مرد حر
(آزاد مرد )
مرد حر محکم ز ورد لا تخف ما بمیدان سر بجیب او سر بکف
مطلب: مرد حر لاتخف کے ورد سے قوی ہے، ہم تو میدان میں سر جھکائے آتے ہیں ، لیکن وہ موت سے بے خوف سر ہتھیلی پر رکھے نکلتا ہے ۔
مرد حر از لا الہ روشن ضمیر می نہ گردد بندہ سلطان و میر
مطلب : مرد حر لا الہ سے روشن ضمیر ہے، وہ کسی سلطان اور امیر کا غلام نہیں ہوتا ۔
مرد حر چون اشتران بارے برد مرد حر بارے برد خارے خورد
مطلب : مرد حر اونٹوں کی مانند بوجھ اٹھاتا ہے، اور کانٹے کھا کر گزارہ کرتا ہے ۔
پاے خود ز آنچنان محکم نہد نبض رہ از سوز او بر می جہد
مطلب: وہ اپنا پاؤں اس مضبوطی سے رکھتا ہے کہ اس کی گرمی سے راستے کی نبض تیزی سے چلنے لگتی ہے ۔
جان او پایندہ تر گردد ز موت بانگ تکبیرش برون از حرف و صوت
مطلب: موت سے اس کی زندگی کو پایندگی ملتی ہے، اس کا نعرہ تکبیر الفاظ اور آواز میں نہیں سماتا ۔
ہر کہ سنگ راہ را داند زجاج گیرد آن درویش از سلطان خراج
مطلب: جو کوئی بھی راستے کی رکاوٹوں کو شیشہ کی طرح کمزور سمجھتا ہے، وہی درویش ، سلطان سے خراج وصول کرتا ہے ۔
گرمی طبع تو از صہباے اوست جوے تو پروردہ دریاے اوست
مطلب: تیری طبع کا جوش اس درویش کی شراب سے ہے، تیری ندی اس کے دریا سے پرورش پاتی ہے ۔
پادشاہان در قباہاے حریر زرد رو از سہم آن عریان فقیر
مطلب: ریشمی قباؤں میں ملبوس بادشاہ ایسے عریاں فقیر کے ڈر سے پیلے پڑ جاتے ہیں ۔
سر دیں ما را خبر، او را نظر او درون خانہ، ما بیرون در
مطلب: دین کے راز ہمارے لیے خبر اور اس کے لیے نظر کی حیثیت رکھتے ہیں ، گویا وہ گھر کے اندر ہے اور ہم دروازے سے باہر ہیں ۔
ما کلیسا دوست ما مسجد فروش او ز دست مصطفی پیمانہ نوش
مطلب: ہم کلیسا کے دوست اور مسجد فروش ہیں ، جبکہ وہ مرد حر رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک سے شراب پیتا ہے ۔
نے مغان را بندہ، نے ساغر بدست ما تہی پیمانہ او مست الست
مطلب: وہ نہ تو پیر مغاں کا غلام ہے اور نہ اس کے ہاتھوں میں جام ہے ، ہمارا پیما نہ خالی ہے اور وہ شراب الست سے مست ہے ۔
چہرہ گل از نم او احمر است ز آتش ما دود او روشن تر است
مطلب: گلاب کا چہرہ اس کی نمی (اشکوں ) سے سرخ ہے، اس کا دھواں ہماری آگ سے بھی زیادہ روشن ہے ۔
دارد اندر سینہ تکبیر امم در جبین اوست تقدیر امم
مطلب: اس کے سینے کے اندر قوموں کی عظمت ہے، اس کی پیشانی پر اقوام کی تقدیر لکھی ہے ۔
قبلہ ما گاہ کلیسا، گاہ دیر او نخواہد رزق خویش از دست غیر
مطلب: ہمارا قبلہ کبھی کلیسا ہے اور کبھی بتخانہ، مرد حر کبھی کسی غیر کے ہاتھوں سے اپنا رزق حاصل نہیں کرتا ۔
ما ہمہ عبد فرنگ او عبدہ او نہ گنجد در جہان رنگ و بو
مطلب : ہم سب فرنگ کے غلام ہیں جبکہ وہ اللہ کا بندہ ہے، وہ اس رنگ و بو کی دنیا میں نہیں سماتا ۔
صبح و شام ما بہ فکر ساز و برگ آخر ما چیست تلخیہاے مرگ
مطلب: ہماری صبح و شام رزق کے فکر میں گزرتی ہے، ہم ایسوں کا انجام کیا ہے موت کی تلخیاں ۔
