Please wait..

غزل نمبر۳۶

 
جہان عشق نہ میری نہ سروری داند
ہمیں بس است کہ آئین چاکری داند

مطلب: عشق کی دنیا نہ سرداری جانتی ہے نہ بادشاہی یہی کافی ہے کہ خدمت کے آداب کی خبر رکھتی ہے (جو سردار ہوتا ہے وہ سب کا خادم ہوتا ہے) ۔

 
نہ ہر کہ طوف بتے کرد و بست زنارے
صنم پرستی و آداب کافری داند

مطلب: ہر وہ شخص جس نے کسی بت کے گرد پھیرا کر لیا اور جنیو کس لی (ضروری نہیں کہ) صنم پرستی اور کافری کے آداب بھی جانتا ہو (کافری میں بھی کچھ قوانین ہیں جن کی اطاعت لازمی ہے) ۔

 
ہزار خیبر و صد گونہ اژدر است اینجا
نہ ہر کہ نان جویں خورد حیدری داند

مطلب: یہاں ہزارون خیبر ہیں اور سینکڑوں طرح طرح کے اژدھے ہیں یہ نہیں کہ جس نے جو کی روٹی کھا لی وہ علی بننا بھی جان لے (اس کے لیے عشق رسول بھی ضروری ہے) ۔

 
بچشم اہل نظر از سکندر افزون است
گداگرے کہ مآل سکندری داند

مطلب: آنکھ والوں (عقلمندوں ) کی نظر میں سکندر سے بڑھ کر ہے وہ گداگر جو سکندری کا انجام جانتا ہے (جو بادشاہت کے انجام سے آگاہ ہے) ۔

 
بعشوہ ہائے جوانان ماہ سیما چیست
در آ بحلقہ پیرے کہ دلبری داند

مطلب: چاند جیسی پیشانی والے جوانوں کی اداؤں میں کیا رکھا ہے (کوئی لطف نہیں ) اس پیر (بزرگ) کے حلقے میں آ جا جو دل لینا جانتا ہے ۔

 
فرنگ شیشہ گری کرد و جام و مینا ریخت
بحیرتم کہ ہمین شیشہ را پری داند

مطلب: فرنگ نے شیشہ گری کی اور جام و مینا بنا لیے مجھے حیرت ہے کہ اب وہ اسی شیشے کو پری سمجھتا ہے یعنی بڑی دشواری کے بعد معشوق کو راضی کیا ہے ۔

 
چہ گویمت ز مسلمان نامسلمانے
جز ایں کہ پور خلیل  است و آذری داند

مطلب: میں تجھے اس نامسلماں مسلم کا کیا بتاؤں بس یہ کہ خلیل کا بیٹا ہے مگر آذر کے نقش قدم پر چل رہا ہے ۔

 
یکے بہ غمکدہ من گزر کن و بنگر
ستارہ سوختہ کیمیا گری داند

مطلب: کبھی میرے غمخانے میں آ اور آ کر دیکھ ایک نصیبوں جلا جو کیمیا گری کا فن جانتا ہے ۔ (اقبال کہتے ہیں کہ اگر تو کبھی مجھ سے ملے تو تجھ پر یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ میری زندگی عبرت انگیز ہے یعنی میں کیمیا گر ہوں ۔ مٹی کو سونا بنا سکتا ہوں ، چونکہ ستارہ سوختہ بدقسمت ہوں اس لیے گمنامی کی زندگی بسر کر رہا ہوں ۔ بال جبریل میں لکھتے ہیں
مقام گفتگو کیا اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوز نفس اور میری کیمیا کیا ہے ۔
انہیں ساری عمر یہ افسوس رہا کہ میری قوم کے نوجوان مجھ سے یہ فن کیوں نہیں سیکھتے ۔

 
بیا بمجلس اقبال و یک دو ساغر کش
اگرچہ سر نتراشد قلندری داند

مطلب: اقبال کی مجلس میں آ اور ایک دو پیالے نوش کر وہ اگرچہ سر نہیں منڈاتا مگر قلندری جانتا ہے ۔