Please wait..

تمہید

 
نیست در خشک و تر بیشہَ من کوتاہی
چوبِ ہر نخل کہ منبر نہ شود، دار کنم

معانی: نظیر نیشاپوری: مغلیہ دور کا مشہور ایرانی شاعر، محمد حسین نام، نظیری تخلص، ایران کے مردم خیز شہر نیشاپور میں 1552ء میں پیدا ہوا بطور شاعر اسے خراسان اور کاشان میں بہت شہرت ملی 1583ء میں مغلیہ بادشاہوں کی فیاضیوں کے قصص سن کر برصغیر آیا ۔ یہاں عبدالرحیم خان خاناں نے اس کی دلجوئی کی ۔ خانخاناں کے دربار میں ہی ایران کے مشہور شاعر عرفی سے شاعرانہ مقابلوں کے نتیجے میں اس کے جوہر خوب چمکے ۔ نظیری نے خانخاناں کے علاوہ اکبر اور جہانگیر کی مدح میں بھی قصیدے کہے ۔ 1612ء میں فوت اور احمد آباد میں دفن ہوئے ۔
مطلب: میرے جنگل کی اچھی بری یا گیلی اور خشک لکڑی میں کسی قسم کا نقص نہیں ہے ۔ جس درخت کی لکڑی سے منبر نہیں بن سکتا میں اسے تختہ دار بنا دیتا ہوں (تاکہ مجاہد اس پر چڑھ کر حق کی شہادت دے سکیں ) ۔ اعلان حق کے دو ہی ذریعے ہیں مسجد کا منبر یا سولی ۔ سولی کا درجہ زیادہ بلند ہے ۔ یہ اسی کو نصیب ہو سکتا ہے جو اعلان حق میں جان دینے پر آمادہ ہو ۔ اقبال نے اس شعر کے پردہ میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ میں نے اپنے کلام یا اس مثنوی میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب کارآمد اور مفید ہے کوئی بات بیکار نہیں لکھی ۔ اس شعر میں نظیری نے استعاروں کی بات کی ہے ۔ منبر علامت ہے شریعت کی اور دار، طریقت کی (منصور حلاج کی طرف اشارہ ہے جسے انا الحق کہنے پر سولی پر چڑھایا گیا تھا) ۔ مطلب یہ ہے کہ شاعر کے سرچشمہ فکر سے جو مضامین پھوٹتے ہیں ان میں کسی میں بھی کوئی خامی یا کمی نہیں ہے ۔ اسکے بعض مضامین اگر شریعت سے متعلق ہیں تو بعض کا تعلق طریقت سے ہے ۔ علامہ اقبال نے مثنوی کے آغاز میں نظیری کا یہ شعر دے کر دراصل اپنی شاعری یا نظریہ کی وضاحت کی ہے ۔

 
راہ شب چون مہر عالمتاب زد
گریہ ی من بر رخ گل آب زد

مطلب: جب دنیا کو روشن کرنے والے سورج نے رات کو لوٹ لیا (صبح ہو گئی) تو میرے آنسووَں نے پھول کے چہرے پر پانی مل دیا ۔

 
اشک من از چشم نرگس خواب شست
سبزہ از ہنگامہ ام بیدار رست

مطلب: میرے آنسووَں نے گل نرگس کی آنکھوں سے نیند دھو ڈالی ۔ سبزہ میرے شور شرابے کے باعث بیدا رہو کر اگ پڑا ۔

 
باغبان زور کلامم آزمود
مصرعے کارید و شمشیرے درود

مطلب: باغبان نے میری شاعری کے زور کو آزمایا، اس نے ایک مصرع بویا اور ایک تلوار کاٹی ۔ (میرے ہر مصرعہ میں تلوار کے جوہر درخشان تھے) ۔

 
در چمن جز دانہ ای اشکم نکشت
تار افغانم بپود باغ رشت

مطلب: اس نے باغ میں میرے آنسو کے بیج کے سوا اور کچھ نہ بویا، اور میری آہ و فغاں کا تانا باغ کے بان میں بنا ۔ پیوند کر دیا ۔

 
ذرہ ام مہر منیر آن من است
صد سحر اندر گریبان من است

مطلب: اگرچہ میں ذرہ ہوں لیکن اس زمانے کو روشن کرنے والا سورج میرا ہے ۔ سینکڑوں صبحیں میرے گریبان میں ہیں ۔

