Please wait..

غزل نمبر۵

 
باین بہانہ درین بزم محرمی جویم
غزل سرایم و پیغام آشنا گویم

مطلب : میں اس بہانے سے محفل میں کوئی اپنا محرم ڈھونڈتا ہوں ۔ غزل چھیڑ کے دوست کا پیغام سناتا ہوں ۔

 
بخلوتی کہ سخن می شود حجاب آنجا
حدیث دل بزباں نگاہ میگویم

مطلب: اس خلوت میں جہاں سخن حجاب بن جاتا ہے میں دل کی بات نگاہ کی زبان سے کہتا ہوں ۔

 
پی نظارہ ی روی تو می کنم پاکش
نگاہ شوق بہ جوئے سرشک می شویم

مطلب: تیرے چہرے پر پڑنے کے لیے اسے پاک کر رہا ہوں نگاہ شوق کو آنسووَں کی ندی میں دھو رہا ہوں ۔

 
چو غنچہ گر چہ بکارم گرہ زنند ولی
ز شوق جلوہ گہ آفتاب می رویم

مطلب: اگرچہ کلی کی طرح میرے کام میں گرہ پڑی ہوئی ہے مگر سورج کی جلوہ گاہ کی چاہ مجھے کھینچتی ہے (جدوجہد کے بغیر کوئی سالک کامیاب نہیں ہو سکتا اگر راہ میں دشواری پیدا ہو جائے تو سالک کو ہمت سے کام لینا چاہیے) ۔

 
چو موج ساز وجودم ز سیل بے پرواست
گمان مبر کہ دریں بحر ساحلی جویم

مطلب: موج کی طرح میرے وجود کی بنت ایک بے پرواہ طغیانی سے ہے یہ گمان مت کر کہ میں اس سمندر میں کسی ساحل کا متلاشی ہوں ۔

 
میانہ من و او ربط دیدہ و نظر است
کہ در نہایت دوری ہمیشہ با اویم

مطلب: اس کے اور میرے بیچ اور نظر کا تعلق ہے (یعنی نظر آنکھ میں رہتی ہے) کہ انتہائی دوری میں بھی اس کے ساتھ رہتا ہوں ۔ (وہ ہر جگہ موجود ہے) نحن اقرب الیہ من حبل الورید ، ترجمہ: ہم انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

 
کشید نقش جہانے بہ پردہ چشمم
ز دست شعبدہ بازی اسیر جادویم

مطلب: میری آنکھ کے پردے پر اس نے ایک اور ہی دنیا کی تصویر کھینچ دی ہے ۔ میں ایک شعبدہ باز کے ہاتھوں جادو میں گرفتار ہوں (مطلب یہ کہ کائنات کا وجود حقیقی نہیں ہے بلکہ فریب ہے کائنات دکھائی تو دیتی ہے لیکن دراصل موجود نہیں ہے ۔

 
درون گبند دربستہ اش نگنجیدم
من آسمان کہن را چو خار پہلویم

مطلب: میں اس کے بند گنبد میں نہیں سماتا ۔ میں اس بوڑھے آسمان کے پہلو میں خار کی طرح کھٹکتا ہوں ۔ نوٹ: اقبال کا فلسفہ یہ ہے کہ مومن اس کائنات میں نہیں سما سکتا کیونکہ وہ زمان و مکان سے بالاتر ہوتا ہے ۔ وہ آسمان کے پہلو میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے وہ طلسم زمان و مکان کو باطل کر سکتا ہے یعنی مومن میں یہ طاقت ہے کہ وہ اس کائنات کو مسخر کر سکتا ہے ۔

 
بہ آشیاں نہ نشینم ز لذت پرواز
گہے بہ شاخ گلم، گاہ بر لب جویم

مطلب: پرواز کا مزہ مجھے آشیانے میں نہیں بیٹھنے دیتا کبھی پھولوں کی ٹہنی پر ہوں کبھی ندی کے کنارے پر ۔ (مومن، عاشق) کو کسی لمحہ قرار نہیں ہوتا وہ ایک حالت میں زندگی بسر نہیں کر سکتا ۔ اس کی زندگی میں ہر وقت انقلاب رونما ہوتا رہتا ہے ۔