Please wait..

مسافر مثنوی
(سیاحت چند روزہ افغانستان)

 
نادر افغان شہ درویش خو
رحمت حق بر روان پاک او

مطلب: افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ ایک درویش صفت انسان تھا، اس کی پاک روح پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے ۔

 
کار ملت محکم از تدبیر او
حافظ دین مبین شمشیر او

مطلب: اس کی تدبیر سے امت مسلمہ کے معاملات کو استحکام حاصل ہوا اور اس کی تلوار نے دین مبین کی حفاظت کی ۔

 
چون ابوذر خود گداز اندر نماز
ضربتش ہنگام کیں خارا گداز

مطلب: وہ نماز میں حضرت ابوذر غفاری کی طرح خود کو پگھلا دینے والے تھے اور کفار سے لڑائی کے موقع پر ان کا وار سخت پتھر کو بھی ختم کر کے رکھ دیتا تھا ۔

 
عہد صدیق از جمالش تازہ شد
عہد فاروق از جلالش تازہ شد

مطلب: ان کے جمال سے حضرت ابوبکر صدیق کے عہد کی یاد تازہ ہوئی ۔ اور ان کے جلال سے عہد فاروق کی ۔

 
از غم دین در دلش چون لالہ داغ
در شب خاور وجود او چراغ

مطلب: ان کے دل میں گل لالہ کی طرح اسلام سے محبت کا داغ موجود تھا ۔ عالم مشرق کی تاریک رات دن میں اس کا وجود آزادی کے چراغ کی حیثیت رکھتا ہے ۔

 
در نگاہش مستی ارباب ذوق
جوہر جانش سراپا جذب و شوق

مطلب: ان کی نگاہوں میں ارباب ذوق کی سی مستی تھی ۔ جذب و شوق ان کی جان کا جوہر تھا ۔

 
خسروی شمشیر و درویشی نگہ
ہر دو گہر از محیط لا الہ

مطلب: ان کی تلوار تو شاہانہ ہے لیکن نگاہ درویشانہ تھی ۔ یہ دونوں موتی انہیں لا الہ کے سمندر سے ملے تھے ۔

 
فقر و شاہی واردات مصطفی  است
این تجلیہاے ذات مصطفی  است

مطلب: فقر اور بادشاہی دونوں پر رسول اللہ ﷺ کی خاص حالت کی غماز ہیں اور یہ حضور کی ذات بابرکات کی تجلیات سے قائم ہیں ۔

 
این دو قوت از وجود مومن است
این قیام و آن سجود مومن است

مطلب: یہ دو قوتیں مومن ہی کے وجود سے قائم ہیں ، یہ شاہی مومن کا قیام ہے تو وہ فقر اس کا سجدہ ہے ۔

 
فقر سوز و درد و داغ و آرزوست
فقر ران در خون تپیدن آبروست

مطلب: فقر سوز و درد اور داغ و آرزو کا نام ہے ۔ اور فقر کے لیے خون میں تڑپنا اسکی آبرو ہے ۔

 
فقر نادر آخر اندر خون تپید
آفرین بر فقر آن مرد شہید

مطلب: نادر شاہ کا فقر آخر کار خون میں تڑپا ۔ اس شہید مرد کے فقر پر آفرین ہے ۔

 
اے صبا اے رہ نورد تیزگام
در طواف مرقدش نرمک خرام

مطلب: اے صبا تو تیز چلنے والی مسافر ہے ۔ جب تو اس نادر شاہ کی قبر کے گرد چکر لگائے تو ذرا آہستہ چکر لگانا ۔

 
شاہ در خواب است پا آہستہ نہ
غنچہ را آہستہ تر بکشا گرہ

مطلب: نادر شاہ سو گیا ہے باد صبا آہستہ پاؤں رکھ اور گلی کی گرہ بھی آہستہ سے کھول ۔

 
از حضور او مرا فرمان رسید
آنکہ جان تازہ در خاکم دمید

مطلب: ان کی طرف سے مجھے فرمان پہنچا ہے جس نے میرے بدن میں نئی روح پھونک دی ہے ۔

 
سوختیم از گرمی آواز تو
اے خوش آن قومے کہ داند راز تو

مطلب: ہم تیری آواز کے سوز سے جل اٹھے ۔ وہ قوم کتنی خوش قسمت ہے جس نے تیرا راز پا لیا ۔

