اللہ الصمد
گر بہ اللہ الصمد دل بستہ ئی از حد اسباب بیرون جستہ ئی
مطلب:اگر تو نے خدائے بے نیاز سے دل وابستہ کر لیا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ تو اسباب کے دائرے سے نکل گیا ہے ۔
بندہ ی حق بندہ ی اسباب نیست زندگانی گردش دولاب نیست
مطلب: اس لیے کہ خدا کا بندہ اسباب کا بندہ نہیں ہو سکتا اور زندگی کی رہٹ کا چکر نہیں ۔
مسلم استی بی نیاز از غیر شو اہل عالم را سراپا خیر شو
مطلب: اگر تو مسلمان ہے تو خدا کے سوا ہر شے سے بے نیاز ہو جا اور دنیا کے لیے خیر و برکت کا سرچشمہ بن جا ۔
پیش منعم شکوہ ی گردون مکن دست خویش از آستین بیرون مکن
مطلب: دولت مند کے پاس جا کر گردش روزگار کے شکوے نہ کر اورا س طرح اپنے لیے سوا ل کا دروازہ نہ کھول بلکہ آستین سے باہر ہی نہ نکال ۔ (کسی سے کچھ نہ مانگ) ۔
چون علی در ساز با نان شعیر گردن مرحب شکن خیبر بگیر
مطلب: حضرت علی کی طرح جو کی روٹی کو اپنا شعار بنا لے ۔ مرحب جیسے زور آور سردار کی گردن توڑ اور خیبر جیسے مستحکم مقام پر قبضہ کر لے ۔
منت از اہل کرم بردن چرا نشتر لا و نعم خوردن چرا
مطلب: اہل کرم کا احسان کیوں لیا جائے ان کے ہاتھ سے ہاں یا نہیں کا نشتر کیوں کھایا جائے ۔ ہاں اور نہیں دونوں کی حیثیت نشتر کی ہے جس سے سوالی کے دل پر زخم لگتے ہیں ۔ اگر سوال پورا کیا گیا تو دینے والے کا احسان ہوا اور لینے والے کی خودداری کو نقصان پہنچا ۔ اگر سوال ٹھکرا دیا گیا تو مطلب یہ ہوا کہ خودداری کو مجروح کر لینے کے باوجود ضرورت بھی پوری نہ ہوئی یہ بھی بہرحال زخم ہی ہوا ۔
رزق خود را از کف دونان مگیر یوسف استی خویش را ارزان مگیر
مطلب: تو اپنا رزق کمینوں کے ہاتھ سے نہ لے ۔ تو یوسف ہے تیری قیمت بہت زیادہ ہے تجھے اپنے آپ کو ارزان نہ کرنا چاہیے ۔
گرچہ باشی مور و ھم بی بال و پر حاجتی پیش سلیمانی مبر
مطلب: اگرچہ تیری حیثیت چیونٹی کی ہو، ساتھ ہی تو بے بال و پر بھی ہو ، پھر بھی تیرے لیے زیبا نہیں کہ تو اپنی حاجت سلیمان کے سامنے لے جائے ۔
راہ دشوار است سامان کم بگیر در جہان آزاد زی آزاد میر
مطلب: زندگی کا راستہ بڑا کٹھن ہے اپنے ساتھ سامان بہت کم لے ۔ دنیا میں آزاد زندہ رہ اور آزاد ہی مر
سبحہَ اقلل من الدنیا شمار از تعش حراً شوی سرمایہ دار
مطلب: حضرت عمر کا یہ کتنا اچھا ارشاد ہے وہ دنیوی ضرورتیں کم کر دے اور آزادانہ زندگی بسر کر تو اسی ارشاد کو نقشہ عمل بنا ۔ اقلل من الدنیا تعش حرا یہ قول حضرت عمر سے منسوب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیوی ضرورتیں کم کردے اور آزادانہ زندگی بسر کر ۔ ظاہر ہے کہ انسان کی ضرورتیں جتنی زیادہ ہوں گے اتنی ہی اسے تگ و دو کرنی پڑے گی اور جب خود اس کی تگ و دو سے ضرورتیں پوری نہ ہوں گی تو وہ دوسروں کے لطف و کرم کا محتاج ہو گا اسی طرح اس کی آزادی چھن جائے گی ۔ دنیا سے بے نیاز وہی رہ سکتا ہے جس کی ضرورتیں بہت کم ہوں ۔
تا توانی کیمیا شو گل مشو در جھان منعم شو و سائل مشو
مطلب: جس حد تک ممکن ہو، مٹی نہ بن، کیمیا بن ۔ تجھے نعمت ہونا چاہیے جو دوسروں کو بخشش سے مالا مال کرے، سوالی نہ ہونا چاہیے ۔
ای شناسای مقام بوعلی جرعہ ئی آرم ز جام بو علی
مطلب: تو حضرت بو علی قلندر رحمتہ اللہ علیہ کے مقام اور مرتبے کو پہچانتا ہے ، میں انھیں کے جام ارشادات میں سے ایک گھونٹ تجھے پلاتا ہوں ۔
پشت پا زن تخت کیکاوس را سر بدہ از کف مدہ ناموس را
مطلب: وہ فرماتے ہیں ، کیکاوَس کے تخت ٹھکرا دے ، سر دے دے مگر عزت و ناموس ہاتھ سے نہ دے ۔
خود بخود گردد در میخانہ باز بر تہے پیمانگان بی نیاز
مطلب: یہ سنت الہٰی ہر لحظہ پیش نظر رکھ کہ جن لوگوں کے جام شراب سے خالی ہیں اگر وہ اللہ تعالیٰ کی صفت بے نیازی اپنے اندر پیدا کرلیں گے تو ان کے لیے شراب خانے کا دروازہ خودبخود کھل جائے گا ۔
قاید اسلامیان ہارون رشید آنکہ نقفور آب تیغ او چشید
مطلب: مسلمانوں کے خلیفہ ہارون الرشید کا واقعہ ہے ۔ وہی ہارون الرشید جس کی تلوار کی دھار کا مزہ نقفور نے بھی چکھا ۔ نقفور مشرقی رومی سلطنت کا بادشاہ تھا ۔ شروع میں ملکہ آئرین کے ماتحت یہ وزیر مال تھا ۔ پھر درباریوں کو ساتھ ملا کر تخت پر بیٹھ گیا ملک آئزین خراج ادا کرتی تھی ۔
گفت مالک را کہ ای مولای قوم روشن از خاک درت سیمای قوم
مطلب: ہارون الرشید نے امام مالک سے کہا کہ اے قوم کے آقا آپ کے دروازے کی خاک سے قوم پیشانی روشن ہے ۔
ای نوا پرداز گلزار حدیث از تو خواہم درس اسرار حدیث
مطلب: آپ حدیث کے باغ میں نغمہ سنج ہیں ، میں بھی چاہتا ہوں کہ آپ سے حدیث کے اسرار کا درس لوں ۔
لعل تا کی پردہ بند اندر یمن خیز و در دارالخلافت خیمہ زن
مطلب: لعل کب تک یمن میں پردوں کے اندر چھپا رہے گا ، آئیے دارالخلافت (بغداد) میں قیام فرمائیے ۔ امام مالک مسجد النبی (مدینہ منورہ ) میں درس دیا کرتے تھے ۔
ای خوشا تابانی روز عراق ای خوشا حسن نظر سوز عراق
مطلب:عراق میں دن خوب روشن ہوتے ہیں اور یہاں حسن بھی بڑا نظر سوز ہوتا ہے
میچکد آب خضر از تاک او مرھم زخم مسیحا خاک او
مطلب: اس کے انگور سے آب خضر (آب حیات) ٹپکتا ہے اورا س کی مٹی زخم مسیحا کے لیے مرہم ہے ۔
گفت مالک مصطفی را چاکرم نیست جز سوادی او اندر سرم
مطلب: امام مالک نے جواب دیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا ملازم ہوں ۔ حضور ﷺ کے عشق کے سوا میرے سر میں کسی کا سودا نہیں ۔
من کہ باشم بستہ ی فتراک او بر نخیزم از حریم پاک او
مطلب: میں حضور ہی کے شکار بند سے بندھا ہوا ہوں اور اس پاک حرم سے اٹھ کر کہیں جا نہیں سکتا ۔
زندہ از تقبیل خاک یثربم خوشتر از روز عراق آمد شبم
مطلب: خاک یثرب کو بوسہ دینا میری زندگی ہے اور میری راتیں عراق کے دنوں سے زیادہ خوشگوار ہیں ۔
عشق می گوید کہ فرمانم پذیر پادشاہان را بخدمت ہم مگیر
مطلب:عشق حق کا فرمان تو یہ ہے کہ میرا حکم مان اور بادشاہوں کو خدمت گاری کے لیے بھی قبول نہ کر ۔
تو ہمی خواہی مرا آقا شوی بندہ ی آزاد را مولا شوی
مطلب: تو چاہتا ہے کہ میرا آقا بن جائے اور آزاد انسانوں کا مولا کہلائے ۔
بہر تعلیم تو آیم بر درت خادم ملت نگردد چاکرت
مطلب: میں تعلیم دینے کے لیے تیرے دروازے پر آوَ ں ۔ قوم کا خدمت گزار ملازم نہیں ہو سکتا ۔
بہرہ ئی خواہی اگر از علم دین درمیان حلقہ ی درسم نشین
مطلب: اگر تو دین کا کچھ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو میرے حلقہ درس میں آ کر بیٹھ ۔
بی نیازی نازہا دارد بسی ناز او اندازہا دارد بسی
مطلب: بے نیازی میں بھی بڑے ناز ہیں اور ان نازوں سے بے شمار انداز ہیں ۔
بے نیازی رنگ حق پوشیدن است رنگ غیر از پیرہن شوئیدن است
مطلب: بے نیازی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان حق کا رنگ اختیار کرنے اور غیر کا رنگ پیراہن سے دھو ڈالے ۔
علم غیر آموختی اندوختی روی خویش از غازہ اش افروختی
مطلب: اے مسلمان! تو نے غیروں کا علم پڑھا اور اسی کو ذخیرہ کیا ۔ اسی غازہ سے اپنا چہرہ چمکا۔
ارجمندی از شعارش می بری من ندانم تو توئے یا دیگری
مطلب: غیر ہی کے طور طریقوں کو اپنے لیے باعث عزت سمجھتا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ تو تو ہے یا غیر ہے یعنی تیری حقیقی حیثیت غیر کی نقالی میں گم ہو ئی ہے اور یقینا تو تو نہیں رہا ۔
از نسیمش خاک تو خاموش گشت وز گل و ریحان تہی آغوش گشت
مطلب: غیر کی باد نسیم نے تیری مٹی کو خشک اور بے آب و گیاہ بنا دیا ۔ وہاں گلاب اور ناز بو پیدا ہوتے تھے ۔ تیری مٹی اب ان سے محروم ہو گئی ۔
کشت خود از دست خود ویران مکن از سحابش گدیہ ی باران مکن
مطلب: تو اپنا کھیت اپنے ہاتھوں نہ اجاڑ اور غیر کے بادل سے بارش کی بھیک نہ مانگ ۔
عقل تو زنجیری افکار غیر در گلوی تو نفس از تار غیر
مطلب: تیری عقل غیر کے افکار کی قیدی ہے ۔ تیرے گلے میں جو سانس ہے وہ بھی غیر ہی کا ایک تار ہے ۔
بر زبانت گفتگوہا مستعار در دل تو آرزوہا مستعار
مطلب: تیری زبان کی گفتگو ئیں اور تیرے دل کی آرزوئیں سب مستعار ہیں ، یعنی ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو تیری ہو ۔
قمریانت را نواہا خواستہ سروہایت را قباہا خواستہ
مطلب: تیری قمریوں کے ترانے اور تیرے سروں کی قبائیں سب دوسروں سے مانگی ہوئی ہیں ۔
بادہ می گیری بجام از دیگران جام ھم گیری بوام از دیگران
مطلب: حد یہ ہے کہ تو اپنے پیالے میں شراب ہی نہیں بلکہ پیالہ بھی دوسروں سے قرض لیتا ہے
آن نگاہش سر ما زاغ البصر سوی قوم خویش باز آید اگر
مطلب: وہ پاک ذات، جس کی نگاہ کے لیے قرآن مجید کا ارشاد ہے ، نہ کجی کی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھ نے اور نہ غلطی کھائی (سورہ نجم) ۔ اگر وہ اپنی قوم کی طرف دوبارہ آئے ۔
می شناسد شمع او پروانہ را نیک داند خویش و ہم بیگانہ را
مطلب: وہ جس کی شمع پروانوں کو پہچانتی ہے ، جانتے ہو ، وہ تم جیسے مسلمانوں کو کیا کہے گی
لست منی گویدت مولای ما وای ما، ای وای ما، ای وای ما
مطلب: تم مجھ سے نہیں تمہیں مجھ سے کسی قسم کا تعلق نہیں ۔ یہ سن کر ہم اس کے سوا کیا کہیں گے کہ افسوس ہم پر ، افسوس ہم پر
زندگانی مثل انجم تا کجا ہستی خود در سحر گم تا کجا
مطلب: ستاروں کی طرح کب تک زندگی بسر کرو گے اپنی ہستی کو صبح کی روشنی میں کب تک گم رکھو گے
ریوی از صبح دروغی خوردہ ئی رخت از پہنای گردون بردہ ئی
مطلب: تم نے صبح کاذب کا دھوکہ کھایا اور اپنے آپ کو ختم کر لیا ۔ اپنی حقیقت پر نظر ڈالو
آفتاب استی یکی در خود نگر از نجوم دیگران تابی مخر
مطلب: تم تو خود سورج ہو، پھر دوسروں کے تاروں سے روشنی کیو ں لیتے ہو ۔
بر دل خود نقش غیر انداختی خاک بردی کیمیا در باختی
مطلب: تم نے اپنے دل پر غیر کا نقش بٹھا لیا ۔ افسوس، مٹی کے بدلے کیمیا ہار دی ۔
تا کجا رخشی ز تاب دیگران سر سبک ساز از شراب دیگران
مطلب: تم کب تک دوسروں کی چمک دمک کے بل پر چمکتے رہو گے اپنا سر دوسروں کی شراب سے ہلکا کرو یعنی دوسروں کی شراب پی کر سرگرداں اور متوالے مت بنو ۔
تا کجا طوف چراغ محفلی ز آتش خود سوز اگر داری دلی
مطلب: تم کب تک محفل کے چراغ کے چکر لگاتے رہو گے ۔ اگر تمہارے پہلو میں دل ہے تو اپنی آگ میں جلو ۔
چون نظر در پردہ ہای خویش باش می پر و اما بجای خویش باش
مطلب: تم نظر کی صورت اختیار کرو، اپنی آنکھ کے پردوں ہی میں رہو ۔ اڑنا چاہتے ہو تو اڑو، مگر اپنی جگہ نہ چھوڑو ۔ نظر کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے پردے نہیں چھوڑتی ۔ ہر جگہ گھومتی ہے مگر اپنی جگہ رہتی ہے ۔
در جہان مثل حباب ای ہوشمند راہ خلوت خانہ بر اغیار بند
مطلب: اے عقلمند! دنیا میں بلبلے کی مانند اپنی خلوت کی جگہ کا راستہ غیروں پر بند کر دے ۔
فرد، فرد آمد کہ خود را وا شناخت قوم، قوم آمد کہ جز با خود نساخت
مطلب: فرداس لیے فرد ہے کہ اس نے اپنی ہستی پہچان لی ۔ قوم اس لیے قوم ہوئی کہ اس نے اپنے سوا کسی سے سازگاری کا ڈول نہ ڈالا(مراد یہ ہے کہ فرد اور قوم دونوں کی ہستی احساس خودی پر موقوف ہے) ۔
از پیام مصطفی آگاہ شو فارغ از ارباب دون اللہ شو
مطلب: رسول اللہ ﷺ کے مقدم پیغام سے آگاہی حاصل کر اور خدا کے سوا جو معبود ہیں ان سے یک سو ہو جا ۔