جواب ۔ دوسرا بند
برون از خویش می بینی جہان را در و دشت و یم و صحرا و کان را
مطلب: تو جہان کو خود سے باہر دیکھتا ہے اور اس جہان میں موجود آبادی، بیابان، سمندر، صحرا اور کان یعنی کائنات کی ساری آشیاء کو خود سے باہر جانتا ہے (حالانکہ یہ تمام اشیائے جہا ن کا وجود تیری نگاہ کے باعث ہے ۔ )
جہان رنگ و بو گلدستہ ما ز ما آزاد و ہم وابستہ ما
مطلب: یہ رنگ و بو کا جہان (دلکش مگر فانی جہان) ہمارا گلدستہ ہے ۔ یہ اگرچہ ہم سے آزاد ہے لیکن ہمارے ساتھ وابستہ ہے ۔
خودی او را بیک تار نگہ بست زمین و آسمان و مہر و مہ بست
مطلب: خودی نے اس جہان کو نگاہو ں کے ایک تار میں باندھ لیا ۔ (اور پھر اس جہان میں موجود ) زمین ، آسمان اور چاند کو اس میں باندھ لیا (ان تمام اشیائے جہان کا وجود خودی کے نظارہ کا مرہون منت ہے) ۔
دل ما را بہ او پوشیدہ راہے است کہ ہر موجود ممنون نگاہے است
مطلب: ہمارے دل کا اس جہان کے ساتھ ایک پوشیدہ تعلق ہے، کیونکہ ہر موجود جو اس جہان میں ہے نگاہ احسان مند ہے ۔
گر او را کس نہ بیند زار گردد اگر بیند یم و کہسار گردد
مطلب: اگر جہان یا اس کی اشیا کا کوئی نظارہ نہ کرے تو وہ عاجز اور بے قیمت ہو جائیں گے ۔ اور اگر دیکھے گا تو وہ سمندر اور پہاڑ کے علاوہ کچھ نہ ہوں گے ۔ بے حیثیت نظر آئیں گے ۔
جہان را فربہی از دیدن ما نہالش رستہ از بالیدن ما
مطلب: اس جہان کا موٹاپا (چہل پہل) ہماری نظر کا کمال ہے اور اس کا پودا ہماری وجہ سے بڑا ہوا ہے ۔
حدیث ناظر و منظور رازے است دل ہر ذرہ در عرض نیازے است
مطلب: ناظر اور منظور دونوں کی کہانی ایک راز ہے ۔ ہر ذرے کا دل اپنی نیازمندی کا اظہار کر رہا ہے ۔ (دنیا کی ہر شے کسی ناظر دیکھنے والے کی نگاہوں کی محتاج ہے ۔ اگر دیکھنے والی نگاہ نہ ہو تو منظور موجود ہونے کے باوجود عدم ہو جائے ۔ اس لیے کائنات کا وجود انسان کی وجہ سے ہے ۔
تو اے شاہد مرا مشہود گردان ز فیض یک نظر موجود گردان
مطلب: ہر ذرہ یہ کہہ رہا ہے کہ اے شاہد (دیکھنے والے) تو مجھے مشہود بنا دے ۔ تو اس بات کی گواہی دے کہ میں تیرے مشاہدہ میں حاضر ہوں ۔ تو مجھے اپنی ایک نظر کے فیض سے موجود کر دے ۔ کیونکہ میرا شہود تیری نظر کی شہادت کی بدولت ہے) ۔
کمال ذات شے موجود بودن برائے شاہدے مشہود بودن
مطلب: کسی شے کی ذات کا کمال اس کا موجود ہونا ہے ۔ کسی شاہد کے لیے اس کا مشہود ہونا ہے ۔
ز دانش در حضور ما نبودن منور از شعور ما نبودن
مطلب: ہمارے سامنے عقل کی رو سے ان کا ہونا نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ان کا ہمارے شعور سے منور نہ ہونا ان کا عدم ہے (کسی شے کا موجود ہونا صرف ناظر کی دید اور شاہد کے مشاہدے پر مبنی ہے) ۔
جہان غیر از تجلی ہاے ما نیست کہ بے ما جلوہ نور و صدا نیست
مطلب: یہ جہان ہماری جلوہ گری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ ہمارے بغیر کائنات میں روشنی اور آواز کے جلوے بے کار ہیں ۔
تو ہم از صحبتش یاری طلب کن نگہ را از خم و پیچش ادب کن
مطلب: یہ کائنات جس کی موجودگی ہماری نظر کی مرہون منت ہے اور اپنے اندر نور اور صدا کے جلوے لیے ہوئے ہے اس سے کنارہ کشی اختیار نہ کر بلکہ اس کی صحبت سے دوستی طلب کر کے اس سے فائدہ حاصل کر اپنی نگاہ کائنات کے حالات پر رکھتے ہوئے اس کے پیچ و خم سے احترام کر ۔
یقیں می دان کہ شیران شکاری دریں رہ خواستند از مور یاری
مطلب: اس بات پر یقین کر کہ شکاری شیروں نے راستے میں آنے والی چیونٹی کمزور سے کمزور مخلوق سے بھی مدد چاہی ہے ۔
دوسرے بند کا خلاصہ
اس بند میں جہان کو شاہد و ناظر کی شہادت اور نظر کا مرہون منت کہا گیا ہے ۔ یہ بات بتائی گئی ہے کہ کائنات کی موجودگی ہمارے نفس مدرک پر منحصر ہے اگر وہ کائنات کی اشیا ء کا ادراک نہ کرے تو ان کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے ۔