(۷۱)
ہنگامہ را کہ بست دریں دیر دیر پاے زناریان او ہمہ نالندہ ہم چو ناے
مطلب: اس دیرپا (صدیوں سے موجود) مندر میں ہنگامے کس نے پیدا کئے ہیں کہ اس مندر کے زناری (دنیا دار لوگ) سب کے سب بانسری کی مانند رو رہے ہیں (دیر پا مندر سے مراد یہ دنیا ہے جہاں ہر آدمی مضطرب و بے چین ہے) ۔
در بنگہ فقیر و بکاشانہ امیر غمہا کہ پشت را بجوانی کند دو تاے
مطلب: غریب کی جھونپڑی ہو یا امیر کا محل، دونوں جگہ ایسے ایسے غم ہیں کہ جو جوانی ہی میں کمر دوہری کر دیتے ہیں (وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتے ہیں ) ۔
درمان کجا کہ درد بدرمان فزوں شود دانش تمام حیلہ و نیرنگ و سیمیاے
مطلب: ان دکھوں کا علاج کیا جائے تو کیسے کیونکہ علاج سے تو درد اور بڑھتا جاتا ہے ۔ (کیونکہ زندگی کے دکھوں کا علاج کرنے کے جتنے بھی عقل نے طریقے دریافت کئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ) عقل اور دانائی سب کی سب بہانہ، شعبدہ اور فریب نظر ہے ۔
بے زور سیل کشتی آدم نمی رود ہر دل ہزار عربدہ دارد بہ ناخداے
مطلب : آدمی کی کشتی زندگی کے سمندر میں سیلاب کے زور کے بغیر نہیں چلتی ۔ کیونکہ ہر دل کشتی کے کھیون ہار کے ساتھ ہزار طرح کی دشمنی رکھتا ہے ۔
از من حکایت سفر زندگی مپرس در ساختم بدرد و گزشتم غزلسراے
مطلب: مجھ سے زندگی کے سفر کی داستان مت پوچھو کہ میں نے زندگانی کا سفر کس مشکل سے طے کیا میں نے تو زندگی کا سفر ایسے طے کیا کہ رنج و غم سے دوستی کر لی ۔ اور غزل گاتا ہوا ہنسی خوشی زندگی کے سفر کی منازل طے کرتا چلا گیا ۔
آمیختم نفس بہ نسیم سحر گہی گشتم دریں چمن بہ گلان نا نہادہ پاے
مطلب: میں نے اپنے سانسوں کو صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں ملا دیا اور چمن میں اس قدر احتیاط سے چلتا رہا کہ کہیں نازک پھولوں پر پاؤں نہ پڑ جائے ( میں نے زندگی بڑی عاجزی سے اور کسی کا دل دکھائے بغیر بسر کی ہے) ۔
از کاخ و کو جدا و پریشان بکاخ و کوے کردم بچشم ماہ تماشے این سراے
مطلب: میں جب تک زندہ رہا محل و کوچوں کے عیش و آرام سے الگ رہا ۔ لیکن محل اور کوچوں میں رہ کر پریشانی سے دن گزارے ۔ میں نے اس جہان کا نظارہ چاند کی طرح کیا (چاند زمین کو اپنی روشنی سے منور کرتا ہے لیکن الگ بھی ہے ۔ اسی طرح میں دنیا سے الگ بھی رہا لیکن دنیا کا شریک سفر بھی رہا ۔
(۷۲)
اے لالہ اے چراغ کہستان و باغ و راغ در من نگر کہ میدہم از زندگی سراغ
