نقشِ فرنگ ۔ پیام
از من ای باد صبا گوی بہ دانای فرنگ عقل تا بال گشود است گرفتار تر است
مطلب: اے صبا میری طرف سے مغرب کے دانا سے کہنا تمہاری عقل جتنا پر کھولتی ہے پھنستی چلی جاتی ہے۔
برق را این بہ جگر میزند آن رام کند عشق از عقل فسون پیشہ جگردار تر است
مطلب: یہ برق کو جگر پر لیتی ہے وہ اسے رام کرتی ہے۔ عشق منتر پھونکنے والی عقل سے زیادہ جگر دار (حوصلہ مند) ہے۔
چشم جز رنگ گل و لالہ نبیند ورنہ آنچہ در پردۂ رنگ است پدیدار تر است
مطلب: آنکھ لالہ و گل کے رنگ کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھتی ورنہ جو کچھ رنگ کی اوٹ میں ہے وہ زیادہ ظاہر ہے۔
عجب آن نیست کہ اعجاز مسیحا داری عجب این است کہ بیمار تو بیمار تر است
مطلب: تعجب اس پر نہیں کہ تو مسیحائی کو معجزہ رکھتا ہے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ تیرا بیمار اور بھی بیمار ہو چلا ہے(تیرے علاج سے مریض کا مرض اور بڑھ گیا ہے)۔
دانش اندوختہ ئی دل ز کف انداختہ ئی آہ زان نقد گرانمایہ کہ در باختہ ئی
مطلب: تو نے علم ذخیرہ کر لیا مگر دل ہاتھ سے دے دیا۔ آہ وہ انمول دولت جو تو گنوا بیٹھا۔
حکمت و فلسفہ کاریست کہ پایانش نیست سیلی عشق و محبت بہ دبستانش نیست
مطلب: سائنس اور فلسفہ وہ کام ہے جس کا کوئی انجام نہیں ہے۔ اس کے مدرسے میں عشق و محبت کے تھپیڑے نہیں۔
بیشتر راہ دل مردم بیدار زند فتنہ ئی نیست کہ در چشم سخندانش نیست
مطلب: اکثر جاگے ہوؤں ہی کا دل لوٹتی ہے۔ کوئی فتنہ نہیں جو اسکی ہوشیار آنکھوں میں نہیں۔
دل ز ناز خنک او بہ تپیدن نرسد لذتی در خلش غمزۂ پنھانش نیست
مطلب: دل اس کی ٹھنڈی ادا سے تڑپنے نہیں پاتا اس کے چھپے چھپے اشاروں کی کھٹک میں کوئی لذت نہیں۔
دشت و کہسار نوردید و غزالی نگرفت طوف گلشن زد و یک گل بگریبانش نیست
مطلب: اس نے بن اور پہاڑ ایک کر دیے (در در کی خاک چھانی) مگر کوئی غزال ہاتھ نہ آیا (حقیقت کو نہ پا سکا) ۔ گلشن کے پھیرے لگائے لیکن اس کے گریبان میں ایک پھول بھی نہیں(فلسفی ساری عمر حقیقت کی تلاش میں بسر کر دیتا ہے لیکن حقیقت تک اس کی رسائی نہیں ہو سکتی)۔
چارہ این است کہ از عشق گشادی طلبیم پیش او سجدہ گذاریم و مرادی طلبیم
مطلب: چارہ یہ ہے کہ ہم عشق سے دستگیری چاہیں اس کے آگے سجدہ کریں اور اس سے مراد مانگیں (اس کا ازالہ یہ ہے کہ عقل کے بجائے عشق کو رہنما بنائیں)۔
عقل چون پای درین راہ خم اندر خم زد شعلہ در آب دوانید و جہان برہم زد
مطلب: عقل نے جب اس پیچ در پیچ راہ میں قدم رکھا تو پانی میں شعلہ دوڑایا اور دنیا الٹ پلٹ کر رکھ دی (دنیا کو درہم برہم کر دیا)۔
کیمیا سازی او ریگ روان را زر کرد بر دل سوختہ اکسیر محبت کم زد
مطلب:اس کی کیمیا گری نے اڑتی ہوئی ریت کو سونا بنا دیا مگر کسی جلے ہوئے دل پر محبت کی اکسیر نہیں رکھی( کہ وہ کندن بن جاتا ۔ ان کے دل میں خوف خدا یا ہمدردی کا مادہ پیدا نہیں کیا)۔
وای بر سادگی ما کہ فسونش خوردیم رھزنی بود کمین کرد و رہ آدم زد
مطلب: ہماری سادگی پر افسوس کہ اس کے فریب میں آ گئے وہ ایک رہزن تھا جس نے گھات لگائی اور آدمی کی راہ ماری۔
ہنرش خاک بر آورد ز تہذیب فرنگ باز آن خاک بہ چشم پسر مریم زد
مطلب: اس کے ہنر نے فرنگی تہذیب کی خاک اڑائی پھر وہی خاک خاک مریم کے بیٹے کی آنکھوں میں ڈال دی (جناب عیسیٰ مسیح کی قابل قدر اخلاقی تعلیمات کو شدید نقصان پہنچایا)۔