 
خاک من روشن تر از جام جم است
محرم از نازادہائے عالم است

مطلب: میری خاک جام جم سے بھی زیادہ روشن ہے( اس لیے کہ جام میں تو دنیا کے صرف موجودہ حالات دیکھے جا سکتے تھے) لیکن میری ذات کائنات کے ان حالات سے بھی واقف ہے جو ابھی تک عالم ظہور میں نہیں آئے ۔

 
فکرم آن آہو سر فتراک بست
کو ہنوز از نیستی بیرون نجست

مطلب: میری قوت فکر نے اس ہرن کو اپنے شکار بند میں باندھ لیا ہے جس نے ابھی تک عدم سے باہر قدم نہیں رکھا ۔ ( میں وہ حقائق پیش کرنے والا ہوں جو پہلے کسی شاعر کو نصیب نہ ہوئے) ۔

 
سبزہ ناروئیدہ زیب گلشنم
گل بشاخ اندر نہان در دامنم

معانی: جو سبزہ ابھی تک اگا نہیں وہ میرے باغ کے لیے زیب و زینت کا سامان بنا ہوا ہے ۔ وہ پھول جس کا وجود ابھی ٹہنی کے اندر ہی ہے وہ میرے دامن میں پہنچ گیا ہے ۔

 
محفل رامشگری برہم زدم
زخمہ بر تار رگ عالم زدم

معانی: میں نے ساز و نغمہ کی محفل درہم برہم کر دی ۔ میں نے کائنات کی رگ کے تار پر مضراب لگائی ہے (دوسرے شاعر صرف عیش و نشاط کا سامان بہم پہنچاتے ہیں ۔ میں زندگی کے حقائق سے پردہ اٹھا رہا ہوں ) ۔

 
بسکہ عود فطرتم نادر نواست
ہم نشین از نغمہ ام نا آشناست

مطلب: میری فطرت کے باجے کا نغمہ بہت ہی انوکھی قسم کا ہے لیکن میرے رفیق میرے اس نغمے سے ناواقف ہیں ۔

 
در جہان خورشید نوزائیدہ ام
رسم و آئین فلک نادیدہ ام

مطلب: میں دنیا میں نیا نیا وجود میں آیا ہوا سورج ہوں ۔ پرانے سورج کے برعکس (آسمان) کے طور طریقے میری نظروں سے نہیں گزرے ہیں ۔

 
رم ندیدہ انجم از تابم ہنوز
ہست نا آشفتہ سیمابم ہنوز

مطلب:ستاروں نے میرے سورج کی روشنی سے بھاگنا شروع نہیں کیا ۔ ابھی میرا پارا قرار پکڑے ہوئے ہے ۔ ابھی اس میں تڑپ اور بے قراری پیدا نہیں ہوئی ۔

 
بحر از رقص ضیایم بے نصیب
کوہ از رنگ حنایم بے نصیب

مطلب: ابھی تک سمندر میری روشنی کے رقص سے بے بہرہ ہے ۔ پہاڑ میری مہندی کے رنگ سے محروم ہے ۔

 
خوگر من نیست چشم ہست و بود
لرزہ بر تن خیزم از بیم نمود

مطلب: ہست و بود (زمانے) کی آنکھ مجھے دیکھنے کی ابھی عادی نہیں ہوئی، میں اظہار کے خوف سے کانپ اٹھتا ہوں ۔

 
بامم از خاور رسید و شب شکست
شبنم نو بر گل عالم نشست

مطلب: میری صبح مشرق سے طلوع ہوئی اور رات بھاگ گئی (رات کا اندھیرا ختم ہوا) دنیا کے پھول پر تازہ شبنم آ گری ۔

 
انتظار صبح خیزان می کشم
اے خوشا زرتشتیان آتشم

مطلب: میں صبح سویرے بیدار ہونے والوں (عابدوں ، کلام کا اثر لینے والوں ) کا انتظار کر رہا ہوں ۔ میری آگ کے پجاریوں کا کیا کہنا یا میری آگ کے پجاری کتنے مبارک ہیں ۔ ( جو میری روشن کی ہوئی آگ کی طرف اسی طرح کھچے چلے آ رہے ہیں جس طرح زرتشتی صبح سویرے آتش کدے کی طرف جاتے ہیں ۔

