غزل نمبر۲۳
بشاخ زندگی ما نمے ز تشنہ لبی است تلاش چشمہ حیوان دلیل کم طلبی است
مطلب: ہماری زندگی کی شاخ میں طراوت پیاس سے ہے ۔ آب حیات کے چشمہ کی تلاش طلب کی خامی کی دلیل ہے ۔ عاشق صادق کی کامیا بی کا راز فراق میں ہے ۔ آرزوئے وصال خامی یا نادانی کی دلیل ہے ۔
حدیث دل بہ کہ گویم ، چہ راہ بر گیرم کہ آہ بے اثر است و نگاہ بے ادبی است
مطلب: دل کی بات کس سے کہوں کون سی راہ نکالوں (کہاں جاؤں ) کہ آہ بے اثر ہے اور نظر اٹھانا بے ادبی ہے ۔
غزل بزمزمہ خوان پردہ پست تر گردان ہنوز نالہ مرغان نواے زیر لبی است
مطلب: غزل دھیمے دھیمے گنگنا، لے اور مدھم رکھ(تاکہ سر تیز ہو) کیونکہ ابھی پرندوں کا نالہ ہونٹوں میں دبا ہوا گیت ہے ۔
متاع قافلہ ما حجازیان بردند ولے زبان نکشائی کہ یار ما عربی است
مطلب: حجازیوں نے ہمارے قافلے کا سامان لوٹ لیا ہے مگر زبان مت کھولنا کہ ہمارا محبوب بھی عربی ہے ۔
نہال ترک ز برق فرنگ بار آورد ظہور مصطفوی را بہانہ بولہبی است
مطلب: ترکوں کا پودا فرنگ کی بجلی سے پھل لایا (مصطفی کمال پاشا کی کامیابی کی طرف اشارہ ہے) ۔ جناب رسول پاک کے لیے بولہبی تو ایک بہانہ ہے ۔
مسنج معنی من در عیار ہندو عجم کہ اصل ایں گہر از گریہ ہاے نیم شبی است
مطلب: میرے کہے ہوئے بھید (اشعار) کو ہند اور ایران کی کسوٹی پر مت پرکھ ۔ اس گوہر کی اصل نیم شبی کے آنسووَ ں سے ہے ۔
بیا کہ من ز خم پیر روم آوردم مے سخن کہ جوان تر ز بادہ عنبی است
مطلب: آ کہ میں پیر روم کے مٹکے سے لایا ہوں (میرا کلام اور پیغام پیر رومی کی تعلیمات سے ماخوذ ہے) سخن کی شراب جو انگوری شراب سے بڑھ کر تند ہے (میری شراب پیر روم کے میخانہ سے آئی ہے اس لیے اس میں انگوری شراب سے کہیں زیادہ مستی ہے) ۔