور یہ مقام عقل و حکمت سے ماورا ہے ۔

 
زندگی شرح اشارات خودی است
لا و الا از مقامات خودی است

مطلب: زندگی خودی کے اشاروں یا رمزوں کی شرح ہے، لا اور الا خودی ہی کے مقامات میں سے ہیں ۔

 
او بہ لا در ماند و تا الا نرفت
از مقام عبدہ، بیگانہ رفت

مطلب: جو لا ہی میں الجھ کر رہ گیا اور الا تک نہ پہنچا اور عبدہ کے مقام سے بیگانہ رہا ۔

 
با تجلی ہمکنار و بے خبر
دور تر چون میوہ از بیخ شجر

مطلب تجلی اس (نیٹشے) کے پہلو میں تھی لیکن وہ اس سے بے خبر رہا ۔

 
چشم او جز رویت آدم نخواست
نعرے بے باکانہ زد، آدم کجاست

مطلب: اس کی آنکھوں نے آدم کی رویت (مرد کامل کا نظارہ) کے سوا اور کچھ نہ چاہا، اس نے بیباکانہ نعرہ لگایا کہ آدم (فوق البشر) کہاں ہے ۔

 
ورنہ او از خاکیان بیزار بود
مثل موسیٰ طالب دیدار بود

مطلب: ورنہ وہ تو خود بھی آدمیوں سے بیزار تھا اور حضرت موسیٰ کی طرح خدا کے دیدار کا طالب تھا ۔

 
کاش بودے در زمان احمدے
تا رسیدے بر سرورے سرمدے

مطلب : کاش وہ کسی احمد یعنی حضرت شیخ احمد سرہندی کے زمانے میں ہوتا تاکہ وہ سرورِ دائم (ہمیشہ رہنے والے سرور) حاصل کر لیتا ۔ وہ اسے سرور سرمدی تک پہنچا دیتے ۔

 
عقل او با خویشتن در گفتگوست
تو رہ خود رو کہ راہ خود نکوست

مطلب: اس (نیٹشے) کی عقل اپنے آپ سے گفتگو میں لگی ہوئی ہے ۔ تو اپنے راستے پر چل تیرا راستہ ہی بہتر ہے، آگے بڑھ ۔

 
پیش نہ گامے کہ آمد آن مقام
کاندرو بے حرف می روید کلام

مطلب: اے زندہ رود تو قدم آگے بڑھا کہ اب و ہ مقام آ گیا ہے جہاں الفاظ کے بغیر ہی باتیں ہوتی ہیں یہ مقام لاہوت ہے ۔ دوسرا مصرع رومی کی مثنوی کا ہے ۔ اپنے شعر میں رومی نے یہی کہا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں الفاظ کے بغیر کلام کرنا ممکن ہے جبکہ عقل اس کا ادراک نہیں رکھتی ۔