Please wait..

(۱۶)

 
تو باین گمان کہ شاید سر آستانہ دارم
بہ طواف خانہ کارے بخداے خانہ دارم

مطلب: مجھے مصروفِ طواف کعبہ دیکھ کر اگر تو یہ سمجھ رہا ہے کہ شاید طواف کعبہ ہی میرا اصل مقصد ہے تو تیرا یہ گمان غلط ہے ۔ میرا اصل مقصد تو خدا کا قرب حاصل کرنا ہے طواف کعبہ تو صرف ایک ذریعہ ہے ۔

 
شرر پریدہ رنگم، مگزر ز جلوہ من
کہ بتاب یک دو آنے تب جاودانہ دارم

مطلب: اے خدا! تیرے وصال کے بغیر میں ایک بے رنگ چنگاری کی مانند ہوں ۔ تو مجھے اپنا رخِ روشن دکھائے بغیر نہ جا ۔ کیونکہ تیری ایک دو لمحوں کی تپش دیدار کی وجہ سے میرے دل کو ہمیشہ کا سوز حاصل ہو جائے گا ۔

 
نکنم دگر نگاہے بہ رہے کہ طے نمودم
بہ سراغ صبح فردا روش زمانہ دارم

مطلب: میں جو راستہ طے کر چکا ہوں (تیرے عشق میں ) اس راستے سے میں واپس آنے والا نہیں ہوں ۔ میں نے آنے والی کل کے سراغ میں زمانے کے طرزِ عمل کو اپنا لیا ہے ۔ مطلب یہ کہ میری ماضی پر نظر نہیں ہوتی بلکہ میں مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں ۔

 
یم عشق کشتی من، یم عشق ساحل من
نہ غم سفینہ دارم، نہ سر کرانہ دارم

مطلب: عشق کا سمندر ہی میری کشتی ہے اور عشق کا سمندر ہی میرا ساحل ہے ۔ اس لیے تو مجھے کشتی کے ڈوبنے کا ہوتا ہے اور نہ ہی میری خواہش ہے کہ کشتی کنارے جا لگے ۔

 
شررے فشان ولیکن شررے کہ وا نسوزد
کہ ہنوز نو نیازم غم آشیانہ دارم

مطلب: اے خدا! مجھ پر اپنے ہر عشق کی ایسی چنگاری پھینک، جس سے میرا جسم جل کر بھسم ہو جائے، کیونکہ میں تو منزل عشق کا نیا راہی ہوں ۔ ابھی تو مجھے اپنے آشیانہ کا غم کھائے جا رہا ہے ۔ مجھے اپنے عشق کے رموز سے آہستہ آہستہ آشنا کر ۔

 
بامید این کہ روزے بشکار خواہی آمد
ز کمند شہریاران رم آہوانہ دارم

مطلب: اے میرے محبوب میں تو اس امید پر کہ تو ایک نہ ایک دن میرے شکار کے لیے آئے گا ، بادشاہوں کی کمند سے ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا ہوا نکل آیا ہوں ۔ مطلب یہ کہ میں تو تیرا غلام ہوں مجھے بادشاہوں اور ان کے درباریوں سے کیا نسبت ہو سکتی ہے ۔

 
تو اگر کرم نمائی بمعاشران بخشم
دو سہ جام دلفروزے ز مے شبانہ دارم

مطلب: اے خدا! تو اگر مجھ پر اپنا رحم و کرم فرمائے تو میں اپنے معاشرے کے افراد یا اپنے دوستوں اور ہم صحبت احباب کو رات کی بزم سے بچی ہوئی دل کو روشنی کرنے والی شراب کے جام پلا سکتا ہوں ۔ مرا دیہ ہے کہ میں اپنے اسلاف کے اقدار کی دولت کو اپنے عہد کے مسلمانوں میں بانٹ دوں ۔

(۱۷)