 
نغمہ ام زخمہ بے پرواستم
من نواے شاعر فرداستم

مطلب : میں ایک ایسا نغمہ ہوں جو مضراب سے بے نیاز (مجھے مضراب کی ضرورت نہیں ) میں مستقبل کے شاعر کی نوا ہوں ۔

 
عصر من دانندہ ی اسرار نیست
یوسف من بہر این بازار نیست

مطلب: میرا زمانہ اسرار (رازوں ) سے آگاہ نہیں ۔ میرا یوسف اس بازار کے لیے نہیں ہے ۔ (میرا یوسف اس بازار کی صحیح قیمت نہیں پا سکتا) ۔

 
نا امید استم ز یاران قدیم
طور من سوزد کہ مے آید کلیم

مطلب: اپنے پرانے رفیقوں سے میں مایوس ہوں میرا طور جل رہا ہے کہ شاید اس کے لیے بھی کوئی کلیم آئے ۔

 
قلزم یاران چو شبنم بے خروش
شبنم من مثل یم طوفان بدوش

مطلب: یاروں کا سمندر شبنم کی طرح طوفان سے عاری ہے جب کہ میری شبنم سمندر کی طرح طوفان آغوش میں لیے ہوئے ہے ۔

 
نغمہ ی من از جہان دیگر است
این جرس را کاروان دیگر است

مطلب: میرے گیت کا تعلق کسی دوسری دنیا سے ہے (نئی دنیا کی خوشخبری سناتا ہے) یہ گھنٹی کسی اور ہی قافلے سے متعلق ہے ۔

 
اے بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد
چشم خود بر بست و چشم ما کشاد

مطلب: اے کہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ کوئی شاعر اپنی موت کے بعد پیدا ہوا ہے( یا اکثر شاعر اپنے مرنے کے بعد پیدا ہوئے ہیں ) ۔ اس نے اپنی آنکھ بند کر لی اور ہماری آنکھیں کھول دیں ۔ (یعنی وہ خود تو مر گئے لیکن ہماری آنکھیں کھول گئے)

 
رخت ناز از نیستی بیروں کشید
چون گل از خاک مزار خود دمید

مطلب: ایسا شاعر عدم سے اپنا سامان ناز باہر لے آیا وہ اپنے مزار کی مٹی سے پھول کی مانند پھوٹ پڑا ۔ (شاید میرے لیے بھی یہی مقدر ہے) ۔

 
کاروان ہا گر چہ زین صحرا گزشت
مثل گام ناقہ کم غوغا گزشت

مطلب: اگرچہ اس صحرا سے کئی قافلے گزر چکے ہیں لیکن وہ سب اونٹنی کے قدموں کی طرح کسی آہٹ اور چاپ کے بغیر ہی گزر گئے( ان کے چلنے کی آواز کسی کے کان تک نہ پہنچی، کسی کو احساس تک نہ ہوا کہ انھوں نے کیا کہا اور کیا کر گئے) ۔

 
عاشقم فریاد ایمان من است
شور حشر از پیش خیزان من است

مطلب: میں محض شاعر نہیں ، میں عاشق ہوں ، فریاد کرنا میرا ایمان ہے ۔ محشر کا شور میرے نقیبوں میں سے ہے ۔

 
نغمہ ام ز اندازہ ی تار است بیش
من نترسم از شکست عود خویش

مطلب: میرا نغمہ تار کی گنجائش سے بڑھ کر ہے ، میں اپنے ساز کی ٹوٹ پھوٹ سے نہیں ڈرتا ۔ ( میں نغمہ ضرور سناؤں گا اگرچہ اس وجہ سے میرا ساز ٹوٹ بھی جائے تو مجھے پرواہ نہیں ) ۔

 
قطرہ از سیلاب من بیگانہ بہ
قلزم از آشوب او دیوانہ بہ 

مطلب: قطرہ میرے طوفان سے نا آشنا ہی رہے تو اچھا ہے ۔ سمندر کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ میرے طوفان سے دیوانہ ہو جائے ۔ (دیوانگی کی کیفیت طاری کر لے) ۔ قطرہ سے مراد کم ہمت اور فرومایہ افراد ہیں ۔ سمندر سے اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو ہمت اور جوش عمل کے پیکر ہوں ۔