 
از غم تو ملت ما آشناست
می شناسیم این نواہا از کجاست

مطلب: تیرے غم سے ہماری قوم (افغان) آگاہ ہے، ہم جانتے ہیں کہ یہ نغمے کہاں سے اٹھ رہے ہیں ۔

 
اے بآغوش سحاب ما چو برق
روشن و تابندہ از نور تو شرق

مطلب: تو ہمارے بادل کی آغوش میں بجلی کی مانند ہے ۔ تیری روشنی سے دنیائے مشرق روشن اور فروزاں ہے ۔

 
یک زمان در کوہسار ما درخش
عشق را باز آن تب و تاب بہ بخش

مطلب: کچھ عرصہ کے لیے ہماری پہاڑوں کی سرزمین پر بھی چمک، عشق کو دوبارہ پھر وہی ولولہ و شوق عطا کر ۔

 
تا کجا در بندہا باشی اسیر
تو کلیمی راہ سیناے بگیر

مطلب: کب تک تو بیڑیوں میں مقید رہے گا ۔ تو تو کلیم ہے سینا پہاڑ کا راستہ پکڑ ۔

 
طے نمودم باغ و راغ و دشت و در
چون صبا بگزشتم از کوہ و کمر

مطلب: چنانچہ میں دشت و درہ اور باغ اور مرغزاروں میں سے گزرا ۔ صبا کی طرح میں پہاڑ اور وادیوں کا راستہ طے کیا ۔

 
خیبر از مردان حق بیگانہ نیست
در دل او صد ہزار افسانہ ایست

مطلب: درہ خیبر اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں سے نا آشنا نہیں ۔ اس کے دل میں لاکھوں ہی افسانے ہیں ۔

 
جادہ کم دیدم ازو پیچیدہ تر
یاوہ گردد در خم و پیچش نظر

مطلب: میں نے اس سے زیادہ دشوار گزار راستہ نہیں دیکھا ۔ اس کے پیچ و خم میں نظر الجھ کے رہ جاتی ہے ۔

 
سبزہ در دامان کہسارش مجوے
از ضمیرش بر نیاید رنگ و بوے

مطلب: اس کے پہاڑوں کی وادیوں میں سبزہ نہ ڈھونڈ ۔ اس کے ضمیر کے اندر سے رنگ و بو پیدا نہیں ہوتا ۔

 
سرزمینے کبک او شاہین مزاج
آہوئے او گیرد از شیران خراج

مطلب: وہ ایک ایسی سرزمین ہے جہاں کا کمزور پرندہ چکور بھی شاہین کا مزاج رکھتا ہے ۔ جبکہ وہاں کا ہرن شیروں سے خراج وصول کرتا ہے ۔

 
در فضایش جرہ بازان تیز چنگ
لرزہ بر تن از نہیب شان پلنگ

مطلب: اس کی فضا میں تیز پنجوں والے ایسے نر باز ہیں جن کی ہیبت سے چیتے کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے ۔

 
لیکن از بے مرکزی آشفتہ روز
بے نظام و ناتمام و نیم سوز

مطلب: لیکن کوئی مرکز نہ ہونے کی وجہ سے یہ سرزمین انتشار کا شکار ہے ۔ کوئی ان کا نظام نہیں اور نامکمل اور نیم سوز ہے ۔

 
فر بازان نیست در پرواز شان
از تدروان پست تر پرواز شان

مطلب: ان کی پرواز میں بازوں کی سی شان نہیں ۔ بلکہ ان کی پرواز چکوروں سے بھی پست تر ہے ۔

 
آہ قومے بے تب و تاب حیات
روزگارش بے نصیبی از واردات

مطلب: افسوس ہے ایسی قوم پر جس میں زندگی کا جوش و جذبہ نہ ہو اور جس کے حالت و کیفیت واردات سے خالی ہو ۔

 
این یکے اندر سجود این در قیام
کاروبارش چون صلوٰت بے امام

مطلب: ان میں سے کوئی تو سجدے میں پڑا ہے اور کوئی قیام میں کھڑا ہے ۔ اس قوم کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے بغیر امام کے نماز ہو ۔