Please wait..

(۴۱)

 
بدہ آن دل کہ مستی ہاے او از بادہ خویش است
بگیر آن دل کہ از خود رفتہ و بیگانہ اندیش است

مطلب: اے خدا مجھے ایسا دل عطا کر دے کہ جس کی مستی اس کی اپنی ہی شراب ہو ۔ مجھ سے وہ دل واپس لے لے کہ جو مدہوش بے خبر اور اپنی بجائے غیروں کے بارے میں سوچتا ہو ۔

 
بدہ آن دل بدہ آن دل کہ گیتی را فرا گیرد
بگیر این دل بگیر این دل کہ در بندہ کم و بیش است

مطلب: مجھے وہ دل عطا کر دے جو اس کائنات کو اپنی گرفت میں لے لے ۔ اور مجھ سے وہ دل واپس لے لے جو دنیاوی مفاد کے چکر میں پھنسا ہوا ہے ۔

 
مرا اے صید گیر از ترکش تقدیر بیرون کش
جگر دوزی چہ می آید از ان تیرے کہ در کیش است

مطلب: اے شکارا! تو مجھے تقدیر کے ترکش کے دائرے سے باہر نکال ۔ وہ تیر میرے جگر کو کیسے زخمی کر سکتا ہے جو ابھی ترکش میں ہی پڑا ہو ۔

 
نگردد زندگانی خستہ از کار جہانگیری
جہانے در گرہ بستم جہانے دیگرے پیش است

مطلب: دنیا پر قبضہ کرنے یا اسے مسخر کرنے کے عمل سے زندگی میں کمزوری نہیں آتی ۔ میں جب اس دنیا کو اپنے قبضے میں کر لیتا ہوں تو میری تگ و دو کے لیے دوسرا جہان میرے سامنے موجود ہوتا ہے ۔ یعنی دنیا مسلسل جدوجہد کا نام ہے ۔

(۴۲)

 
کف خاک برگ و سازم برہے فشانم او را
بامید این کہ روزے بفلک رسانم او را

مطلب: اے محبوب میرا کل سازوسامان تو مٹھی بھر خاک ہے ۔ اور میں اسے اس امید پر راہوں میں بکھیر رہا ہوں کہ ایک نہ ایک دن میں اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دوں گا ۔ یعنی محبوب کی راہ میں فنا ہو کر زندگی کا اعلیٰ مقصد حاصل کر لوں گا ۔

 
چہ کنم چہ چارہ گیرم کہ ز شاخ علم و دانش
ندمیدہ ہیچ خارے کہ بدل نشانم او را

مطلب: میرے پاس اب اور چارہ کار کیا رہ گیا ہے علم و دانش کی شاخ پر تو کوئی ایسا کانٹا بھی نہیں نکل سکا کہ میں اسے اپنے سینے میں چبھو کر (تیری محبت حاصل کر لوں ) ۔

 
دہد آتش جدائی شرر مرا نمودے
بہ ہمان نفس بمیرم کہ فرونشانم او را

مطلب: ہجر و فراق کی آگ سے میری چنگاری میں اور زیادہ چمک پیدا کرتی ہے ۔ میں تو اسی سانس میں مر جاتا ہوں جس سانس کو میں اپنے بدن میں لے کر جاتا ہوں ۔ مطلب یہ کہ وصل محبوب سے عشق کی موت واقع ہو جاتی ہے اور ہجر کی آگ زندگی میں عشق کی تڑپ زندہ رکھتی ہے ۔

 
مے عشق و مستی او نرود برون ز خونم
کہ دل آن چنان ندادم کہ دگر ستانم او را

مطلب: اس (محبوب) کے عشق اور مستی کی شراب میرے خون سے باہر نہیں نکلتی ۔ کیونکہ میں نے اسے دل اس لیے نہیں دیا کہ اس سے واپس لے لوں ۔

 
تو بلوح سادہ من ہمہ مدعا نوشتی
دگر آن چنان ادب کن کہ غلط نخوانم او را

مطلب: اے خدا! تو نے میری صاف شفاف تختی پر زندگی کے تمام اصول تحریر کر دیے ہیں ۔ اب مجھے ایسا شعور عطا کر میں اس تحریر کو غلط نہ پڑھوں ۔ یعنی تیرے اصولوں کے مطابق زندگی گزاروں ۔

(۴۳)

 
این دل کہ مرا دادی لبریز یقین بادا
این جام جہان بینم روشن تر ازین بادا

مطلب: اے خدا یہ دل جو تو نے مجھے عطا کیا ہے یہ ایمان سے ہمیشہ بھرا رہے اور میرا یہ جام جس میں تمام جہان کو دیکھ سکتا ہوں اس دل سے بھی زیادہ روشن رہے ۔

 
تلخے کہ فرو ریزد گردون بسفال من
در کام کہن رندے آنہم شکرین بادا

مطلب:میرے مٹی کے پیالے میں آسمان سے تلخ شراب کی جو تلجھٹ تو انڈیل رہا ہے اس پرانے مے کش کے حلق سے اترتے ہی یہ شکر میں تبدیل ہو جائے ۔ یعنی زندگی کے مصائب کا سامنا ہنسی خوشی کرتا رہوں ۔