مطلب: باغ اور سبزہ زار کے پہاڑی سلسلوں میں کھلنے والے اے چراغ لالہ تو مجھ میں جھانک کہ میں تجھے رازِ زندگی سے آشنا کر دوں ۔ میرے اندر جھانکنے سے تجھے معلوم ہو گا کہ میں نے اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پا لیا ہے ۔
ما رنگ شوخ و بوے پریشیدہ نیستیم مائیم آنچہ میرود اندر دل و دماغ
مطلب: ہم کوئی شوخ رنگ اور پریشان پھرنے والی خوشبو نہیں ہیں ۔ ہم تو وہ ہیں کہ جو ہمارے دل و دماغ میں ہے وہی ظاہر میں ہے ۔ (ہماری سوچ اور فکر اور ہمارا عشق ہمیں خدا آشنا کرتا ہے) ۔
مستی ز بادہ می رسد و از ایاغ نیست ہر چند بادہ را نتوان خورد بے ایاغ
مطلب: مستی تو شراب میں ہوتی ہے پیالے میں نہیں ۔ بلاشبہ شراب پیالے کے بغیر نہیں پی جا سکتی (شراب اور پیالہ دونوں ضروری ہیں ۔ جس طرح روح کے بغیر جسم بیکار ہے اور جسم کے بغیر روح) ۔
داغے بسینہ سوز کہ اندر شب وجود خود را شناختن نتوان جز باین چراغ
مطلب: اپنے سینے کے اندر غمِ عشق کا داغ روشن کر کیونکہ وجود کی اندھیری رات میں اس چراغ کے بغیر خود کو پہچانا نہیں جا سکتا ۔
اے موج شعلہ سینہ بباد صبا کشاے شبنم مجو کہ میدہد از شوختن فراغ
مطلب: اے شعلہَ عشق کی موج اس سینے کو صبح کی نرم و لطیف ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لیے کشادہ کر دے ۔ (اے عشق کے متلاشی) شبنم کی تلاش یا آرزو نہ کر کہ یہ شبنم اس شعلے کو بجھا دیتی ہے جس سے زندگی حرارت ہے ۔
(۷۳)
من بندہ آزادم ، عشق است امام من عشق است امام من، عقل است غلام من
مطلب: میں تو ایک آزاد انسان ہوں اور عشق میرا رہبر ہے ۔ عشق میرا رہبر ہے تو عقل میری غلام ہے ۔
ہنگامہ این محفل از گردش جام من این کوکب شام من، این ماہ تمام من
مطلب: اس محفل کا ہنگامہ میرے جام (دل کے پیالے) کی گردش کے باعث ہے (یہ دل) میری شام کا ستارہ اور میرا چودھویں کا چاند ہے ۔
جان در عدم آسودہ بے ذوق تمنا بود مستانہ نواہا زد در حلقہ دام من
مطلب: یہ جان میں تمنا کے ذوق کے بغیر اطمینان و سکون سے رہ رہی تھی ۔ میرے جال کے حلقے میں اس نے مستانہ وار آوازیں پیدا کر دیں ۔
اے عالم رنگ و بو این صحبت ما تا چند مرگ است دوام تو عشق است دوام من
مطلب: رنگ اور خوشبو سے مزین اے دلفریب فانی جہان ہماری آپس کی صحبت کب تک چلے گی ۔ کیونکہ تیرا دوام (ہمیشہ رہنے کی صفت) موت ہے اور میرا دوام تو میرا عشق ہے ۔ فنا اور بقا میں یہ میل جول کب تک قائم رہے گی
پیدا بضمیرم او پنہان بضمیرم او این است مقام او، دریاب مقام من
مطلب: وہ خدا میرے ضمیر میں ظاہر بھی ہے اور میرے ضمیر میں پوشیدہ بھی ہے ۔ یہ اس کا مقام ہے جو میں نے بتا دیا اب تو میرا مقام معلوم کر کہ وہ کیا ہے ۔ (جب سب کچھ وہی ہے تو پھر میری حیثیت کیا ہے)
