غزل ۲۷
بہ یکے از صوفیہ نوشتہ شد(صوفیوں میں سے ایک شخص کی طرف لکھی گئی )
ہوس منزل لیلیٰ نہ تو داری و نہ من جگر گرمی صحرا نہ تو داری و نہ من
مطلب: لیلیٰ کی منزل تک پہنچنے کی دھن نہ تجھے ہے نہ مجھے ۔ صحرا کی گرمی کی برداشت کرنے کی ہمت نہ تو رکھتا ہے نہ میں ۔
من جوان ساقی و تو پیر کہن میکدہ بزم ما تشنہ و صہبا نہ تو داری و نہ من
مطلب: میں نیا ساقی ہوں اور تو ایک پرانے میخانے کا مسند نشین ہماری محفل پیاسی ہے اور شراب نہ تو رکھتا ہے نہ میں ۔
دل و دین در گرو زہرہ وشان عجمی آتش شوق سلیمی نہ تو داری و نہ من
مطلب: دل اور دین عجمی حسینوں کے پاس رہن رکھا ہوا ہے (سب عجمی افکار کے دلدادہ بن چکے ہیں ) سلیمی کی چاہت کی آگ نہ تو رکھتا ہے اور نہ میں ۔
خزفے بود کہ از ساحل دریا چیدیم دانہ گوہر یکتا نہ تو داری و نہ من
مطلب: وہ تو ایک ٹھیکری تھی جو ہم ساحل سے چن لائے کوئی سچا موتی نہ تیرے پاس ہے اور نہ میرے پاس ۔
دگر از یوسف گم گشتہ سخن نتوان گفت تپش خون زلیخا نہ تو داری و نہ من
مطلب: کھوئے گئے یوسف کی کوئی بات نہیں کی جا سکتی ۔ زلیخا کے خون کی تپش نہ تو رکھتا ہے اور نہ میں ۔
بہ کہ با نور چراغ تہ دامان سازیم طاقت جلوہ سینا نہ تو داری و نہ من
مطلب: اچھا ہے کہ دامن تلے کے دیے کی روشنی پر اکتفا کر لیں ۔ طور کی جھلک کی تاب نہ تو رکھتا ہے اور نہ میں ۔