Please wait..

(۴۱)

 
عشق اندر جستجو افتاد و آدم حاصل است
جلوہ و آشکار از پردہ آب و گل است

مطلب: عشق جستجو کرتا رہا اور اس کی اس جستجو کا حاصل آدم ہے ۔ اس لیے عشق نے اپنا جلوہ آب و گل یعنی جسم خاکی کے پردے سے ظاہر کیا ۔

 
آفتاب و ماہ انجم می توان دادن ز دست
در بہاے آن کف خاکے کہ داراے دل است

مطلب: سورج ، چاند اور ستاروں کو چھوڑا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ اس مٹھی بھر خاک کی قیمت کے سامنے دنیا کی تمام اشیا ہیچ اور بے معنی ہیں ۔

(۴۲)

 
بیا کہ خاوریان نقش تازہ بستند
دگر مرو بطواف بتے کہ بشکستند

مطلب: آ کہ اہلِ مشرق نے نیا تعویذ باندھا ہے (وہ فرنگی جادوگروں کے طلسم کا توڑ تلاش کر چکے ہیں ) ۔ ایسی صورت میں اس بت (فرنگی افکار) کا طواف مت کر جسے توڑا جا چکا ہے) ۔

 
چہ جلوہ ایست کہ دلہا بلذت نگہے
ز خاک راہ مثال شرارہ برجستند

مطلب: یہ کیسا جلوہَ محبوب ہے کہ جس پر نگاہ ڈالنے کی لذت سے دل راستے کی خاک سے چنگاری کی مانند اچھل رہے ہیں ۔

 
کجاست منزل تورانیان شہر آشوب
کہ سینہ ہاے خود از تیزی نفس خستند

مطلب: وسط ایشیا کے وہ نورانی مسلمان اب کہاں ہیں جو ہمیشہ شہر آشوب پسند کرتے تھے ۔ اب وہ نورانی جو اپنے سانسوں کی تیزی سے اپنا سینہ زخمی کر لیتے تھے ۔

 
تو ہم بذوق خودی رس کہ صاحبان طریق
بریدہ از ہمہ عالم بخویش پیوستند

مطلب: تو بھی اپنی خودی کے ذوق تک رسائی حاصل کر کیونکہ مسلکِ عشق پر چلنے والے سارے جہان سے قطع تعلق کر کے خود سے پیوست ہو گئے ہیں ۔

بچشم مردہ دلان کائنات زندانے است
دو جام بادہ کشیدند و از جہان رستند

مطلب: مردہ لوگوں کے لیے ان کی نظروں میں یہ کائنات ایک قید خانہ ہے ۔ انھوں نے دو جام شراب کے پی کر جہان کے دکھوں اور غموں سے چھٹکارا پا لیا ۔ ذمے داریوں سے فرار حاصل کر لیا ۔ ) ۔

 
غلام ہمت بیدار آن سوارانم
ستارہ را بسنان سفتہ در گرہ بستند

مطلب: میں ان سواروں کی ہمت و جرات بیدا کا غلام ہوں ۔ جنھوں نے ستارے کو نیزے کی انی میں پرو دیا ۔ اور گرہ میں باندھ لیا ۔

 
فرشتہ را دگر آن فرصت سجود کجاست
کہ نوریان بتماشاے خاکیان مستند

مطلب: اب فرشتوں کو دوبارہ اس سجدہ کی فرصت کہاں ہے ۔ اب یہ نوری مخلوق، خاکی مخلوق کے کارناموں کے تماشا میں مصروف ہے(اور اسے دادِ تحسین دے رہے ہیں کہ واقعی خالقِ کائنات کا یہ شاہکار ہمارے سجدہ کے لائق ہے) ۔

(۴۳)

 
عشق را نازم کہ بودش را غم نابود نے
کفر او زنار دار حاضر و موجود نے

مطلب: مجھے عشق پر ناز ہے کہ اس کی ہستی کو زوال نہیں (عشق فانی نہیں ، بلکہ ابدی حقیقت ہے) وہ ایک ایسا کفر ہے جو حاضر و موجود کا زنار پہننے والا نہیں ۔

 
عشق اگر فرمان دہد از جان شیریں ہم گزر
عشق محبوب است و مقصود است و جان مقصود نے

مطلب: عشق اگر یہ حکم دے کہ اس کی راہ میں جان قربان کر دے تو بلا تکلف اپنی یہ شیریں جان اس پر نثار کر دے ۔ کیونکہ اصل مقصود تو محبوب کی ذات ہے یہ جان نہیں ۔

 
کافری را پختہ تر سازد شکست سومنات
گرمی بتخانہ بے ہنگامہ محمود نے

مطلب: سومنات توڑنے سے کافری اور زیادہ مضبوط ہوتی ہے ۔ بت خانے کی رونق محمود کی یورش بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ بقا کا خوف ہی قوموں کو مضبوط بناتا ہے ۔

 
مسجد و میخانہ و دیر و کلیسا و کنشت
صد فسوں از بہر دل بستند و دل خوشنود نے

مطلب: مسلمان کی مسجد ہو رندوں کا میخانہ ہو، بت پرستوں کا مندر ہو یا آتش پرستوں کا کشت ہو میں نے ہر جگہ دیکھی ان جگہوں پر لوگوں کا دل لبھانے کے لیے سینکڑوں طرح کی جادوگری موجود تھی ۔ لیکن میرا دل خوش نہ ہو سکا کیونکہ وہاں وصل محبوب کا سامان ہی نہیں تھا ۔ یہ عبادت گاہیں تو نفرت کی آماجگاہیں بنی ہوئی ہیں ۔