 
غنچہ کز بالیدگی گلشن نشد
در خور ابر بہار من نشد

مطلب: وہ کلی جو نشو ونما پاتی ہوئی گلشن کی صورت اختیار نہیں کر سکتی وہ میرے ابر بہار سے فیض پانے کے لائق نہیں ۔

 
برقہا خوابیدہ در جان من است
کوہ و صحرا باب جولان من است

مطلب: میری جان میں بجلیاں سوئی ہوئی ہیں ۔ پہاڑ اور صحرا تو میری جولانگاہ کا دروازہ ہیں ۔

 
پنجہ کن با بحرم ار صحراستی
برق من در گیر اگر سیناستی

مطلب: اگر تو صحرا ہے تو پھر میرے سمندر سے پنجہ آزمائی کر، میری بجلی سے خود کو روشن کر لے اگر تو کوہ طور ہے ۔ (میری بجلی اپنے رگ و پے میں سمیٹ لے) ۔

 
چشمہ ی حیواں براتم کردہ اند
محرم راز حیاتم کردہ اند

مطلب: قضا و قدر نے آب و حیات کا چشمہ میرے نصیب میں لکھ دیا ہے ۔ مجھے انھوں نے راز حیات سے آشنا کر دیا ہے ۔

 
ذرہ از سوز نوایم زندہ گشت
پر کشود و کرمک تابندہ گشت

مطلب: میری نوا کے سوز سے ذرے کو زندگی مل گئی اس (ذرے) نے بال و پر نکالے اور وہ جگنو بن گیا ۔

 
ہیچکس رازے کی من گویم نگفت
ہمچو فکر من در معنی نہ سفت

مطلب: وہ راز جو میں ظاہر کر رہا ہوں کسی نے بھی ظاہر نہیں کیا ، کسی نے بھی میرے فکر کی مانند معنی کا موتی نہیں پرویا ۔

 
سر عیش جاودان خواہی بیا
ہم زمین ہم آسمان خواہی بیا

مطلب: تو ہمیشہ کی زندگی کا بھید جاننا چاہتا ہے تو میرے پاس آ، اگر زمین اور آسمان کا بھی تو طالب ہے تو آ ( یہ سب نعمتیں تجھے مل جائیں گی) ۔

 
پیر گردوں با من ایں اسرار گفت
از ندیمان رازہا نتوان نہفت

مطلب: یہ اسرار مجھے بوڑھے آسمان یعنی قضا و قدر نے بتائے ۔ دوستوں اور رفیقوں سے راز بھید چھپائے نہیں جا سکتے ۔

 
ساقیا برخیز و مے در جام کن
محو از دل کاوش ایام کن

مطلب: اے ساقی اٹھ اور شراب جام میں ڈال، اس طرح زمانے کے غم و رنج میرے دل سے دور کر دے ۔

 
شعلہ ی آبے کہ اصلش زمزم است
گر گدا باشد پرستارش جم است

مطلب: ایسے پانی کا شعلہ عطا کر جس کا سرچشمہ زمزم ہے اگر وہ گدا ہو تو جمشید جیسا بادشاہ اس کا عقیدت مند یا غلام ہو ۔

 
می کند اندیشہ را ہشیار تر
دیدہ ی بیدار را بیدار تر

مطلب: جو قوت فکر میں اور تیزی پیدا کر دے اور جاگتی ہوئی آنکھوں کو اور زیادہ بیدار کر دے ۔

 
اعتبار کوہ بخشد کاہ را
قوت شیران دہد روباہ را

مطلب: جو تنکے کو پہاڑ کی سی عظمت بخش دے ، جو لومڑی کو شیروں کی سی طاقت عطا کر دے ۔

 
خاک را اوج ثریا میدہد
قطرہ را پہنای دریا میدہد

مطلب: جو خاک کو ثریا کی بلندی پر پہنچا دیتی ہے جو قطرے میں سمندر کی سی وسعتیں پیدا کر دیتی ہے ۔

 
خامشی را شورش محشر کند
پای کبک از خون باز احمر کند

مطلب: جو خاموشی کو شور محشر کی صور ت د ے دے، جو چکور کے پنجے کو باز کے خون سے سرخ کر دے ۔