(۴۴)

 
رمز عشق تو بہ  ارباب ہوس نتوان گفت
سخن از تاب و تب شعلہ بہ خس نتوان گفت

مطلب: اے خدا! تیرے عشق کا بھید ہوس کے مارے ہوئے لوگوں کے سامنے نہیں کھولا جا سکتا ۔ شعلہ میں تڑپ کی بات گھاس کے تنکے سے کہنا فضول ہے ۔ کیونکہ وہ اس تڑپ سے ہی نا آشنا ۔ جب تک شعلہ کی تڑپ تنکے تک نہیں پہنچے گی ۔ اسے اس جلن اور تڑپ کا احساس کب ہو گا اس لیے اہل ہوس کو بھی عشق کی رمز سے کوئی سروکار نہیں ۔

 
تو مرا ذوق بیان دادی و گفتی کہ بگوے
ہست در سینہ من آنچہ بکس نتوان گفت

مطلب: تو نے مجھے قوت بیان عطا کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حکم دیا ہے کہ میں اپنی قوت بیان سے دوسرے لوگوں سے اپنے دل کی بات کہہ دوں ۔ لیکن میرے سینے میں جو (افکار ہیں ) انہیں تمام لوگوں سے تو بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ راز کی بات تو رازداروں سے ہی کہی جا سکتی ہے ۔

 
از نہان خانہ دل خوش غزلے می خیزد
سر شاخے ہمہ گویم بہ قفس نتوان گفت

مطلب: میرے دل کے پوشیدہ خانے میں ایک بہت ہی اچھی غزل پیدا ہو رہی ہے ۔ یہ غزل کسی شاخ ہر (آزاد فضا) میں ہی کہی جا سکتی ہے کیونکہ قید خانے میں یہ غزل کہنا بے کار ہے ۔

 
شوق اگر زندہ جاوید نباشد عجب است
کہ حدیث تو دریں یک دو نفس نتوان گفت

مطلب: عشق اگر ہمیشہ زندہ رہنے والی چیز نہیں ہے تو بڑی حیرت کی بات ہے کیونکہ تیری(عشق) کی داستاں (ایک دو سانسوں یعنی عارضی زندگی میں نہیں کہی جا سکتی) ۔

(۴۵)

 
یاد ایامے کہ خوردم بادہ ہا با چنگ و نے
جام مے در دست من، مینائے مے در دست وے

مطلب: مجھے وہ دن یاد ہیں جب میں بزم طرب میں رباب اور بانسری کی لے کے ساتھ رنگ رنگ کی شرابیں پیا کرتا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب شراب کا جام میرے ہاتھوں میں اور صراحی (ساقی) کے ہاتھوں میں ہوتی تھی ۔

 
در کنار آئی خزان ما زند رنگ بہار
در نیائی فرودیں افسردہ تر گردد ز دے

مطلب: اگر تو میرے پہلو میں موجود ہوتا تو میرے لیے خزاں کا موسم بہار کا رنگ اختیار کر لیتا اور اگرتو نہ ہو تو رنگِ بہار خزاں سے بھی زیادہ بے کیف اور افسردہ ہوتا ہے ۔

 
بے تو جان من چو آن سازے کہ تارش در گسست
در حضور از سینہ نغمہ خیزد پے بہ پے

مطلب: تیرے فراق میں میری جان اس ساز کی طرح ہے جس کے تار ٹوٹ گئے ہوں ۔ جب مجھے وصل کی گھڑیاں نصیب ہوتی ہیں تو میرے سینے سے مسلسل نغمے بلند ہوتے رہتے ہیں ۔

 
آنچہ من در بزم شوق آوردہ ام دانی کہ چیست
یک چمن گل یک نیستان نالہ، یک خمخانہ مے

مطلب: جو کچھ میں محفل شوق میں لے کر آیا ہوں کیا تجھے خبر ہے کہ وہ کیا ہے وہ پھولوں کا ایک چمن آہ و زاری کے سرکنڈوں کا ایک جنگل اور شراب سے بھرپور ایک شراب خانہ ہے ۔

 
زندہ کن باز آن محبت را کہ ز نیروئے او
بورے رہ نشینے در فتند با تخت کے

مطلب: ساقی دوراں تو از سر نو وہی محبت زندہ کر دے جس کی قوت و طاقت سے ایک راہ نشیں کا بوریا ایران کے بادشاہ کیخسرو کے ساتھ مقابلہ کرے ۔

 
دوستان خرم کہ بر منزل رسید آوارہ ءی 
من پریشان جادہ ہاے علم و دانش کردہ طی

مطلب: میرے دوستوں کو بے حد خوشی ہے کہ ایک آوارہ منش علم اور حکمت کے پریشان اور پیچیدہ راستے طے کر کے منزل تک جا پہنچا ہے لیکن مجھے کوئی خوشی نہیں کیونکہ علم و حکمت کے راستے سچی منزل تک نہیں پہنچاتے ۔