Please wait..

حکایت دریں معنی کہ مسئلہ نفی خود از مخترعات اقوام مغلوبہ بنی نو ع انسان است کہ بایں طریق مخفی اخلاق اقوام غالبہ را ضعیف می سازند
( اس موضوع سے متعلق کہ خودی کی نفی کا مسئلہ بنی نوع انسان کے مغلوب قوموں کی اختراعات (ایجادات) میں سے ہے تا کہ وہ اس خفیہ طریقے سے غالب قوموں کے اخلاق کو کمزور کر دیں ۔ )

 
آن شنیدستی کہ در عہد قدیم
گوسفندان در علف زارے مقیم

مطلب: کیا تو نے سنا ہے کہ قدیم زمانے میں بہت سی بھیڑ بکریاں ایک چراگاہ میں رہتی تھیں ۔

 
از وفور کاہ نسل افزا بدند
فارغ از اندیشہ ی اعدا بدند

مطلب: گھاس چارے کی کثرت کی وجہ سے ان کی نسل خوب بڑھ رہی تھی اور وہ دشمنوں کے ڈر سے بھی بے فکر تھیں ۔

 
آخر از ناسازی تقدیر میش
گشت از تیر بلاے سینہ ریش

مطلب :یہ حالت تھی کہ آخر بھیڑ بکریوں کی تقدیر یکایک بگڑی اور مصیبت کے تیروں سے ان کے سینے زخمی ہو گئے ۔

 
شیر ہا از بیشہ سر بیرون زدند
بر علف زار بزان شبخون زدند

مطلب: (ہوا یوں کہ) چند شیر کسی جنگل سے ادھر آ نکلے اور انھوں نے رات کے وقت ان بھیڑوں پر حملہ کر دیا ۔

 
جذب و استیلا شعار قوت است
فتح راز آشکار قوت است

مطلب: (حقیقت یہ ہے کہ) اپنی طرف کھینچ لینا اور غلبہ پا لینا قوت کا (پرانا ) طریق کار ہے اور فتح ، قوت ہی کا ایک کھلا بھید ہے ۔

 
شیر نر کوس شہنشاہی نواخت
میش را از حریت محروم شاخت

مطلب: شیر نر (شیروں ) نے اپنی شہنشاہی کا ڈنکا بجایا اور بھیڑوں کو آزادی سے محروم کر دیا ۔

 
بسکہ از شیران نیاید جز شکار
سرخ شد از خون میش آن مرغزار

مطلب: شیر چونکہ شکار کرنا ہی جانتے ہیں ( اس لیے) وہ چراگاہ بھیڑوں کے خون سے سرخ ہو گئی ۔

 
گوسفندے زیرکے فہمیدہ ئی
کہنہ سالے گرگ باران دیدہ ئی

مطلب: ایک بھیڑ بڑی دانا اور سمجھ بوجھ والی تھی، باشعور تھی، پختہ عمر کی اور جہاں دیدہ تھی ۔

 
تنگدل از روزگار قوم خویش
از ستم ہائے ہژبران سینہ ریش

مطلب: وہ اپنی قوم کے حالات سے پریشان تھی، اس کا سینہ شیروں کے ظلم و ستم کے سبب زخمی تھی ۔

 
شکوہ ہا از گردش تقدیر کرد
کار خود را محکم از تدبیر کرد

مطلب: بھیڑوں کی گردش تقدیر کے شکوے کرتے ہوئے اپنے معاملے کو تدبیر سے مستحکم کیا (اپنا کام تدبیر سے مضبوط کیا) ۔

 
بہر حفظ خویش مرد ناتوان
حیلہ ہا جوید ز عقل کاروان

مطلب: (حقیقت یہ ہے کہ) کمزور آدمی اپنی حفاظت کیلئے آزمودہ اور معاملہ فہم عقل سے کام لینے کے انداز سوچتا ہے (حیلہ سازی کرتا ہے) ۔

 
در غلامی از پے دفع ضرر
قوت تدبیر گردد تیز تر

مطلب: غلامی میں نقصان اور تکلیف کو دور رکھنے (اس سے بچنے) کے لیے تدبیر کی قوت تیز ہو جاتی ہے ۔ (بہت بڑھ جایا کرتی ہے) ۔