 
خیز و در جامم شراب ناب ریز
بر شب اندیشہ ام مہتاب ریز

مطلب: اے ساقی اٹھ اور میرے جام میں خالص شراب ڈال دے ۔ میری قوت فکر کی رات پر چاندنی بکھیر دے ۔ یعنی اسے نور سے چمکا دے ۔

 
تا سوی منزل کشم آوارہ را
ذوق بیتابی دہم نظارہ را

مطلب: تا کہ میں بھٹکے ہوئے (مراد بھٹکی ہوئی قوم) کو منزل (مقصود) کی طرف لے چلوں اور نظارے کو بیقراری کا ذوق پیدا کر دوں ۔

 
گرم رو از جستجوئے نو شوم
روشناس آرزوئے نو شوم

مطلب: نئی جستجو کی تڑپ میں تیز رفتار ہو جاؤں اور ایک نئی آرزو سے آگاہ ہو جاؤں ۔

 
چشم اہل ذوق را مردم شوم
چوں صدا در گوش عالم گم شوم

مطلب: میں اہل ذوق (مراد جن کے دلوں میں ملت کا درد ہے) کی آنکھوں کی پتلی بن جاؤں ۔ آواز کی مانند دنیا کے کانوں میں گم ہو جاؤں ۔

 
قیمت جنس سخن بالا کنم
آب چشم خویش در کالا کنم

مطلب: شاعری کی جنس کی قیمت بڑھا دوں اور اپنے آنسو سامان تجارت میں رکھ دوں ۔

 
باز بر خوانم ز فیض پیر روم
دفتر سر بستہ اسرار علوم

مطلب: میں پیر روم (مولانا رومی) کے فیض سے پھر وہ دفتر دنیا کو سنا دوں جس میں علوم کے اسرار بند ہیں ۔ علوم کے رازوں کی سربمہر کتاب پھر پڑھوں ۔

 
جان او از شعلہ ہا سرمایہ دار
من فروغ یک نفس مثل شرار

مطلب: مولانا کی جان تو دل کی تپشوں سے مالامال ہے ۔ (اپنے اندر شعلوں کا خزانہ لیے ہوئے ہے) جبکہ ان کے مقابلے میں میری حیثیت چنگاری کی مانند اس روشنی کی سی ہے جو ادھر چمکی ادھر بجھ گئی ۔

 
شمع سوزان تاخت بر پروانہ ام
بادہ شبخون ریخت بر پیمانہ ام

مطلب: جلتی ہوئی شمع میرے پروانے پر چڑھ دوڑی ۔ شراب نے میرے جام پر شب خون مار ۔

 
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد

مطلب: پیر رومی نے خاک کو (علامہ کو جن کی حیثیت کچھ نہ تھی) اکسیر بنا دیا (انہیں باطنی طور پر جذب اور صاحب مقام بنا دیا) اور میرے غبار سے کئی جلوے تعمیر کئے ۔

 
ذرہ از خاک بیابان رخت بست
تا شعاع آفتاب آرد بدست

مطلب: ذرے نے صحرا کی خاک سے اپنا سامان سمیٹا تا کہ وہ سور ج کی کرن ہاتھ میں لے سکے ۔

 
موجم و در بحر او منزل کنم
تا در تابندہ ئی حاصل کنم

مطلب: میں لہر ہوں اور اس (پیر روم ) کے سمندر میں بسیرا کرتی ہوں تا کہ میں چمکتا ہوا موتی حاصل کر لوں ۔

 
من کہ مستی ہا ز صہبایش کنم
زندگانی از نفس ہایش کنم

مطلب: میں جو اس کی شرابوں کی بدولت سرمستیوں میں کھویا ہوا ہوں ، اسی کے سانسوں سے زندگی بسر کر رہا ہوں ۔

 
شب دل من مایل فریاد بود
خامشی از یاربم آباد بود

مطلب: رات میرادل فریاد پر مائل تھا میری یارب یارب کی پکار سے خاموشی میں بھی ایک شور سا تھا ۔ ( سب سور رہے تھے صرف میری زبان پر یارب یارب کی فریاد جاری تھی) ۔

 
شکوہ آشوب غم دوران بدم
از تہی پیمانگی نالان بدم

مطلب: میں زمانے کے دکھوں کا سخت شکوہ کر رہا تھا اپنے خالی پیمانے کی وجہ سے فریاد کناں تھا ۔ اشک بار تھا ۔

