Please wait..

حور و شاعر(درجواب گوءٹے موسوم)
حور اور شاعر (گوءٹے کی نظم حور و شاعر کے جواب میں )

حور

 
نہ بہ بادہ میل داری نہ بہ من نظر کشائی
عجب ایں کہ تو ندانی رہ و رسم آشنائی

مطلب: نہ تو شراب سے میل رکھتا ہے نہ میری طرف آنکھ اٹھا کے دیکھتا ہے ۔ حیرت تو یہ ہے کہ تو دوستی کے طور طریق بھی نہیں جانتا ہے ۔

 
ہمہ ساز جستجوئی ہمہ سوز آرزوئی
نفسے کہ می گدازی غزلی کہ می سرائی

مطلب: ساری کی ساری ایک تلا ش کی مہک سب کی سب ایک آرزو کی لپک ہے تو جو نفس گداز کرتا ہے وہ ہمہ سوز آرزو ہے ۔ ہر آہ جو تو بھرتا ہے ہر غزل جو تو الاپتا ہے ۔

 
بنوائی آفریدی چہ جہان دلکشائی
کہ ارم بچشم آید چو طلسم سیمیائی

مطلب: تو نے ایک نغمے سے کیا دلکش عالم ایجاد کر دیا کہ جنت بھی مجھے نظر بندی کا عمل دکھائی دیتی ہے(طلسمی شے نظر آتی ہے) ۔

شاعر

 
دل رہروان فریبی بہ کلام نیش داری
مگر این کہ لذت او نرسد بہ نوک خاری

مطلب: تو دل میں کھب جانے والی (دل نشین) باتوں سے مسافروں کا دل گرماتی ہے مگر یہ ہے کہ ان کی لذت کانٹے کی خلش تک نہیں پہنچتی ۔

 
چہ کنم کہ فطرت من بہ مقام در نسازد
دل ناصبور دارم چو صبا بہ لالہ زاری

مطلب: میں کیا کروں کہ میری فطرت مجھے ایک مقام پر ٹکنے نہیں دیتی ۔ چمن میں صبا کی طرح میں ایک بے چین دل رکھتا ہوں ۔

 
چو نظر قرار گیرد بہ نگار خوبروئی
تپد آن زمان دل من پے خوبتر نگاری

مطلب: جب میری نظر کسی حسین محبوب پر ٹھہرتی ہے اس گھڑی میرا دل اس سے بڑھ کر کسی حسین کے لیے تڑپنے لگتا ہے ۔

 
ز شرر ستارہ جویم، ز ستارہ آفتابی
سر منزلی ندارم کہ بمیرم از قراری

مطلب: شرر سے ستارے کی جستجو کو نکلتا ہوں اور ستارے سے آفتاب کی تلاش میں ۔ میں کہیں رکنے کا خیال نہیں رکھتا کیونکہ ایک جگہ ٹھہرنا میرے لیے موت ہے ۔

 
چو زبادہ بہاری، قدحی کشیدہ خیزم
غزلی دگر سرائم بہ ہواے نو بہاری

مطلب: جب ایک بہار کی شراب کا پیالہ پی کر اٹھتا ہوں تو نئی بہار کی آرزو میں ایک نئی غزل گانے لگتا ہوں ۔

 
طلبم نہایت آن کہ نہایتی ندارد
بہ نگاہ ناشکیبی بہ دل امید واری

مطلب: میں اس کی انتہا چاہتا ہوں جس کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ ایک بے قرار نگاہ کے ساتھ ایک امید رکھنے والے دل کے ساتھ ۔

 
دل عاشقاں بمیرد بہ بہشت جاودانی
نہ نوای دردمندی نہ غمے نہ غمگساری

مطلب: ایسی بہشت جاوداں میں عاشقوں کا دل مر جاتا ہے نہ کوئی درد مند صدا، نہ کوئی غم نہ کوئی غمگسار نوٹ: اقبال کا فلسفہ یہ ہے کہ حیات تسلسل پر موقوف ہے ۔ بہشت میں سوختن کا نام و نشان نہیں ہے بلکہ خلش آرزو اور انتظار بھی ناپید ہے ۔ وہاں تو دائمی سرور اور سکون ہے جبکہ عاشق کی زندگی سراسر تپش اور سراپا خلش ہے ۔ وہ بہشت میں کس طرح خوش رہ سکتا ہے جہان نہ تو نواے درد سنائی دیتی ہے نہ کہیں عشق و محبت کا ہنگامہ برپا ہے اور نہ کسی غمگسار کا کوئی نشان نظر آتاہے ۔