 
نظر بہ راہ نشینان سوارہ می گزرد
مرا بگیر کہ کارم ز چارہ می گزرد

مطلب: میرا محبوب گھوڑے پر سوا ہو کر راستہ میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے والے عشاق پر نظر ڈالے بغیر گزر رہا ہے ۔ اے دوستو! مجھ تھام لو کہ میرا دل اب میرے قابو میں نہیں رہا (شراب عشق کے باعث مجھ پر نشہ طاری ہو رہا ہے) ۔

 
بہ دیگران چہ سخن گسترم ز جلوہ دوست
بیک نگاہ مثال شرارہ می گزرد

مطلب: میں دوسروں سے اپنے دوست کے جلووَں کے بارے میں کیا کہوں کیونکہ وہ تو پلک جھپکنے میں چنگاری کی طرح سامنے سے گزر جاتا ہے ۔ اس کے جلوہَ حسن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ۔

 
رہے بمنزل آن ماہ سخت دشوار است
چنان کہ عشق بدوش ستارہ می گزرد

مطلب: اس چاند (محبوب) تک پہنچنا بڑا دشوار گزار ہے، کیونکہ اس تک پہنچنے کے لیے ستاروں کے شانوں پر سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ آسان کام نہیں ۔

 
ز پردہ بندی گردوں چہ جاے نومیدیست
کہ ناوک نظر ما ز خارہ می گزرد

مطلب: محبوب آسمان کی پردہ بندی کئے بیٹھا ہے ۔ یہ عاشق کے لیے نا امیدی کا پیغام نہیں ۔ کیونکہ عاشق کی نظر تو عرش سے بھی پرے جا سکتی ہے ۔ اس کی نظر کا تیر تو سخت پتھر کے بھی پار ہو جاتا ہے ۔ یہ پردہ تو معمولی چیز ہے ۔

 
یمے است شبنم ما، کہکشان کنارہ اوست
بیک شکستن موج از کنارہ می گزرد

مطلب: ہماری شبنم ایک سمندر ہے اور کہکشاں اس کا کنارہ ہے ۔ وہ لہر کی ایک شکست سے کنارے سے گزر جاتی ہے ۔ اور سمندر میں مل کر سمندر بن جاتی ہے ۔ آدمی قطرہ شبنم کی طرح ہے اگر وہ عشق کے سمندر میں ڈوب جائے تو خود سمندر بن جائے ۔ یعنی خدا کی ذات میں غرق ہو کر خدائی صفات پیدا ہو جاتی ہے ۔

 
بخلوتش چو رسیدی نظر بہ او مکشا
کہ آن دمے است کہ کار از نظارہ می گزرد

مطلب: جب تو اس محبوب کی خلوت گاہ میں پہنچ جائے تو اسے نظر بھر کر نہ دیکھ کیونکہ یہ وہ وقت ہے جب کام نظارہ کی حد سے گزر کر وصال کی حدوں کو چھو رہا ہوتا ہے ۔

 
من از فراق چہ نالم کہ از ہجوم سرشک
ز راہ دیدہ دلم پارہ پارہ می گزرد

مطلب: میں اپنے محبوب کے ہجر میں اب کس طرح رووَں کہ آنسووَں کے سیلاب کے باعث میرا دل آنکھوں کے راستے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر باہر آ رہا ہے ۔ مجھے تو اپنے دل کا ماتم کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی، میں جدائی کا شکوہ کیا کروں

(۱۸)

 
بر عقل فلک پیما ترکانہ شبخون بہ
یک ذرہ درد دل از علم افلاطون بہ

مطلب: آسمان تک رسائی حاصل کرنے والی عقل پر ترکوں کی طرح شبخون مارنا ہی اچھا ہے یعنی اسے عشق کے آگے سرنگوں کرنا ضروری ہے کیونکہ دردِ عشق کا ایک ذرہ عظیم فلسفی افلاطون کے علم سے کہیں بڑھ کر ہے ۔

 
دی مغبچہ با من اسرار محبت گفت
اشکے کہ فرو خوردی از بادہ گلگون بہ

مطلب: کل مے خانے میں ایک کم سن ساقی نے مجھے محبت کے راز بتائے ۔ اس نے مجھ سے کہا کہ جو آنسو تو غم عشق میں پیتا ہے وہ گلابی رنگ کی شراب سے کہیں بہتر ہے ۔

