غزل نمبر۴۱
نظر تو ہمہ تقصیر و خرد کوتاہی نرسی جز بہ تقاضاے کلیم الٰہی
مطلب: تیری نظر ساری کی ساری خطا ہے اور عقل بھول (جو اس کی مدد سے خدا کو نہیں پا سکتا) کلیم اللہ ایسی طلب کے بغیر تو (منزل مقصود تک ) نہیں پہنچے گا ۔ اپنے اندر وہی جذبہ پیدا کر جو حضرت موسیٰ کے دل میں موجزن تھا ۔
راہ کور است بخود غوطہ زن اے سالک رہ جادہ را گم نکند در تہ دریا ماہی
مطلب: راہ تاریک ہے اے مسافر اپنے اندر غوطہ لگا (اپنی خودی میں غوطہ زن ہو) ۔ مچھلی دریا کی تہ میں راستہ گم نہیں کرتی (کیونکہ وہ اس کی فطرت کے مطابق ہے) ۔
حاجتے پیش سلاطین نبرد مرد غیور چہ توان کرد کہ از کوہ نیاید کاہی
مطلب: غیرت والا مرد بادشاہوں کے آگے کوئی حاجت نہیں لے جاتا ۔ کیا کیا جائے کہ پہاڑ تنکے جیسا نہیں بن سکتا ۔
مگزر از نغمہ شوقم کہ بیابی دروے رمز درویشی و سرمایہ شاہنشاہی
مطلب: میرے نغمہ شوق کو ان سنا مت کر کہ تو اس میں پائے گا فقیری کا بھید اور بادشاہی کی اصل ۔
نفسم با تو کند آنچہ بہ گل کرد نسیم اگر از لذت آہ سحری آگاہی
مطلب: میرا نغمہ تیرے ساتھ وہی کرے گا جو پھول سے نسیم نے کیا ۔ اگر تو آہ سحر کی لذت سے آگاہ ہے ۔
اے فلک چشم تو بیباک و بلا جوست ہنوز می شناسم کہ تماشائے دگر می خواہی
مطلب: اے فلک تیری آنکھ اب تک بے باک اور بلاؤں کی کھوج میں ہے میں جانتا ہوں کہ تو کوئی اور تماشہ چاہتا ہے (اس شعر میں اقبال نے دوسری جنگ عظیم کی پیشگوئی کی ہے) ۔