Please wait..

پیر رومی بہ زندہ رود می گوید کہ شعرے بیار

 
پیر رومی آن سراپا جذب و درد
این سخن دانم کہ با جانش چہ کرد

مطلب: پیر رومی جو سراپا سوز و درد ہیں ان کی جان پر افغانی کی بات نے کیا اثر کیا میں ہی جانتا ہوں ۔

 
از درون آہے جگر دوزے کشید
اشک او رنگین تر از خون شہید

مطلب: ان (رومی) کے دل سے ایک جگر سوز آہ نکلی ۔ ان کی آنکھوں سے آنسو نکلے جو شہید کے خون سے بھی زیادہ رنگین تھے ۔

 
آنکہ تیرش جز دل مردان نہ سفت
سوے افغانی نگاہے کرد و گفت

مطلب: وہ شخصیت (رومی) جس کی نگاہ کے تیر نے بندگانِ حق کے دلوں کے سوا اور کسی کو نہیں چھیدا ، اس نے افغانی کی طرف دیکھا اور کہا ۔

 
دل بخون مثل شفق باید زدن
دست در فتراک حق باید زدن

مطلب: دل کو شفق کی مانند خون میں رنگ لینا چاہیے اور اپنا ہاتھ اللہ کی فتراک میں دینا چاہیے ۔

 
جان ز امید است چون جوئے روان
ترک امید است مرگ جاودان

مطلب: جان امید سے ہی بہتی ہوئی ندی کی مانند بنتی ہے ۔ امید ترک کر دینا جان کی ہمیشہ کی موت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ۔

 
باز در من دید و گفت اے زندہ رود
با دو بینے آتش افگن در وجود

مطلب: پھر رومی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے کہ اے زندہ رود دو ایک شعروں سے وجود کے اندر کی آگ لگا یعنی ایسے اشعار سنا جن کو سن کر دل میں سوز جذبہ پیدا ہو جائے ۔

 
ناقہ ما خستہ و محمل گران
تلخ تر باید نواے ساربان

مطلب: ہماری اونٹنی تھک چکی یا بیمار ہے اور محمل بوجھل ہے (اب) ضروری ہے کہ ساربان کا نغمہ زیادہ تلخ ہو ۔

 
امتحان پاک مردان از بلاست
تشنگان را تشنہ تر کردن رواست

مطلب: اللہ کے پاک بندوں کی آزمائش مصائب سے ہوتی ہے ، پیاسوں کو زیادہ پیاسا کرنا جائز ہے ۔

 
در گزر مثل کلیم از رود نیل
سوے آتش گام زن مثل خلیل

مطلب: حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی طرح تو دریائے نیل سے گزر جا اور خلیل کی طرح آگ کی طرف قدم بڑھا ۔

 
نغمہَ مردے کہ دارد بوے دوست
ملتے را می برد تا کوے دوست

مطلب: ایسا مردانہ نغمہ سنا جس سے دوست (محبوب حقیقی) کی خوشبو آئے تاکہ ملت کو دوست کے کوچے میں لے جائے ۔

غزل زندہ رود

 
این گل و لالہ تو گوئی کہ مقیم اند ہمہ
راہ پیما صفت موج نسیم اند ہمہ

مطلب: تیرا یہ کہنا کہ گل و لالہ غیر فانی ہیں (درست نہیں اس لیے کہ ) یہ سارے کے سارے تو موجِ نسیم کی طرح راستہ چلنے والے ہیں ۔

 
معنی تازہ کہ جوئیم و نیابیم کجاست
مسجد و مکتب و میخانہ عقیم اند ہمہ

مطلب: وہ نئے معنی جو ہم ڈھونڈتے ہیں وہ ہمیں مل نہیں رہے (نجانے وہ ) کہاں ہیں کیا مسجد اور کیا مکتب اور کیا مے خانے سب بانجھ پڑے ہیں ۔

 
حرفے از خویشتن آموز و در آن حرف بسوز
کہ درین خانقہ بے سوز کلیم اند ہمہ

مطلب: اپنے آپ سے ایک حرف (اللہ) سیکھ اور پھر اس حرف میں جل جا، کیونکہ اس خانقاہ میں سارے کلیم سوز سے خالی ہیں ۔

 
از صفا کوشی این تکیہ نشینان کم گوے
موئے ژولیدہ و ناشستہ گلیم اند ہمہ

مطلب : تو ان تکیہ نشین (نام نہاد درویشوں ) کی پاک باطنی کی بات نہ کر ۔ ان کے بال الجھے ہوئے ہیں اور ان کی گدڑی ان دھلی ہے ۔

