غزل نمبر۳۳
نہ تو اندر حرم گنجی، نہ در بت خانہ می آئی و لیکن سوئے مشتاقاں چہ مشتاقانہ می آئی
مطلب: نہ حرم میں تیری سمائی ہے نہ بتخانے میں (خدا نہ مسجد میں ہے نہ مندر میں )لیکن آرزومندوں کی طرف تو کیسی چاہت سے آتا ہے ۔ حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں آسمان اور زمین میں نہیں سماتا مگر مومن کے قلب میں سما جاتا ہوں ۔
قدم بیباک تر نہ در حریم جان مشتاقاں تو صاحب خانہ آخر چرا دز دانہ می آئی
مطلب: جو میری طرف ایک قدم بڑھاتا ہے میں اسکی طرف دس قدم بڑھتا ہوں ۔ چاہت کے ماروں کے دل کے حجرے میں بالکل بے دھڑک ہو کر قدم رکھ تو تو اس گھر کا مالک ہے آخر کس لیے چوری چھپے آتا ہے ۔
بغارت می بری سرمایہ تسبیح خوانان را بشبخون دل زناریان ترکانہ می آئی
مطلب: خدا کے نام لیواؤں کی پونجی لوٹ میں لے جاتا ہے تو بتوں کے پرستاروں کے دل پر دھاوا بولنے کے لیے ترکوں کی طرح آتا ہے (شبخون مارتا ہے) ۔
گہے صد لشکر انگیزی کہ خون دوستان ریزی گہے در انجمن با شیشہ و پیمانہ می آئی
مطلب: کبھی لشکر پہ لشکر چڑھاتا ہے کہ اپنے ہی دوستوں کا خون بہائے کبھی بزم میں صراحی اور پیمانہ لئے ہوئے آتا ہے ۔
تو بر نخل کلیمے بے محابا شعلہ می ریزی تو بر شمع یتیمے صورت پروانہ می آئی
مطلب: تو موسیٰ کے شجر پر بیدریغ آگ برساتا ہے اور تو ہی ایک یتیم کی شمع پر پروانہ وار آتا ہے ۔ حضرت موسیٰ کی درخواست پر بھی اپنا جلوہ نہ دکھایا اور حضرت محمد مصطفی کو ان کی التجا کے بغیر اپنا دیدار کرایا ۔
بیا اقبال جامے از خمستان خودی در کش تو از میخانہ مغرب ز خود بیگانہ می آئی
مطلب: اقبال آ خودی کے میکدے سے ایک جام پی تو یورپ کے شراب خانے سے اپنا آپ بھلا کر آیا ہے ۔