 
نغمہ پردازی ز جوے کوہسار آموختم
در گلستان بودہ ام یک نالہ درد آلود نے

مطلب: میں نے نغمہ الاپنے کا فن پہاڑ سے اترنے والی ندی کے گنگناتے ہوئے پانی سیکھا ہے ۔ میں نے چمن دہر میں زندگی گزاری ہے ۔ وہاں تو ایک آہ بھی ایسی نہیں ۔ جس میں درد چھپا ہو ۔

 
پیش من آئی دم سردے، دل گرمے بیار
جنبش اندر تست، اندر نغمہ داوَد نے

مطلب: میرے پاس آنے کے لیے شرط یہ ہے کہ تو سرد دم ہو اور دل میں عشق کی گرمی ہو ۔ کیونکہ حرکت تو تیرے اپنے باطن میں ہے ۔ حضرت داوَد کے نغمہ میں نہیں ۔

 
عیب من کم جوے و از جامم عیار خویش گیر
لذت تلخاب من بے جان غم فرسود نے

مطلب: میرا کلام پڑھنے اور سننے والے کو چاہیے کہ میرے کلام میں عیب تلاش نہ کرے بلکہ میرے پیالے سے اپنے معیار کے مطابق شراب لے لے ۔ میری تلخ شراب کی لذت غم عشق کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ۔

(۴۴)

 
بر دل بے تاب من ساقی مے نابے زند
کیمیا ساز است و اکسیرے بہ سیمابے زند

مطلب: میرے بے قرار دل پر ساقی عشق کی خالص شراب ڈالتا ہے وہ کیمیا ساز ہے ، پارے پر اکسیر ڈالتا ہے تاکہ سونے میں تبدیل ہو جائے ۔

من ندانم نور یا نار است اندر سینہ ام
این قدر دانم بیاض او بہ مہتابے زند

مطلب: میں یہ تو نہیں جانتا کہ میرے سینے میں نور ہے یا نار ۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ اس کی روشنی چاند کو شرما رہی ہے ۔

 
بر دل من فطرت خاموش می آرد ہجوم
ساز از ذوق نوا خود را بمضرابے زند

مطلب: خاموش فطرت نے مجھ پر قبضہ جما لیا ہے اور نوا کے ذوق سے ساز خود کو مضراب پر مار رہا ہے(جب دل واقعی دل بن جاتا ہے تو اسے فطرت کی نہیں بلکہ فطرت کو اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ )

غم مخور نادان کہ گردوں در بیابان کم آب
چشمہ ہا دارد کہ شبخونے بہ سیلابے زند

مطلب: اے نادان غم کھانے، افسوس کرنے کی ضرورت نہیں ۔ کہ آسمان پانی کے بغیر بیابان میں ایسے پانی کے چشمے رکھتا ہے جو سیلاب پر شب خون مارتے ہیں

 
اے کہ نوشم خوردہ از تیزی نیشم مرنج
نیش ہم باید کہ آدم را رگ خوابے زند

مطلب: اے کہ تو نے میری شیریں غذا کھائی ہے یا میٹھا پانی پیا ہے ۔ اب میرے ڈنک کی تیزی سے پریشان نہ ہو ۔ کیونکہ آدمی کی سوئی ہوئی حمیت جگانے کے لیے بعض اوقات ڈنک مارنا چاہیے(جہاں تو نے میری شاعری کا لطف اٹھایا ہے وہاں تلخ مضامین سے پریشان مت ہو کیونکہ یہ تجھے میدان عمل میں لانے کے لیے ہیں ) ۔

(۴۵)

 
فروغ خاکیان از نوریان افزوں شود روزے
زمیں از کوکب تقدیر ما گردوں شود روزے

مطلب: ایک دن ایسا آئے گا کہ خاک کے بنے ہوئے آدمیوں کی روشنی فرشتوں سے بڑھ جائے گی اور یہ زمین ہماری قسمت کے ستارے سے آسمان بن جائے گی ۔ انسان دنیاوی اور روحانی ترقی میں فرشتوں سے آگے نکل جائے گا ۔ )

 
خیال ما کہ او را پرورش دادند طوفانہا
ز گرداب شہر نیلگوں بیروں شود روزے

مطلب: مرا خیال کہ جس کی پرورش طوفانوں نے کی ہے ایک دن نیلے آسمان کے بھنور سے باہر نکل جائے گا (انسان کی فکر خلا کی وسعتوں سے بھی آگے بڑھ جائے گی) ۔

 
یکی در معنی آدم نگر، از من چہ می پرسی
ہنوز از طبیعت می خلد موزوں شود روزے

مطلب: ایک دفعہ تو آدم کے معنی (اس کی شخصیت ) پر غور کر ۔ اس بارے میں مجھے پوچھتا ہے ۔ یہ معنی ابھی تک اس کی طبیعت میں ہلچل مچا رہے ہیں ۔ ایک دن اشعار کی صورت سامنے آ جائیں گے (انسان کی باطنی صلاحیتیں اسے اوج ثریا تک پہنچا دیتی ہیں ) ۔

 
چنان موزوں شود این پیش پا افتادہ مضمونے
کہ یزدان را دل از تاثیر او پر خوں شود روزے

مطلب : یہ عام مضمون ایک دن ایسا موزوں کو گا کہ خدا کا دل اس کی تاثیر سے ایک دن متاثر ہو جائے گا ۔