 
چہ حرمہا کہ درون حرمے ساختہ اند
اہل توحید یک اندیش و دو نیم اند ہمہ

مطلب: انھوں نے حرم کے اندر کتنے اور حرم بنا رکھے ہیں ۔ اہل توحید کی سوچ تو واحد (ایک) ہے لیکن وہ ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔

 
مشکل این نیست کہ بزم از سر ہنگامہ گزشت
مشکل این است کہ بے نقل و ندیم اند ہمہ

مطلب: مشکل یہ نہیں کہ بزم یعنی ملت نے ہنگامہ آرائی (جوش و جذبہ) کا خیال چھوڑ دیا ہے بلکہ مشکل یہ ہے کہ تمام اہل محفل شیرینی (کھانے کی عمدہ چیز ) اور احباب (دوستوں ) کے بغیر ہیں ۔

فلک زہرہ

 
درمیان ماہ و نور آفتاب
از فضاے تو بتو چندین حجاب

مطلب: چاند اور سورج کی روشنی کے درمیان کئی تہ بتہ پردے ہیں ۔

 
پیش ما صد پردہ را آویختند
جلوہ ہاے آتشین را پیچتند

مطلب: ہمارے سامنے کارکنانِ قضا و قدر نے سینکڑوں پردے لٹکا دیے ہیں اور ان میں آتشیں جلوے لپیٹ دیے ہیں ۔ یعنی جلووَ ں کو پیچ در پیچ بنا دیا گیا ۔

 
تا ز گم سوزی شود دل سوز تر
سازگار آید بشاخ و برگ و بر

مطلب: تا کہ کم سوزی سے دل زیادہ سوز والا بن جائے اور یہ سوز شاخ اور پتوں اور پھل کے لیے سازگار ٹھہرے ۔

 
از تب او در عروق لالہ خون
آبجو از رقص او سیماب گون

مطلب: اسکی تپش سے لالہ کے پھول کی رگوں میں خون ہے ندی اسکے رقص گردش سے پارے کی مانند بیقرار رہتی ہے ۔

 
ہم چنان از خاک خیزد جان پاک
سوے بے سوئی گریزد جان پاک

مطلب: اسی طرح جان پاک بھی مٹی سے پیدا ہوتی ہے اور جانِ پاک لا مکاں کی طرف دوڑتی ہے ۔

 
در فضاے صد سپہر نیلگون
غوطہ پیہم خوردہ باز آید برون

مطلب: وہ (جان پاک) سینکڑوں نیلے آسمانوں کی فضا میں پیہم غوطے لگا کر باہر آتی رہتی ہے ۔

 
خود حریم خویش و ابراہیم خویش
چون ذبیح اللہ در تسلیم خویش

مطلب: یہ (جانِ پاک) آپ ہی اپنا کعبہ اور آپ ہی اپنا ابراہیم ہے اور ذبیح اللہ (حضرت اسماعیل) کی طرح خود ہی اپنے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہے ۔

 
پیش او نہ آسمان نہ خیبر است
ضربت او از مقام حیدر است

مطلب: اس کے سامنے یہ نو آسمان نو خیبر ہیں ۔ اس کا وار حیدر کے مقام سے ہے ۔

 
این ستیز  دمبدم پاکش کند
محکم و سیارہ چالاکش کند

مطلب: یہ ہر لمحہ کی جنگ اسے پاک کر دیتی ہے اور اسے مضبوط متحرک اور مستعد بناتی ہے ۔

 
می کند پرواز در پہناے نور
مخلبش گیرندہ ی جبریل و حور

مطلب: وہ نور کی وسعتوں میں پرواز کرتی ہے ۔ اس کا پنجہ جبرئیل اور حور کو اپنی گرفت میں لینے والا بن جاتا ہے ۔

 
تا ز ما زاغ البصر گیرد نصیب
بر مقام عبدہ گردد رقیب

مطلب: یہاں تک کہ وہ مازاغ البصر سے حصہ پا لیتی ہے اور عبدہ کے مقام کی نگران بن جاتی ہے ۔

 
از مقام خود نمیدانم کجاست
این قدر دانم کہ از یاران جداست

مطلب: میں نہیں جانتا کہ میرا مقام کہاں ہے ۔ اتنا جانتا ہوں کہ وہ دوستوں سے جدا ہے ۔

 
اندرونم جنگ بے خیل و سپہ
بیند آن کو ہم چو من دارد نگہ

مطلب: میرے اندر فوج اور لشکر کے بغیر جنگ جاری رہتی ہے ۔ اسے وہی دیکھ سکتا ہے جو میری طرح صاحب نگاہ ہو ۔