در جہان بے ثبات او را ثبات مرگ او را از مقامات حیات
مطلب: فانی دنیا میں صرف مرد حر کو ثبات ہے، موت اس کے لیے زندگی ہی کے مقامات میں سے ایک مقام ہے ۔
اہل دل از صحبت ما مضمحل گل ز فیض صحبتش داراے دل
مطلب: اہل دل ہماری صحبت سے بیزار ہیں ، جبکہ اس کے فیض صحبت سے مٹی بھی صاحب دل ہو جاتی ہے ۔
کار ما وابستہ تخمین و ظن او ہمہ کردار و کم گوید سخن
مطلب: ہمارا کام صرف اندازوں اور تخمینوں ہی پر مبنی ہے، جبکہ مرد حرا سراپا کردار ہے اور تھوڑی بات کرتا ہے ۔
ما گدایان کوچہ گردد فاقہ مست فقر او از لا الہ تیغ بدست
مطلب: ہم تو گلی گلی گھومنے والے بھک منگے اور فاقوں میں مست رہنے والے لوگ ہیں ، لیکن اس کا فقر ہاتھوں میں لا الہ کی تلوار لیے ہوئے ہے ۔
ما پرکاہے اسیر گرد باد ضربش از کوہ گران جوے کشاد
مطلب: ہم اس تنکے کی مانند ہیں جو بگولے کے اندر ہی گرفتار ہے، جبکہ مرد حر کی ضرب کوہ گراں سے ندی نکال لیتی ہے ۔
محرم او شو ز ما بیگانہ شو خانہ ویران باش و صاحب خانہ شو
مطلب: اس کا محرم بن جا اور ہم سے دوری اختیار کر لے، خانہ ویران ہو کر گھر کا مالک بن جا ۔
شکوہ کم کن از سپہر گرد گرد زندہ شو از صحبت آن زندہ مرد
مطلب: اس غبار آسا آسمان کا شکوہ مت کر، اس زندہ مرد کی صحبت سے زندہ ہو جا ۔
صحبت از علم کتابی خوشتر است صحبت مران حر آدم گر است
مطلب: علم کتابی کی نسبت بندہ خدا کی صحبت کہیں بہتر ہے، مردان حر کی صحبت تو آدمی کو انسان بنا دیتی ہے ۔
مرد حر دریاے زرف و بیکران آب گیر از بحر و نے از ناودان
مطلب: مرد حر ایک گہرا اور بیکراں سمندر ہے، پانی اس کے سمندر سے لے پرنالے سے کیا پانی لینا ۔
سینہ ایں مرد می جوشد چو دیگ پیش او کوہ گران یک تودہ ریگ
مطلب: اس مرد حر کا سینہ دیگ کی طرح جوش مارتا ہے، اس کے سامنے کوہ گراں کی حیثیت ریت کے ٹیلے کی سی ہے ۔
روز صلح آن برگ و ساز انجمن ہم چو باد فرودیں اندر چمن
مطلب: صلح کے دن (زمانہ امن میں ) وہ جان محفل ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح موسم بہار کی ہوا چمن میں ہوتی ہے ۔
روز کین آن محرم تقدیر خویش گور خود می کند از شمشیر خویش
مطلب: جنگ کے وقت وہ اپنی تقدیر سے پوری طرح باخبر ہوتا ہے، چنانچہ وہ اپنی تلوار سے خود ہی اپنی قبر کھودتا ہے (شہادت کا طالب رہتا ہے ) ۔
اے سرت گردم گریز از ما چو تیر دامن او گیر و بے تابانہ گیر
مطلب: میں تیرے قربان جاؤں تو ہم سے تیر کی طرح دور نکل جا اور اس شخص کا دامن تھام لے اور بیتابانہ تھام لے ۔
می نہ روید تخم دل از آب و گل بے نگاہے از خداوندان دل
مطلب: آب و گل سے تخم دل نہیں پھلتا پھولتا، جب تک ارباب (صاحب) دل کی اس پر نظر نہ پڑے ۔
اندر ایں عالم نیر زی با خسے تا نیاویزی بدامان کسے
مطلب: اس دنیا میں تیری قیمت اس وقت تک خس کے برابر بھی نہیں جب تک تو کسی صاحب دل کا دامن نہیں تھام لیتا ۔ ٍ