 
این قدر نظارہ ام بیتاب شد
بال و پر بشکست و آخر خواب شد

مطلب: میں غور سے دیکھنے میں مصروف تھا کہ میری قوت بصارت گھٹ گئی، میرے بال و پر ٹوٹ گئے ، یعنی قوت پرواز جاتی رہی اور میں سو گیا ۔ (میری نگاہیں تڑپتے تڑپتے بال و پر توڑ بیٹھیں اور میں سو گیا ۔ )

 
روی خود بنمود پیر حق سرشت
کو بحرف پہلوی قرآن نوشت

مطلب: (اسی اثنا میں ) حق کی فطرت رکھنے والے پیر (مولانا روم) خواب میں تشریف لائے ۔ وہ بزرگ جنھوں نے فارسی زبان میں قرآن لکھا ہے ۔ (جنھوں نے قرآن کے حقائق فارسی زبان میں پیش کئے ہیں ) ۔

 
گفت ای دیوانہ ی ارباب عشق
جرعہ ئی گیر از شراب ناب عشق

مطلب: انھوں نے فرمایا اے عشق والوں کے دلدادہ عشق کی خالص شراب سے تو بھی ایک گھونٹ پی لے ۔

 
بر جگر ہنگامہ ی محشر بزن
شیشہ بر سر دیدہ بر نشتر بزن

مطلب: تو اپنے جگر یعنی دل میں قیامت کا ہنگامہ برپا کر ، صراحی سر پر مار، آنکھیں نشتر پر مار (اور نشتر سے آنکھیں پھوڑ) دوسرے لفظوں میں عقل کو ایک طرف رکھ اور نظارے سے کام لینے کی بجائے عشق کو اپنا خضر راہ بنا ۔

 
خندہ را سرمایہ ی صد سالہ ساز
اشک خونیں را جگر پرکالہ ساز 

مطلب: ہنسی کو سیکڑوں نالوں کا سرمایہ بنا ۔ خون کے آنسووَں کو جگر کا ٹکڑا بنا ۔ خون کے آنسو اتنے سرخ ہوں گویا خون جگر کے ٹکڑوں سے نکل رہا ہو ۔

 
تابکے چون غنچہ می باشی خموش
نکہت خود را چو گل ارزان فروش

مطلب: تو کب تک کلی کی طرح خاموش بیٹھا رہے گا، پھول کی طرح اپنی خوشبو ارزاں فروخت کر ، ہر طرف بکھیر دے ۔

 
در گرہ ہنگامہ داری چون سپند
محمل خود بر سر آتش بہ بند

مطلب: تیرے دامن میں سپند کی طرح ہنگامہ موجود ہے تو اپنی محمل کی آگ پر باندھ ۔

 
چون جرس آخر ز ہر جزو بدن
نالہ ی خاموش را بیروں فگن

مطلب: جرس کی طرح تو اپنے بدن کے ہر حصے سے خاموش نالہ باہر پھینک ۔

 
آتش استی بزم عالم بر فروز
دیگران را ہم ز سوز خود بسوز

مطلب: تو آگ ہے ، دنیا کی محفل کو جگمگا دے، دوسروں کو بھی اپنے سوز سے پھونک ڈال ۔ جس جلن سے تو خود جل رہا ہے، اسی سے دوسروں کو بھی جلا کر رکھ دے ۔

 
فاش گو اسرار پیر مے فروش
موج مے شو کسوت مینا بپوش

مطلب: پیر مے فروش کے راز کھول کر بیان کر دے ۔ شراب کی موج بن جا اور صراحی کا لباس پہن لے ۔

 
سنگ شو آئینہ ی اندیشہ را
بر سر بازار بشکن شیشہ را

مطلب: فکر و خوف کے شیشے کے لیے پتھر بن جا، شیشے کو چوراہے پر تو ڈال ۔ چکنا چور کر دے یعنی ر از چھپا کر نہ رکھ بلکہ ان کو سب کے سامنے کھول کر بیان کر دے ۔

 
از نیستان ہمچو نے پیغام دہ
قیس را از قوم حے پیغام دہ

مطلب: نرکل کے جنگل سے بانسری کی مانند پیغام دے ۔ قیس کو قبیلہ حے کی طرف سے پیغام دے ۔