 
پختہ چون گردد جنون انتقام
فتنہ اندیشی کند عقل غلام

مطلب: جب انتقام کا جنون پختہ ہو جاتا ہے تو غلام کی عقل نت نئے مکر و فریب سوچنے لگتی ہے ۔ (ان اشعار میں بھیڑوں ہی کے حوالے سے یہ بتایا گیا ہے کہ کمزور اقوام کس طرح طاقت کے بجائے تدبیر سے کام لے کر غالب اقوام کو جہد و عمل سے بیگانہ کر دیتی ہیں ۔ ) ۔

 
گفت با خود عقدہ ی ما مشکل است
قلزم غمہای ما بی ساحل است

مطلب: اس نے دل میں کہا ہماری گتھی کا سلجھاوَ بہت مشکل ہے ، ہمارے غموں کا سمندر بے کراں ہے (اس کا کوئی کنارہ نہیں دکھائی دیتا) ۔

 
میش نتواند بزور از شیر رست
سیم ساعد ما و او پولاد دست

مطلب: بھیڑ بکری میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس کے بل پر شیر سے نجات حاصل کر سکیں ، ہم چاندی کی کلائی والی (بہت کمزور) ہیں اور وہ فولاد کے ہاتھوں والا (بہت طاقتور ) ہے ۔

 
نیست ممکن کز کمال واعظ و پند
خوئے گرگی آفریند گوسفند

مطلب: وعظ و نصیحت سے ممکن نہیں ہے کہ بھیڑ ، بھیڑیئے کی سی خو خصلت پیدا کر لے ۔

 
شیر نر را میش کردن ممکن است
غافلش از خویش کردن ممکن است

مطلب: ہاں شیر نر کو بکری بنا لینا ممکن ہے ۔ اسے اس کی اپنی ذات سے غافل کر دینا بھی ممکن ہے ۔

 
صاحب آوازہ ی الہام گشت
واعظ شیران خون آشام گشت

مطلب: چنانچہ اس نے کچھ ایسا ڈھنڈورا پیٹ دیا جیسے اس پر وحی نازل ہوئی (الہام کا دعویٰ کیا) اور یوں وہ خون پینے والے شیروں کی واعظ بن گئی ۔

 
نعرہ زد اے قوم کذاب اشر
بے خبر از یوم نحس مستمر

مطلب: نعرہ لگایا کہ اے بے حد جھوٹی اور شیخی باز قوم، تم لوگ ہمیشہ ہمیشہ کی نحوست سے بے خبر ہو(غافل ہو) ۔

 
مایہ دار از قوت روحانیم
بہر شیراں مرسل یزدانیم

مطلب : میں روحانی قوت سے مالا مال ہوں (مجھے بے حد روحانی قوت عطا ہوئی ہے) میں شیروں کے لیے خدا کی طرف سے بھیجی گئی رسول ہوں ۔

 
دیدہ ی بے نور را نور آمدم
صاحب دستور و مامور آمدم

مطلب: میں بصارت سے محروم آنکھوں کے لیے نور بن کر آئی ہوں ۔ میں شریعت لے کر اور خاص حکم و منصب کے ساتھ آئی ہوں ۔

 
توبہ از اعمال نامحمود کن
اے زیان اندیش فکر سود کن

مطلب: (تو اے شیروں کی قوم) تو اپنے برے کاموں سے توبہ کرو، اے نقصان کی حامل سوچ رکھنے والی قوم اپنی بھلائی اور فائدے کا خیال کرو ۔

 
ہر کہ باشد تند و زور آور شقی است
زندگی مستحکم از نفی خودی است

مطلب: جو کوئی بھی غصیلا اور طاقت کے نشے میں چور ہے وہ بدبخت ہے ، زندگی کو استحکام تو اپنی ذات، اپنی قوت کی نفی ہی سے میسر آتا ہے ۔