شرری کاشتن و شعلہ درون تا کی؟ عقدہ بر دل زدن و باز گشودن تا کی؟
مطلب: کب تک چنگاری بونا اور شعلے کاٹنا؟ دل پر گرہ ڈالنا اور پھر کھولنا کب تک؟ (تم کب تک عقل پرستی کے گرداب میں مبتلا رہو گے)۔
عقل خود بین دگر و عقل جہان بین دگر است بال بلبل دگر و بازوی شاہین دگر است
مطل:اپنے آپ میں گم عقل اور ہے دنیا دیکھنے والی عقل اور بلبل کا پر اور ہے شاہیں کا شہپر اور ہے ۔
دگر است آنکہ برد دانۂ افتادہ ز خاک آنکہ گیرد خورش از دانۂ پروین دگر است
مطلب: اور ہے وہ پرندہ جو مٹی پر پڑا ہوا دانا چگتا ہے ۔ جو ثریا کے خوشے سے خوراک جھپٹتا ہے وہ پرندہ اور ہے۔
دگر است آنکہ زند سیر چمن مثل نسیم آنکہ در شد بہ ضمیر گل و نسرین دگر است
مطلب: وہ جو باغ میں نسیم کی طرح چکراتا پھرتا ہے اور وہ جو گلاب اور نسرین کے پھولوں کے اندر اتر گیا وہ اور ہے۔
دگر است آنسوی نہ پردہ گشادن نظری این سوی پردہ گمان و ظن و تخمین دگر است
مطلب: اور ہے ان نو پردوں کے اس طرح دیکھنا پردے کے ادھر اُدھر اٹکل پچو لڑانا اور ہے۔
ای خوش آن عقل کہ پہنای دو عالم با اوست نور افرشتہ و سوز دل آدم با اوست
مطلب: مبارک ہے وہ عقل کہ دونوں جہان کا پھیلاؤ اس کے جلوے میں ہے فرشتے کا نور اور آدم کے دل کا سوز اس میں سمایا ہوا ہے۔
ما ز خلوت کدۂ عشق برون تاختہ ایم خاک پا را صفت آینہ پرداختہ ایم
مطلب: ہم عشق کے خلوت کدے سے باہر نکلے ہیں (یلغار کی ہے) ہم نے پاؤں کی مٹی کو آئینے کی طرح چمکایا ہے۔
در نگر ہمت ما را کہ بہ داوی فکنیم دو جہان را کہ نہان بردہ عیان باختہ ایم
مطلب: ہماری ہمت دیکھ کہ ہم نے ایک ہی داؤ پر لگا دیا ہے دونوں جہاں کو جنھیں ہم چھپا کر لائے اور دکھا کر ہار گئے ۔
پیش ما میگذرد سلسلۂ شام و سحر بر لب جوی روان خیمہ بر افروختہ ایم
مطلب: ہمارے آگے صبح اور شام کی لین ڈوری لگی رہتی ہے ۔ ہم نے بہتی ہوئی ندی کے کنارے پر خیمہ لگا رکھا ہے۔
در دل ما کہ برین دیر کہن شبخون ریخت آتشی بود کہ در خشک و تر انداختہ ایم
مطلب: ہمارے دل میں جس نے اس دنیا پر شبخون مارا ایک آگ تھی جو ہم نے سارے جہان میں دکھا دی۔
شعلہ بودیم ، شکستیم و شرر گردیدیم صاحب ذوق و تمنا و نظر گردیدیم
مطلب: ہم شعلہ تھے ٹوٹ گئے اور چنگاری بن گئے ۔ ہو گئے مستی اور چاہ اور آنکھ والے۔
عشق گردید ہوس پیشہ و ہر بند گسست آدم از فتنہ او صورت ماہی در شست
مطلب: عشق نے ہوس کا چلن اختیار کر لیا اور ہر روک گرا دی ۔ آدمی جیسے کانٹے میں پھنسی ہوئی مچھلی کے فتنے سے۔
رزم بر بزم پسندید و سپاہی آراست تیغ او جز بہ سر و سینۂ یاران ننشست
مطلب: اس نے رزم کو بزم پر ترجیح دی اور لشکر ترتیب دیا اس کی تلوار نہ گری مگر دوستوں کے سر اور چھاتی پر۔
رھزنی را کہ بنا کرد جہانبانی گفت ستم خواجگی او کمر بندہ شکست
مطلب: اس نے رہزنی کی بنا ڈالی اور اسے جہانبانی بتایا اور اس کی ملوکیت کے ستم نے مجبوروں کی کمر توڑ کے رکھ دی۔
بی حجابانہ ببانگ دف و نی می رقصد جامی از خون عزیزان تنک مایہ بدست
مطلب: دف ونی کی آواز پر دیدہ دلیری سے رقص کر رہا ہے۔ گرے پڑے عزیزوں کے خون سے بھرا پیالہ ہاتھ میں لیے ۔
وقت آن است کہ آئین دگر تازہ کنیم لوح دل پاک بشوئیم و ز سر تازہ کنیم
مطلب: وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک اور نظام بروئے کار لائیں دل کی تختی دھو ڈالیں اور نئے سرے سے شروع کریں۔ (وقت آ گیا ہے کہ ہم اس فرسودہ نظا م ملوکیت کو ختم کر دیں)۔