 
نالہ را انداز نو ایجاد کن
بزم را از ہائے و ہو آباد کن

مطلب: نالے آہ فغاں کے لیے نیا اندازہ ایجاد کر محفل کو ہائے و ہو سے آباد کر ۔

 
خیز و پا بر جادہ ی دیگر بنہ
جوش سوداے کہن از سر بنہ

مطلب: اٹھ اور قدم ایک نئی راہ پر رکھ اپنے قدیم سودا کا ابال اپنے سر سے نکال دے ۔ (نئے مسلک کا کاربند ہو، پرانے مسلک سے کنارہ کش ہو جا) ۔

 
آشنائے لذت گفتار شو
اے دراے کاروان بیدار شو

مطلب: تو گفتار کی تاثیر سے آگاہ ہو جا، (بات کہنے اور پیغام پہنچانے میں بڑی لذت ہے) ۔ تو جو قافلے کے آگے آگے بجنے والی گھنٹی ہے، بیدا ر ہو جا ۔ (تیرا منصب یہی ہے کہ خود جاگ اور دوسروں کو جگا) ۔

 
زین سخن آتش بہ پیراہن شدم
مثل نے ہنگامہ آبستن شدم

مطلب: اس (پیر روم) کی ان باتوں سے تو میں بڑا ہی مضطرب ہو گیا، بانسری کی طرح میں شور و غوغا سے پر ہو گیا ۔

 
چوں نوا از تار خود برخاستم
جنتے از بہر گوش آراستم

مطلب: میں اپنے باجے سے نغمے کی طرح پھوٹ پڑا، میں نے اپنے کانوں کے لیے ایک بہشت سجا لی ۔

 
بر گرفتم پردہ از راز خودی
وا نمودم سر اعجاز خودی

مطلب: میں نے خودی کے راز سے پردہ اٹھا دیا اور خودی کی کرامت کا بھید ظاہر کر دیا ۔

 
بود نقش ہستیم انگارہ ئی
ناقبولے ناکسے ناکارہ ئی

مطلب: میرا وجود ایک ناتمام نقش تھا، جس کی حیثیت ایک بے رنگ خاکے کی تھی ۔ نہ کوئی اسے قبول کر سکتا تھا نہ اس میں کوئی خوبی تھی، نہ وہ کسی کام آ سکتا تھا ۔

 
عشق سوہان زد مرا آدم شدم
عالم کیف و کم عالم شدم

مطلب: عشق نے مجھ پر ریتی چلائی اور میں انسان ہو گیا، میں دنیا کے تمام احوال و اسرار کا جاننے والا بن گیا ۔

 
حرکت اعصاب گردون دیدہ ام
در رگ مہ گردش خون دیدہ ام

مطلب: میں نے آسمان کے اندر جھانک کر اس کے نظام کا جائزہ لیا اور اس طرح چاند کی رگ میں خون کی گردش کا نظارہ کیا ہے(مراد چاند کے اندرونی نظام میں جھانک کر دیکھا ہے) ۔

 
بہر انسان چشم من شبہا گریست
تا دریدم پردہ ی اسرار زیست

مطلب: انسان کے لیے میری آنکھیں کئی راتیں روتی رہیں ۔ جب کہیں جا کر میں نے ہستی کے رازوں کا پردہ چاک کر ڈالا(قدرت نے زندگی کے رازوں کا پردہ میرے لیے چاک کر دیا) ۔

 
از درون کارگاہ ممکنات
بر کشیدم سر تقویم حیات

مطلب : ممکنات کے کارخانے کے اندر سے میں نے ہستی کی حقیقت کا بھید کھول دیا( بھید پا لیا) ۔

 
من کہ این شب را چو مہ آراستم
گرد پائے ملت بیضاستم

مطلب: میں کہ جس نے اس رات کو چاند کی طرح آراستہ یا منور کیا ہے روشن ملت کے پاؤں کی خاک ہوں یعنی اسلام کا ایک انتہائی ادنیٰ فرد ہوں ۔

 
ملتے در باغ و راغ آوازہ اش
آتش دلہا سرود تازہ اش

مطلب: وہ ملت ایسی ہے جس کی شہرت باغ اور جنگل میں یعنی چہار دانگ عالم میں ہے، اس کے نئے نغموں سے دلوں کی آگ کا سامان پیدا ہوتا ہے ۔