 
آن فقر کہ بے تیغے صد کشور دل گیرد
از شوکت دارا بہ، از فر فریدون بہ

مطلب: ایسا فقر جو تلوار اٹھائے بغیر سینکڑوں دلوں پر فتح پا لیتا ہے وہ ایران کے بادشاہ دارا کی شوکت اور فریدون کی عظمت سے بہتر ہے ۔

 
در دیر مغان آئی مضمون بلند آور
در خانقہ صوفی افسانہ و افسون بہ

مطلب: اگر تو شراب کشید کرنے والے مندر میں آئے (یعنی کسی صاحب فکر کی محفل میں اگر تو آئے) تو اپنے مقاصد اور حوصلے بلند رکھنا کیونکہ نام نہاد صوفیوں کی خانقاہوں میں تو خیالی باتیں اور جادوگری کے کمال ہوتے ہیں جبکہ مردِ حق کی بارگاہ میں حق پرستی کا ذکر ہوتا ہے ۔

 
در جوئے روان ما بے منت طوفانے
یک موج اگر خیزد آن موج ز جیحون بہ

مطلب: ہماری اس بہتی ہوئی ندی میں طوفان کے احسان کے بغیر اگر ایک موج بھی بلند ہو جائے تو وہ موج دریائے جیحوں کی موج سے بہتر ہے ۔ مطلب یہ کہ دوسرے کے زیر بار احسان ہونے سے خودی پر ضرب آتی ہے ۔ دوسروں کے احسان اٹھا کر ندی کو سمندر بنانے سے بہتر ہے اپنی ہمت سے اس میں ہلکی پھلکی لہریں پیدا کی جائیں ۔

 
سیلے کہ تو آوردی در شہر نمی گنجد
این خانہ بر اندازے در خلوت ہامون بہ

مطلب: وہ سیلاب (عشق کا طوفان) جسے تو لے کر آیا ہے اس کی شہر میں گنجائش نہیں ہے ۔ جس عشق کا تذکرہ تو کر رہا ہے یہ گھر برباد کرنے والا ہے اس سے صحرا ہی بہتر ہے ۔ جس شاعری کا تو تذکرہ کر رہا ہے اسے دنیا دار سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

 
اقبال غزل خوان را کافر نتوان گفتن
سودا بدماغش زد از مدرسہ بیرون بہ

مطلب: غزل گو اقبال کو کافر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کے پیغام میں کوئی ایسی بات نہیں کہ اس پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے ۔ پھر بھی یہی بہتر ہے کہ وہ مدرسے سے باہر ہی رہے ۔ کیونکہ اس کے دماغ میں عشق کا جنون بھرا ہوا ہے اور عشق کی بات اہل ِ مدرسہ کیا جانیں ۔

(۱۹)

 
یا مسلمان را مدہ فرمان کہ جان بر کف بنہ
یا دریں فرسودہ پیکر تازہ جانے آفریں
یا چنان کن یا چنین 

مطلب: اے خدا! تو اس وقت مسلمانوں کو جان ہتھیلی پر رکھنے کا حکم مت دے (کیونکہ ان کے جسم جہاد کے قابل نہیں ہیں ) یا ان کے ناتواں جسموں میں طاقت وہمت بھر دے ۔ یعنی تیرے راستے میں لڑنے کا حوصلہ عطا کر دے یا ویسا کر دے یا ایسا کر دے ۔

 
یا برہمن را بفرما نو خداوندے تراش
یا خود اندر سینہ زناریان خلوت گزیں
یا چنان کن یا چنین 

