Please wait..

غزل نمبر۴۲
(یہ غزل اقبال نے حافظ کی اس غزل کے جواب میں لکھی ہے جس کا یہ مقطع بہت مشہور ہے)

 
سر خوش از بادہ تو خم شکنے نیست کہ نیست
مست لعلین تو شیریں سخنے نیست کہ نیست

مطلب: نہیں ہے کوئی بلانوش جو تیری شراب سے مست نہ ہو (اے محبوب! دنیا میں کون سا انسان ہے جو تیری محبت کی شراب سے مست نہیں ہے) ۔ نہیں کوئی شیریں سخن جو تیرے ہونٹوں کا متوالہ نہ ہو ۔

 
در قبائے عربی خوشترک آئی بہ نگاہ
راست بر قامت تو پیرہنے نیست کہ نیست

مطلب: عربی قبا میں تیری اور ہی چھب نظر آتی ہے ورنہ کوئی جامہ نہیں جو آپ کی قامت پہ سجتا نہ ہو ۔

 
گرچہ لب تو خموش است ولے چشم ترا
بادل خون شدہ ما سخنے نیست کہ نیست

مطلب: اگرچہ تیرے لب خاموشی ہیں مگر تیری آنکھوں کی ہمارے لہو ہو چکے دل کی ساتھ وہ کون سی بات ہے جو نہ ہوتی ہو (تیری آنکھیں سرگرم گفتگو ہیں بلکہ دنیا جہان کی باتیں کر رہی ہیں ) ۔

 
تا حدیث تو کنم ، بزم سخن می سازم
ورنہ در خلوت من انجمنے نیست کہ نیست

مطلب: شاعری کی محفل سجا لیتا ہوں تا کہ تیرا ذکر کروں ورنہ ایسی کوئی انجمن نہیں جو میری خلوت میں نہ ہو ( میں تو اپنی خلوت میں گھنٹوں ، پہروں تجھ سے مسلسل گفتگو کرتا رہتا ہوں ۔

 
اے مسلمان دگر اعجاز سلیمان آموز
دیدہ بر خاتم تو اہرمنے نیست کہ نیست

مطلب: اے مسلمان سلیمان کا معجزہ پھر سے سیکھ کوئی دیو نہیں جو تیری انگوٹھی کی تاک میں نہ ہو ۔