 
ذرہ کشت و آفتاب انبار کرد
خرمن از صد رومی و عطار کرد

مطلب: (اس ملت نے) ذرہ بویا اور سورج حاصل کر لیا، جس کا کھلیان سینکڑوں رومیوں اور عطاروں سے بھرا پڑا ہے ۔

 
آہ گرمم رخت بر گردون کشم
گر چہ دودم از تبار آتشم

مطلب: میں ایک گرم آہ ہوں ، آسمان کی طرف سفر کرتا ہوں ۔ اگرچہ میں دھواں ہوں ۔ آہ کو دھواں ہی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن میرا تعلق آگ کے خاندان سے ہے ۔

 
خامہ ام از ہمت فکر بلند
راز این نہ پردہ در صحرا فگند

مطلب: میرے قلم نے فکر کی بلندی کے بل پر ان نو پردوں کے راز سب کے لیے کھول دیئے ( نو پروں سے مراد اصلاح ادب میں نو آسمان ہیں ) ۔

 
قطرہ تا ہم پایہ ی دریا شود
ذرہ از بالیدگی صحرا شود

مطلب: تا کہ قطرہ سمندر کا ہم پلہ ہو جائے اور ذرہ بڑھتے بڑھتے صحرا بن جائے ۔

 
شاعری زین مثنوی مقصود نیست
بت پرستی بت گری مقصود نیست

مطلب: میں نے جو یہ مثنوی لکھی ہے تو اس سے میرا مقصد کسی قسم کی شاعری کے کمالات دکھانا نہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ عا م شاعروں کی طرح بت بنا کر آراستہ کرتا جاؤں اور بت پرستی کی دعوت دیتا رہوں (الفاظ کی تراش، خراش، شعبدہ بازی فنی چابک دستی دکھانا میرا مقصود نہیں ہے) ۔ بلکہ میں قوم کی سربلندی کا طریقہ بتاتا ہوں َ

 
ہندیم از پارسی بیگانہ ام
ماہ نو باشم تہی پیمانہ ام

مطلب: میں ہند کا رہنے والا ہوں ، فارسی زبان سے نا آشنا ہوں ۔ میں نیا چاند ہوں (یعنی جس طرح ہلال الٹے پیمانے کی طرح ہوتا ہے میں بھی اسی طرح ) خالی پیمانہ ہوں ۔

 
حسن انداز بیان از من مجو
خوانسار و اصفہان از من مجو

مطلب: مجھ سے تو شاعرانہ انداز بیان کی خوبیاں مت مانگ میرے کلام میں خوانسار و اصفہان (بڑے بڑے شعرا کی سی فنی خوبیاں ) مت ڈھوند ۔

 
گر چہ ہندی در عذوبت شکر است
طرز گفتار دری شیرین تر است

مطلب: اگرچہ اردو زبان اپنی شیرینی اور مٹھاس کے لحاظ سے شکر جیسی ہے لیکن فارسی زبان اس سے کہیں زیادہ میٹھی ہے(فارسی کے طرز سخن میں زیادہ مٹھاس پائی جاتی ہے) ۔

 
فکر من از جلوہ اش مسحور گشت
خامہ من شاخ نخل طور گشت

مطلب: میری فکر اس (یعنی فارسی زبان) کے جلوے سے مسحور ہو گئی ۔ اس جلوہ افروزی کی بدولت میر اقلم طور کے درخت کی شاخ بن گیا ۔

 
پارسی از رفعت اندیشہ ام
در خورد با فطرت اندیشہ ام

معانی: میرے افکار بہت بلند ہیں اور فارسی کی ان افکار کی فطرت سے بہت مناسبت ہے ۔

 
خردہ بر مینا مگیر اے ہوشمند
دل بذوق خردہ ی مینا بہ بند

مطلب: اے صاحب عقل و دانش تو صراحی پر اعتراض نہ کر( میری شاعری کی فنی کوتاہیوں کو نہ دیکھ) تو صراحی میں موجود شراب کے ذوق سے دل بستگی پیدا کر(اپنے دل کو شراب کی لذت سے وابستہ کر لے) ۔ -