(۷۴)
کم سخن غنچہ کہ در پردہ دل رازے داشت در ہجوم گل و ریحان غم دمسازے داشت
مطلب: کم سخن غنچہ کہ جو اپنے دل میں ایک راز چھپائے رکھتا تھا ۔ گلاب کے پھولوں اور ریحان کی نرم اور خوشبو دار گھاس کی انجمن کے درمیان کسی دوست کا غم رکھتا تھا ۔
محرمے خواست ز مرغ چمن و باد بہار تکیہ بر صحبت آن کرد کہ پروازے داشت
مطلب: اس غنچہ نے چمن کے پرندے اور بہار کی ہواسے دوستی کر لی ۔ ان کی صحبت پر اس نے بھروسہ کر لیا کہ وہ بزم کے آداب سے آگاہ تھے ۔ اور جب کچھ دنوں کے بعد خزاں کے موسم نے ڈیرے ڈال لیے تو نہ بلبل رہی اور نہ بہار ۔ تب غنچے کو معلوم ہوا کہ جن کی دوستی پر بھروسہ کیا تھا وہ تو اس کا ساتھ چھوڑ گئے ۔
(۷۵)
خود را کن سجودے، دیر و حرم نماندہ این در عرب نماندہ ، آن در عجم نماندہ
مطلب: میں اب اپنے آپ ہی کو سجدہ کرتا ہوں کیونکہ اب مندر اور مسجد دونوں ہی باقی نہیں رہے ۔ مسجد عرب میں نہیں رہی اور مندر عجم میں موجود نہیں ۔ (نہ تو مسجد ہی رہبری کا فریضہ انجام دے رہی ہے اور نہ ہی مندر میں کوئی راہنما موجود ہے تو پھر اس کے سوا اورکوئی چارہ نہیں کہ میں صرف اپنے ضمیر کی پیروی کروں ) ۔
در برگ لالہ و گل آن رنگ و نم نماندہ در نالہ ہاے مرغان آن زیر و بم نماندہ
مطلب:(موجودہ دور جو کہ اہلِ یورپ کی تہذیب کا عکس لیے ہوئے ہے ) اس میں لالہ اور گلاب کے پھولوں کی پتیوں میں وہ رنگ اور لطافت نہیں پائی جاتی ۔ چمن کے پرندوں کے غم انگیز گیتوں میں بھی سر اور تال کا وہ زیر و بم نہیں رہا جو کبھی ان کے گیتو ں میں پایا جاتا تھا ۔
درکارگاہ گیتی نقش نوی نہ بینم شاید کہ نقش دیگر اندر عدم نماندہ
مطلب: کائنات کے اندر میں کوئی نیا نقش ابھرتا ہوا نہیں دیکھ رہا ۔ شاید کی ملک عدم میں کوئی اور نقش باقی نہیں رہا ۔
سیارہ ہاے گردون بے ذوق انقلابے شاید کہ روز و شب را توفیق رم نماندہ
مطلب: آسمان کے سیارے ذوقِ انقلاب کے بغیر اپنا سفر طے کر رہے ہیں ۔ شاید کہ دن اور رات میں حرکت کی ہمت باقی نہیں رہی ۔
بے منزل آرمیدند پا از طلب کشیدند شاید کہ خاکیان را در سینہ دم نماندہ
مطلب: (عہد حاضر کے لوگ) منزل مراد کی فکر کئے بغیر آرام سے سو رہے ہیں ۔ شاید کہ مٹی کے بنے ہوئے ان خاکی پتلوں میں دم باقی نہیں رہا ۔
یا در بیاض امکان یک برگ سادہ نیست یا خامہ قضا را تاب رقم نماندہ
مطلب: (اس تمام بے عملی کی وجہ یہ ) ہو سکتی ہے کہ امکان کے بیاض میں کوئی سادہ ورق باقی نہیں رہا ۔ یا پھر ایسا ہے کہ ممکنات کا ظہور تو ابھی باقی ہے لیکن تب تقدیر میں لکھنے کی ہمت نہیں ۔