 
روح نیکان از علف یابد غذا
تارک اللحم است مقبول خدا

مطلب: دیکھو، نیک روحیں گھاس پات کھا کر گزارہ کرتی ہے جو گوشت کھانا چھوڑ دے وہ خدا کا مقبول بندہ بن جاتا ہے ۔

 
تیزی دندان ترا رسوا کند
دیدہ ی ادراک را اعمی کند

مطلب: دانتوں کی تیزی تجھے رسوا کر رہی ہے اس سے عقل کی آنکھ اندھی ہو جاتی ہے ۔

 
جنت از بہر ضعیفان است و بس
قوت از اسباب خسران است و بس

مطلب: جنت تو صرف کمزوروں اور ناتوانوں کے لیے ہے، جب کہ قوت و طاقت ہی خسارے کا سامان بن جاتی ہے ۔

 
جستجوئے عظمت و سطوت شر است
تنگدستی از امارت خوشتر است

مطلب : شان و شوکت اور ہیبت و دبدبہ کی تلاش و کوشش تو نرا فساد (برائی ) ہے ۔ مفلسی (تنگ دستی) دولتمندی سے کہیں بہتر ہے ۔

 
برق سوزان در کمین دانہ نیست
دانہ گر خرمن شود فرزانہ نیست

مطلب: جلا دینے والی بجلی اکیلے دانے کی گھات میں نہیں رہتی، سودانہ اگر فصل کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو وہ دانشمند نہیں ہے (بجلی کے گرنے کا راستہ کھل جاتا ہے اس لیے انبار جمع نہ کیا جائے ) ۔

 
ذرہ شو صحرا مشو گر عاقلی
تا ز نور آفتابے بر خوری

مطلب: اگر تم عقل مند ہو تو ذرہ ہی بنے رہو ، صحرانہ بنو، تا کہ تو سورج کی روشنی سے فیض حاصل کر لو ۔

 
اے کہ می نازی بذبح گوسفند
ذبح کن خود را کہ باشی ارجمند

مطلب: تو جو بھیڑ بکری کو مار کر فخر کرتا ہے اگر بلندی کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو ذبح کر، یعنی اپنے آپ کو مار ۔

 
زندگی را می کند ناپایدار
جبر و قہر و انتقام و اقتدار

مطلب: ظلم و تشدد، سختی، انتقام اور قوت و قدرت زندگی کو ناپائدار بنا دیتی ہے(بنیاد کھوکھلی کر ڈالتا ہے) ۔

 
سبزہ پامال است و روید بار بار
خواب مرگ از دیدہ شوید بار بار

مطلب: (دیکھو) سبزہ پاؤں تلے روندا جاتا ہے (لیکن پھر بھی) بار بار اگتا ہے اور اپنی آنکھوں سے موت کی نیند بار بار دھو ڈالتا ہے(یعنی پامالی اسے ختم نہیں کرتی بلکہ رہنے کی قوت عطا کرتی ہے) ۔

 
غافل از خود شو اگر فرزانہ ئی
گر ز خود غافل نہ ئی دیوانہ ئی

مطلب: اگر تو عقل مند ہے تو اپنے آپ سے (اپنی اہلیتوں ) سے غافل ہو جا ۔ اگر تو خود سے غافل نہیں ہے تو پھر تو دیوانہ ہے ۔

 
چشم بند و گوش بند و لب بہ بند
تا رسد فکر تو بر چرخ بلند

مطلب: آنکھ بند کر لے، کان بند کر لے اور ہونٹ یعنی منہ بند کر لے تا کہ تیری قوت ، فکر، بلند آسمان تک جا پہنچے ۔

 
این علف زار جہان ہیچ است ہیچ
تو برین موہوم اے نادان مپیچ

مطلب: دنیا کی چراگاہ کچھ بھی نہیں ہے (سراسر ناکارہ اور بے حقیقت ہے) تو اے پگلے ، اس خیالی دنیا سے مت لپٹ(یہ وہم کی پیداوار ہے اسے تعلق نہ رکھ) ۔