 
بے خبر مردان رزم کفر و دین
جان من تنہا چو زین العابدین 

مطلب: لوگ کفر اور دین کے درمیان اس جنگ سے بے خبر ہیں ۔ میری جان زین العابدین کی طرح تنہا ہے ۔

 
از مقام و راہ کس آگاہ نیست
جز نواے من چراغ راہ نیست

مطلب: (اس دور میں ) منزل اور راستے سے کوئی بھی شخص آگاہ نہیں ۔ میری شاعری کے سوا راستے کا اور کوئی چراغ نہیں ہے ۔

 
غرق دریا طفلک و برنا و پیر
جان بساحل بردہ یک مرد فقیر

مطلب: جوان اور بوڑھے غفلت کے سمندر میں غرق ہیں ، صرف ایک مردِ فقیر (اقبال) جان بچا کر ساحل تک پہنچا ہے ۔ یعنی پوری قوم بری طرح غفلت کا شکار ہے ۔

 
بر کشیدم پردہ ہاے این و ثاق
ترسم از وصل و بنالم از فراق

مطلب: میں (اقبال) نے اس حریم کے غفلت کے مکان کے پردے ہٹا دیے ہیں ۔ میں وصل سے ڈرتا ہوں جبکہ ہجر میں آہ و زاری کرتا ہوں ۔

 
وصل اگر پایان شوق است الحذر
اے خنک آہ و فغان بے اثر

مطلب : اگر وصل سے شوق ختم ہو جائے تو خدا اس سے بچائے ۔ (اس سے بچو) وہ آ ہ و فغاں مبارک (بہتر) ہے جس کا کوئی اثر نہیں ہے ۔

 
راہ رو از جادہ کم گیرد سراغ
گر بجانش سازگار آید فراغ

مطلب: راستہ چلنے والے کی جان کو اگر فراغت راس آ جائے تو وہ پھر راستے کا سراغ ہی نہیں لگاتا ۔

 
آن دلے دارم کہ از ذوق نظر
ہر زمان خواہد جہانے تازہ تر

مطلب: میں وہ دل رکھتا ہوں یا میرے سینے میں ایک ایسا دل ہے جو ذوقِ نظر کے سبب ہر پل ایک نئی دنیا کی آرزو میں رہتا ہے ۔

 
رومی از احوال جان من خبیر
گفت می خواہی دگر عالم بگیر

مطلب: رومی نے جو میری جان کی کیفیات سے باخبر ہے کہا کیا تم کوئی اور جہان چاہتے ہو تو یہ لو ۔

 
عشق شاطر ما بدستش مہرہ ایم
پیش بنگر در سواد زہرہ ایم

مطلب: عشق شطرنج کا کھلاڑی ہے اور ہم اس کے ہاتھ میں شطرنج کی گوٹ ہیں ۔ سامنے دیکھ اب ہم زہرہ کی حدود میں ہیں ۔

 
عالمے از آب و خاک او را قوام
چون حرم اندر غلاف مشک فام

مطلب: یہ ایسا جہان ہے جس کا خمیر پانی اور مٹی سے ہے ۔ کعبہ کی طرح یہ سیاہ رنگ کے غلاف میں ہے یعنی اس کی فضا تاریک ہے ۔

 
با نگاہ پردہ سوز و پردہ در
از درون میغ و ماغ او گزر

مطلب: پردے کو جلا دینے والی اور پردہ ہٹا دینے والی نگاہ سے اس کی بادلوں اور دھند میں سے گزر جا ۔

 
اندرو بینی خدایان کہن
می شناسم من ہمہ را تن بہ تن

مطلب: وہاں تو پرانے خدایان باطل پائے گا ۔ میں ان میں سے ایک ایک کو خوب پہچانتا ہوں ۔

 
بعل و مردوخ و یعوق و نسر و فسر
رم خن لات و منات و عسر و غسر

مطلب: یہ پرانے خدا (یا بت ) ان ناموں سے مشہور تھے، بعل ، مردوخ، یعوق، نسر، فسر، رم، خن، لات، منات عسر اور غسر

 
بر قیام خویش می آرد دلیل
از مزاج این زمان بے خلیل

مطلب: یہ پرانے خدا اپنے زندہ ہونے پر آج کے دور کے مزاج کی دلیل لاتے ہیں جو ابراہیم جیسے بت شکن سے خالی ہے ۔ مطلب حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی طرح تو دریائے نیل سے گزر جا اور خلیل کی طرح آگ کی طرف قدم بڑھا ۔