مطلب: یا تو ہندووَں کے پیشوا برہمن کو حکم دے کہ وہ پرانے خداؤں کی جگہ کوئی نیا خدا تراش لے یا تو خود زناریوں کے سینے میں اپنی ربوبیت کو جگہ دے ۔ مطلب یہ کہ ہندووَں میں بھی اپنے دیوتاؤں سے خلوص کم ہو چکا ہے یا تو انہیں پکا برہمن بنا دے یا ان کے دلوں میں اتر کر انہیں اپنا پرستار بنا لے ۔ یا ویسا کر یا ایسا کر ۔

 
یا دگر آدم کہ از ابلیس باشد کمترک
یا دگر ابلیس بہر امتحان عقل و دیں
یا چنان کن یا چنین 

مطلب:اے خدا یا کوئی اور آدم پیدا کر جو شیطان سے مکر و چال کے لحاظ سے کمتر ہو یا دین اور عقل کے امتحان کے لیے ایک اور شیطان پیدا کر لے ۔ مطلب یہ کہ آج کے عہد کا انسان شیطانی سوچ کے لحاظ سے شیطان سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے اب تیری مرضی ہے ۔ یا ویسا کر یا ایسا کر ۔

 
یا جہانے تازہ یا امتحانے تازہ
می کنی تا چند با ما آنچہ کردی پیش ازیں
یا چنان کن یا چنین 

مطلب: یا کوئی نیا جہان پیدا کر یا اس جہان کے لیے کوئی نیا امتحان لے ۔ تو ہمارے ساتھ کب تک وہی پرانا کھیل کھیلتا رہے گا ۔ چنانچہ، یا ویسا کر یا ایسا کر ۔

 
فقر بخشی با شکوہ خسرو پرویز بخش
یا عطا فرما خرد با فطرت روح الامیں
یا چنان کن یا چنین 

مطلب: اے خدا! اگر تو نے مجھے فقر بخشا ہے تو خسرو پرویز جیسے بادشاہ کی شان و شوکت میں عطا کر ۔ یا مجھے وہ عقل عطا کر جس کی فطرت حضرت روح الا میں فرشتہ جیسی ہو ۔ یا ویسا کر یا ایسا کر ۔

 
یا بکش در سینہ من آرزوے انقلاب
یا دگرگون کن نہاد این زمان و این زمیں
یا چنان کن یا چنین

مطلب: یا تو (اے خدا) میرے دل سے انقلاب کی تمنا ہی ختم کر لے یا پھر اس زمانے کی طبیعت بدل دے ۔ یا ویسا کر یا ایسا کر ۔

(۲۰)

 
عقل ہم عشق است و از ذوق نگہ بیگانہ نیست
لیکن این بیچارہ را آن جرات رندانہ نیست

مطلب: عقل بھی عشق کی مانند ہے اور وہ ذوقِ نظر سے انجان نہیں ہے ۔ لیکن اس بے چاری کے پاس وہ ہمت و دلیری نہیں جو عشق کو حاصل ہے ۔

 
گرچہ میدانم خیال منزل ایجاد من است
در سفر از پا نشستن ہمت مردانہ نیست

مطلب: اگرچہ یہ بات میرے علم میں ہے کہ منزل کا تصور میرا اپنا ایجاد کردہ ہے لیکن اس منزل خیال کی طرف سفر کرتے ہیں رہا میں تھک کر بیٹھ جانا مردانگی کے خلاف ہے ۔

 
ہر زمان یک تازہ جولان گاہ می خواہم ازو
تا جنون فرماے من گوید دگر ویرانہ نیست

مطلب: میں (اپنے خدا سے) ہر لمحہ ایک نئے میدانِ عمل کا متلاشی ہوں ۔ یہاں تک کہ مجھے جنوں بخشنے والا مجھے یہ کہہ دے اب تیرے جنوں کے لیے کوئی اور ویرانہ باقی نہیں ہے ۔

 
با چنین زور جنون پاس گریبان داشتم
در جنون از خود نرفتن کار ہر دیوانہ نیست

مطلب: ایسے شدید جنون کے زور کے باوجود میں نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا، گریبان کا لحاظ رکھا ۔ اور جنون کی ایسی کیفیت میں خود پر قابو رکھنا ہر کسی دیوانے کے بس کی بات نہیں ۔