تہذیب
انسان کہ رخ ز غازہ تہذیب بر فروخت خاک سیاہ خویش چو آئینہ وانمود
مطلب: انسان جس نے تہذیب کے غازے سے اپنا چہرہ چمکا رکھا ہے اپنی خباثت کو اجلا کر کے ظاہر کیا (اپنی سیاہ خاک کو آئینہ بنا رکھا ہے) ۔
پوشید پنجہ را تہ دستانہ حریر افسونی قلم شد و تیغ از کمر کشود
مطلب: جس نے اپنا ہاتھ ریشمی دستانے میں چھپا رکھا ہے قلم سے مسحور پر جانے والا بن گیا اور تلوار کمر سے کھول دی ۔
ایں بوالہوس صنم کدہ صلح عام ساخت رقصید گرد او بنو بنواہائے چنگ و عود
مطلب: اس ابو الہوس نے صلح عام کا بت خانہ بنایا چنگ اور بربط کی دھنوں پر اسکے گرد ناچا ۔
دیدم چو جنگ پردہ ی ناموس اور درید جز یسفک الدما حصیم مبیں نبود
مطلب: جنگ عظیم نے اسکی مکاری کا پردہ چاک کر دیا تو میں نے دیکھا وہ صرف خون بہانے والا اور کھلم کھلا جھگڑالو ہی نکلا ۔ نوٹ: یہ نظم اقبال نے جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو کر لکھی تھی ۔ اقوام یورپ زبان سے دنیا کو تہذیب اور شائستگی کا درس دیتی ہے لیکن خود ان کا عمل درندوں سے بدتر ہے ۔