Please wait..

غزل نمبر ۱۲

 
آشنا ہر خار را از قصہ ما ساختی
در بیابان جنون بردی و رسوا ساختی

مطلب: تو نے ہر کانٹے کو میری داستان سے باخبر کر دیا (تو مجھے) دیوانگی کے بیابان میں لے گیا اور رسوا کر دیا ۔

 
جرم ما از دانہ تقصیر او از سجدہ ئی
نے بہ آن بیچارہ می سازی نہ با ما ساختی

مطلب: ہمارا جرم گندم کا دانہ کھانا اور اس کا قصور ایک سجدہ (نہ کرنا) تو نہ اس بیچارے سے خوش ہے نہ ہم سے راضی ہوا (تو نے نہ اس سے موافقت کی نہ ہم سے) ۔

 
صد جہان می روید از کشت خیال ما چو گل
یک جہان و آن ہم از خون تمنا ساختی

مطلب: ہمارے خیال کی کھیتی سے سینکڑوں عالم پھولوں کی طرح اگتے ہیں ۔ تو نے ایک دنیا بنائی اور وہ بھی ہماری تمناؤں کے لہو سے ۔

 
پرتو حسن تو می افتد بروں مانند رنگ
صورت مے پردہ از دیوار مینا ساختی

مطلب: تیرے حسن کا پرتو رنگ کی طرح شیشے سے باہر چھلکا پڑتا ہے ۔ تو نے شراب کی صورت شیشے کی دیوار کو اوٹ بنایا (شراب کا رنگ بوتل کی دیوار سے نمایاں ہو جاتا ہے) ۔ اگرچہ خدا ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا لیکن اس کے جمال کا پرتو ہر شے میں نمایاں ہے ۔ یعنی ہر شے مظہر ذات باری تعالیٰ ہے ۔

 
طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم
این چہ حیرت خانہ ئی امروز و فردا ساختی

مطلب: کوئی نئی بنیاد ڈال کہ ہم جدت پسند واقع ہوئے ہیں تو نے کیا سر چکرا دینے والی آج اور کل کا حیرت خانہ بنا رکھا ہے(آپ نے یہ دنیا ایسی بنائی ہے کہ اس میں آج کے بعد کل اور کل کے بعد پھر کل آتا ہے ہر کل پہلے کل کی طرح ہوتا ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا اس یکسانیت سے ہم پر حیرت کا عالم طاری ہے ۔ مطلب یہ کہ انسان کو یکساں حالت پسند نہیں ہے ۔ انسان طبعی طور پر جدت پسند واقع ہوا ہے ۔