افسر پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت نی اسکندری و نغمۂ دارائی رفت
مطلب: بادشاہت کا تاج گیا اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوا۔ سکندر کا ساز اور دارا کا ترانہ فنا ہو گیا(سکندر اور دارا مطلق العنان بادشاہوں کا دور ختم ہو رہا ہے )۔
کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت
مطلب: کوہکن ہاتھ میں تیشہ لیے ہوئے آیا اور پرویزی طلب کی بادشاہی کا عیش اور غلامی کی سختی رخصت ہو گئی (مزدوروں کی غلامی کا زمانہ ختم ہو رہا ہے )۔
یوسفی را ز اسیری بہ عزیزی بردند ہمہ افسانہ و افسون زلیخائی رفت
مطلب: یوسفی قید سے چھوٹ کر بادشاہت تک پہنچ گئی۔ زلیخا کی ساری کہانی اور جادوگری بیچ میں سے نکل گئی۔
راز ہائی کہ نہان بود ببازار افتاد آن سخن سازی و آن انجمن آرائی رفت
مطلب: وہ راز جو چھپے ہوئے تھے بازار میں آ گئے سخن سازی اور انجمن آرائی کا دور ختم ہو گیا۔
چشم بگشای اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی در پی تعمیر جھان دگر است
مطلب:آنکھ کھول اگر تیری نظر نظر رکھتی ہے اور دیکھ۔ زندگی ایک اور ہی دنیا تعمیر کرنے کی دھن میں ہے۔
من درین خاک کہن گوہر جان می بینم چشم ہر ذرہ چو انجم نگران می بینم
مطلب: میں اس فرسودہ مٹی میں زندگی کا جوہر دیکھ رہا ہوں (نئی زندگی کے آثار دیکھ رہا ہوں) میں ہر ذرے کی آنکھ ستاروں کی طرح بیدار دیکھ رہا ہوں۔
دانہ ئی را کہ بہ آغوش زمین است ہنوز شاخ در شاخ و برومند و جوان می بینم
مطلب: وہ بیج جو ابھی زمین کی آغوش میں اندر ہے میں اسےگھنیرا، پھلدار اور ہر ابھرا دیکھ رہا ہوں۔
کوہ را مثل پرکاہ سبک می یابم پرکاہی صفت کوہ گران می بینم
مطلب: مغربی تہذیب کے پہاڑ کو گھاس کی پتی کی طرح ہلکا پاتا ہوں۔ تنکے کو وزنی پہاڑ دیکھ رہا ہوں۔
انقلابی کہ نگنجد بہ ضمیر افلاک بینم و ہیچ ندانم کہ چسان می بینم
مطلب: وہ انقلاب جو آسمانوں کے ضمیر میں نہیں سماتا میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ مگر کچھ نہیں جانتا کہ کیونکہ (کیسے دیکھ رہا ہوں)۔
خرم آنکس کہ درین گرد سواری بیند جوھر نغمہ ز لرزیدن تاری بیند
مطلب: مبارک ہے وہ شخص جو اس گرد میں سوار کو دیکھ لے ۔ تار ہلنے سے نغمے کی روح بوجھ لے۔
زندگی جوی روان است و روان خواہد بود این می کہنہ جوان است و جوان خواہد بود
مطلب: زندگی بہتی ہوئی ندی ہے اور یہ ہمیشہ بہتی ہی رہے گی۔ یہ پرانی شراب نشے سے بھری ہوئی ہے اور بھری ہی رہے گی۔
آنچہ بود است و نباید ز میان خواہد رفت آنچہ بایست و نبود است ھمان خواہد بود
مطلب: جو کچھ ہے مگر نہیں ہو نا چاہیے وہ مٹ جائے گا جو ہونا چاہئے تھا لیکن نہیں ہے وہ ہو جائے گا۔
عشق از لذت دیدار سراپا نظر است حسن مشتاق نمود است و عیان خواہد بود
مطلب: عشق دیدار کی لذت سے سراپا نظر بن گیا (انتظار میں ہے) حسن رونمائی چاہتا ہے اور بے نقاب ہو کر رہے گا۔
آن زمینی کہ برو گریۂ خونین زدہ ام اشک من در جگرش لعل گران خواہد بود
مطلب: وہ زمین جس پر میں نے خون کے آنسو گرائے ہیں میرا اشک اس کے جگر میں یاقوت بن جائے گا۔
مژدۂ صبح درین تیرہ شبانم دادند شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند
مطلب: مجھے اس اندھیری رات میں صبح کی خوشخبری دی گئی ہے۔ شمع بجھا دی گئی مگر سورج کی جھلک مجھے دکھا دی گئی ہے۔