 
خیل شیر از سخت کوشی خستہ بود
دل بذوق تن پرستی بستہ بود

مطلب: شیروں کا گروہ لگاتار جدوجہد اور محنت مشقت سے تھک کر چور ہو چکا تھا ۔ چنانچہ اس نے تن پرستی کا ذوق دل میں پیدا کر لیا (آرام طلب ہو گیا) ۔

 
آمدش این پند خواب آور پسند
خورد از خامی فسون گوسفند

مطلب: اس گروہ کو جدوجہد سے بیگانہ کر دینے والی یہ نصیحت پسند آ گئی ۔ نادانی سے ان پر بھیڑ کا جادو چل گیا ۔

 
آنکہ کردے گوسفنداں را شکار
کرد دین گوسفندی اختیار

مطلب: وہ گروہ جو کبھی بھیڑوں کا شکار کیا کرتا تھا اب اس نے بھیڑوں کی سی خصلت اپنا لی ۔

 
با پلنگان سازگار آمد علف
گشت آخر گوہر شیری خزف

مطلب: (نتیجہ یہ نکلا کہ) چیتوں یعنی شیروں کو اب گھاس مزہ دینے لگی اور یوں ان کے شیر پن کا گوہر بہا ٹھیکری بن کر رہ گیا (تمام جوہر زائل ہو گئے) ۔

 
از علف آن تیزی دندان نماند
ہیبت چشم شرار افشان نماند

مطلب: گھاس کھانے سے دانتوں کی وہ پہلی سی کاٹ اور تیزی نہ رہی ۔ شعلے بکھیرنے والی آنکھ کی وہ پہلی سی ہیبت نہ رہی ۔

 
دل بتدریج از میان سینہ رفت
جوہر آئینہ از آئینہ رفت

مطلب: دل (جو جرات و دلیری کا منبع تھا) سینے سے نکل گیا، گویا آئینے کی چمک آئینے سے جاتی رہی ۔ آئینہ سے مراد دل اور جوہر آئینہ سے مراد جذبہ صادق ہے جس کی بدولت بڑے بڑے معرکے سر کئے جاتے ہیں ) ۔

 
آن جنون کوشش کامل نماند
آن تقاضائے عمل در دل نماند

مطلب: وہ پورے طور پر جدوجہد کرنے کا شوق و جذبہ نہ رہا ۔ عمل کا وہ تقاضا دل سے جاتا رہا ۔

 
اقتدار و عزم و استقلال رفت
اعتبار و عزت و اقبال رفت

مطلب: اقتدار، عزم اور ثابت قدمی سے وہ محروم ہو گئے ۔ ساکھ، عزت اور خوش بختی نے ساتھ چھوڑ دیا ۔

 
پنجہ ہائے آہنین بے زور شد
مردہ شد دلہا و تنہا گور شد

مطلب: فولادی مضبوط پنجوں میں کمزوری آ گئی، دل مردہ ہو گئے اور جسموں نے قبر کی سی صورت اختیار کر لی ۔

 
زور تن کاہید و خوف جان فزود
خوف جان سرمایہ ی ہمت ربود

مطلب: جسم کی قوت و طاقت گھٹ گئی اور جان کا خوف بڑھ گیا ۔ جان کے اس خوف نے ہمت اور دلیری کی پونجی کو بھی ختم کر دیا ۔

 
صد مرض پیدا شد از بے ہمتی
کوتہ دستی، بیدلی، دون فطرتی

مطلب: بے ہمتی آئی تو سینکڑوں بیماریاں پیدا ہو گئیں مثلا ناکارگی، بیدلی اور پست فطرتی ۔

 
شیر بیدار از فسون میش خفت
انحطاط خویش را تہذیب گفت

مطلب: وہ شیر جو بیدار تھا (دلیر و قوی تھا) بھیڑ کے جادو نے اسے سُلا دیا ۔ اس کی قوت میں زوال آ گیا ۔ اس نے زوال کی حالت کو تہذیب کا نام دے دیا ۔اس سے مراد یہی ہے کہ وہ جذبوں اور قوت عمل سے عاری ہو کر اپنا تشخص کھو بیٹھا ۔ علامہ ایک جگہ کہتے ہیں
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے