Please wait..

غزل نمبر۳

 
می تراشد فکر ما ہر دم خداوندی دگر
رست از یک بند تا افتاد در بندی دگر

مطلب: ہماری فکر ہر دم ایک نیا خدا (معبود، بت) تراشتی رہتی ہے ۔ ایک قید سے چھوٹی کہ دوسری میں گرفتار ہو گئی ۔

 
بر سر بام آ، نقاب از چہرہ بیباکانہ کش
نیست در کوے تو چون من آرزومندی دگر

مطلب: بام پر آ! منہ پر سے بے دھڑک نقاب اٹھا دے ۔ تیری گلی میں میرے جیسا کوئی اور آرزومند نہیں ہے ۔

 
بسکہ غیرت میبرم از دیدہ ی بیناے خویش
از نگہ بافم بہ رخسار تو روبندی دگر

مطلب: بسکہ مجھے اپنی دیکھتی آنکھوں سے غیرت آتی ہے تیرے چہرے پر اپنی نگاہ سے ایک اور نقاب بن دیتا ہوں تاکہ میرے سوا تجھے کوئی اور نہ دیکھے ۔

 
یک نگہ ، از خندہ ی دزدیدہ یک تابندہ اشک
بہر پیمان محبت نیست سوگندی دگر

مطلب: ایک نگاہ، ایک دبی دبی سی مسکراہٹ ، ایک چمکتا آنسو محبت کے عہد و پیمان کے لیے کوئی اور حلف نہیں ہے ۔

 
عشق را نازم کہ از بیتابی روز فراق
جان ما را بست با درد تو پیوندی دگر

مطلب:مجھے عشق پر ناز ہے جس نے روز فراق کی بے تابی کے ذریعے میری جان کو تیرے درد کے ساتھ ایک اور پیو ند لگا دیا ۔

 
تا شوی بیباک تر نالہ اے مرغ بہار
آتشے گیر از حریم سینہ ام چندی دگر

مطلب: اے بہار کے پرندے نالہ سر کرنے میں تیرا دل اور کھل جائے تو میرے سینے کے حرم سے کچھ اور آگ لے جا ۔

 
چنگ تیموری شکست آہنگ تیموری بجاست
سر برون می آرد از ساز سمرقندی دگر

مطلب: تیموری بربط ٹوٹ گیامگر تیموری آہنگ برقرار ہے ۔ جو اب ایک اور سمر قند کے ساز سے پھوٹ رہا ہے (وسط ایشیا کے مسلمان پھر اٹھنے والے ہیں ) ۔

 
رہ مدہ کعبہ ای پیرم حرم اقبال را
ہر زمان در آستین دارد خداوندی دگر

مطلب: اے پیر حرم، اقبال کو کعبے میں راہ نہ دے (داخل ہونے کی اجازت نہ دے) وہ ہر لحظہ اپنی آستین میں ایک نیا بت چھپائے رکھتا ہے (اقبال نے اپنے نام کے پردہ میں دراصل پیر حرم کی غیر اسلامی طرز زندگی پر طنز کیا ہے ، پیر حرم سے پیشوایان دین بھی مراد ہے اور وہ طبقہ بھی جو اس وقت کعبہ پر مسلط ہے) ۔