Please wait..

بوئے گل
پھول کی خوشبو

 
حوری بکنج گلشن جنت تپید و گفت
ما را کسی ز آن سوی گردون خبر نداد

مطلب: جنت کے پھولوں بھرے چمن کے ایک گوشے میں ایک حور تڑپ تڑپ کر کہتی تھی ۔ ہمیں کسی نے آسمان کی اس طرح کی خبر نہیں دی (یعنی دنیا کی خبر نہ دی کہ کیا ہے) ۔

 
ناید بفہم من سحر و شام و روز و شب
عقلم ربود این کہ بگویند مرد و زاد

مطلب: میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ صبح و شام اور دن رات کیا ہے ۔ یہ سن سن کر میری تو عقل گم ہو گئی کہ فلاں مر گیا فلاں پیدا ہو گیا ۔ ( میں سنتی ہوں کہ دنیا ایسی جگہ ہے جہاں صبح و شام بھی ہوتی ہے اور رات دن بھی ہوتا ہے ۔ میں یہ تبدیلی اوقات کو سمجھ نہیں سکتی اور نہ یہ بات میری سمجھ میں آتی ہے کہ وہاں لوگ پیدا ہوتے ہیں پھر مر جاتے ہیں ۔

 
گردید موج نکہت و از شاخ گل دمید
پا اینچنین بعالم فردا و دی نہاد

مطلب: پھر وہ خوشبو کی لہر میں ڈھل (تبدیل ہو) گئی اور گلاب کی ایک ٹہنی سے ظاہر ہوئی (شاخ گل سے پھوٹی)یوں اس نے ہر آن بدلی ہوئی دنیا میں قدم رکھا ۔

 
وا کرد چشم و غنچہ شد و خندہ زد دمی
گل گشت و برگ برگ شد و بر زمین فتاد

مطلب: اس نے آنکھ کھولی اور کلی بن گئی اور دم بھر کر مسکرائی پھول بنی اور پتی پتی ہوئی اور خاک پر بکھر گئی ۔

 
زان نازنین کہ بند ز پایش گشادہ اند
آہی است یادگار کہ بو نام دادہ اند

مطلب: اس نازنین (حور) سے کہ جس کے پاؤں کی بیڑی کھول دی گئی (قید ہستی سے آزاد ہوئی) ایک آہ یادگار (بن کر) رہ گئی جسے خوشبو کا نام دیا گیا ۔ (بوقت رخصت اس نے ایک آہ اپنے سینے سے کھینچی، یہ اس کی آہ ہے جس کو ہم لوگ خوشبو کہتے ہیں ۔
نوٹ: جس طرح پھول کی اصل پاکیزہ خوشبو ہے جس کی کوئی شکل نہیں ہے اسی طرح آدمی کا پاکیزہ جوہر اس کی روح ہے جسم نہیں ۔ شاعر کی نگاہ میں خوشبو ایک لطیف آسمانی جوہر ہے جو مادہ سے پاک ہے ۔ یہ ایک دلکش تخیلی نظم ہے جس میں شاعر نے یہ بتایا ہے کہ پھول میں خوشبو کہاں سے آئی ۔