غزل نمبر۳۸
بیا کہ بلبل شوریدہ نغمہ پرداز است عروس لالہ سراپا کرشمہ و ناز است
مطلب: (بہار کا موسم ہے ) آ جا کہ دیوانی بلبل گانے میں مگن ہے (نغمہ الاپ رہی ہے ) گل لالہ دلہن کی دلہن سراپا کرشمہ و ناز ہے (ناز و ادا بنی ہوئی ہے) ۔
نوا ز پردہ غیب است اے مقام شناس نہ از گلوئے غزل خوان ، نہ از رگ ساز است
مطلب: اے سر کے پار رکھ نغمہ تو غیب کے پردے سے نکلتا ہے نہ غزل خواں کے گلے سے نہ ساز کے تار سے (سوز و گداز نہ آواز میں ہے نہ ساز مین ہے ، بلکہ دل میں پوشیدہ ہے) ۔
کسے کہ زخمہ رساند بتار ساز حیات ز من بگیر کہ آن بندہ محرم راز است
مطلب: وہ شخص جو زندگی کے ساز کے تار چھیڑتا ہے مجھ سے سن لے کہ وہ بندہ حقیقت تک پہنچا ہوا ہے ۔
مرا از پردگیان جہان خبر دادند ولے زبان نکشایم کہ چرخ کج باز است
مطلب: مجھے کائنات کے پوشیدہ رازوں کی خبر دی گئی ہے لیکن میں زبان نہیں کھولتا کیونکہ آسمان بڑا فسادی ہے (میری گھات میں لگا ہوا ہے)(اگر میں اسرار عشق آشکار کردوں تو میرا حشر بھی وہی ہو گا جو منصور کا ہوا) ۔
سخن درشت مگو، در طریق یاری کوش کہ صحبت من و تو در جہان خدا ساز است
مطلب: تلخ بات نہ کہہ دوستی کی راہ میں سعی کر (ہر شخص سے محبت کا برتاوَ کر)کیونکہ دنیا میں میرا تیرا ساتھ خدا کا بنایا ہوا ہے (اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے، ہم دنیا میں چند روز کے لیے آئے ہیں ) ۔
کجاست منزل این خاکدان تیرہ نہاد کہ ہر چہ ہست چو ریگ روان بہ پرواز است
مطلب: اندھیروں کی بنی اس دنیا کی منزل مقصود کہاں ہے کہ جو ہے وہ ریت کی طرح اڑتی چلی جا رہی ہے (فنا کی طرف رواں ہے) ۔
تنم گلے ز خیابان جنت کشمیر دل از حریم حجاز و نوا ز شیراز است
مطلب: میرا جسم کشمیر کی جنت کی کیاری کا ایک پھول ہے (حسب و نسب کے لحاظ سے میں کشمیری ہوں ) ۔ دل حریم حجاز سے ہے اور نغمہ شیراز سے (دل عقائد کے لحاظ سے میں حجازی مسلمان ہوں اور میری شاعری میں سعدی اور حافظ کا رنگ پایا جاتا ہے) ۔