Please wait..

(۳۶)

 
جہان کور است و از آئینہ دل غافل افتاد است
ولے چشمے کہ بینا شد نگاہش بر دل افتاد است

مطلب: یہ جہان اندھا ہے اور دل کے آئینے کی صفائی سے غفلت میں پڑا ہوا ہے (اس دل کے آئینے میں نہ صرف خارجی جہاں کا عکس موجود ہے بلکہ معرفت حق بھی جلوہ گر ہو سکتی ہے) لیکن جہان کی توجہ تو خارجی اسباب پر ہے اور جو آنکھ کہ باطن کو دیکھنے والی بن گئی اسے معلوم ہو گیا کہ دل کیا چیز ہے ۔

 
شب تاریک و راہ پیچ پیچ و بے یقیں راہی
دلیل کاروان را مشکل اندر مشکل افتاد است

مطلب: اندھیری رات ہے اور راستہ پیچیدہ ہے اور اس راستہ پر چلنے والا دورِ حاضر کا مسلمان یقین کی دولت سے محروم ہے ۔ امیرِ کارواں کے لیے ایسے بے یقین مسافر کو پیچیدہ راستوں سے منزلِ مقصود تک لے جانا بہت مشکل ہے ۔

 
رقیب خام سودا مست و عاشق مست و قاصد مست
کہ حرف دلبران داراے چندیں محمل افتاد است

مطلب: ناقص عشق والا رقیب مست ہے، عاشق مست ہے ۔ اور قاصد بھی مستی کی کیفیت میں ہے یہ تینوں اس لیے مست ہیں کہ مجبوریوں کی تحریر کئی کجاوے رکھتی ہے ۔ کئی پہلو رکھتی ہے ہر کوئی محبوب کی بات سے اپنے مطلب کی بات نکال رہا ہے اور اسی میں مست ہے ۔

 
یقین مومنے دارد گمان کافرے دارد
چہ تدبیر اے مسلمانان کہ کارم با دل افتاد است

مطلب: (دورِ جدید کی تہذیب، ثقافت اور علم و دانش کی وجہ سے ) میرا دل کبھی مومن کی طرح پختہ ایمان رکھتا ہے اور کبھی کافر کی طرح بے یقینی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اے مسلمانو مجھے بتاوَ میں کیا تدبیر کروں کہ بے یقینی کی حالت سے نکل کر تمہارے جیسا بن جاؤں کیونکہ میرا واسطہ ایسے دل سے آ پڑا ہے جو بے یقینی کا شکار ہے ۔

 
گہے باشد کہ کار ناخدائی می کند طوفان
کہ از طغیان موجے کشتیم بر ساحل افتاد است

مطلب: بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ طوفان بھی کشتی کو ساحل تک پہنچانے کا کام کر دیتا ہے کہ سمندر کی لہروں کے ایک تلاطم نے میری کشتی کو بھی ساحل پر پھینک دیا ہے ۔ بعض اوقات ناموافق حالات سے بھی زندگی سنور جاتی ہے ۔

 
نمیدانم کہ داد این چشم بینا موج دریا را
گہر در سینہ خزف بر ساحل افتاد است

مطلب: میں اس بات سے بے خبر ہوں کہ دریا کی موجوں کو چشم بینا پرکھنے والی آنکھ کس نے بخشی ہے کہ موتیوں کو تو بحفاظت اپنی تہ میں رکھتی ہے اور ٹھیکریوں کو کنارے پر پھینک دیتی ہے (دنیا کی ہر چیز فطرت کے احکامات کے تحت کام کر رہی ہے) ۔

 
نصیبے نیست از سوز درونم مرز و بومم را
زدم اکسیر را بر خاک صحرا باطل افتاد است

مطلب: میرے اندر جو سوزِ عشق موجود ہے وہ میری کھیتی (میرے مخاطب لوگوں کو) نصیب میں نہیں ۔ (عوام الناس نے میرے پیغام کو بے کار سمجھا ہے ۔ ) میں نے صحرا کی مٹی میں اکسیر کا کام کیا (اپنے پیغام کا بیج بویا لیکن سب بے کار گیا ۔

 
اگر در دل جہانے تازہ داری بروں آور
کہ افرنگ از جراحت ہاے پنہان بسمل افتاد است

مطلب: اگر تیرے دل میں کوئی نیا جہان ہے (نئے افکار و خیالات ) ہیں تو ان سے کوئی ایسا علاج دریافت کر جو عہد حاضر کا زخم خوردہ لوگوں کے زخموں کا مداوا کر سکے ۔ کیونکہ اہلِ یورپ کے پاس ان کا کوئی علاج نہیں ۔ وہ تو خود زخمی پڑے ہیں (یورپ نے مختلف نظام ہائے زندگی کو آزما لیا ہے ۔ اب تیرے مسلمان کے پاس ہی وہ حتمی علاج موجود ہے ۔ وہ ساری دنیا کو عطا کر دے ۔

(۳۷)

 
نہ یابی در جہان یارے کہ داند دلنوازی را
بخود گم شو نگہدار آبروے عشق بازی را

مطلب: تو اس دنیا میں اپنے سوا کوئی ایسا دوست نہیں پائے گا جو تیرے دل کی ناز برداری کرنا جانتا ہو ۔ اس لیے تو اپنے آپ میں گم ہو کر بازی عشق کے ناموس کی رکھوالی کر ۔

 
من از کار آفریں داغم کہ با این ذوق پیدائی
ز ما پوشیدہ دارد شیوہ ہاے کار سازی را

مطلب: مجھے اس کائنات کے منتظم اعلیٰ خالق کائنات سے یہ شکایت ہے کہ وہ اپنی نمود اور ظہور کے اس قدر ذوق کے باوجود ہم سے اپنے کام کرنے کے انداز پوشیدہ رکھتا ہے ۔

 
کسے این معنی نازک نداند جز ایاز اینجا
کہ مہر غزنوی افزوں کن درد ایازی را

مطلب: یہ نازک معنی ایاز کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ غز نوی کی محبت ایاز کے درد اور بڑھا دیتی ہے (خالق کائنات کی قربت سے بندے کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں ) ۔

 
من آن علم و فراست با پرکاہے نمی گیرم
کہ از تیغ و سپر بیگانہ سازد مرد غازی را

مطلب: میری نظر میں اس علم و حکمت کی قیمت گھاس کے ایک تنکے کے برابر بھی نہیں جو مردِ غازی کو اس کی تلوار اور ڈھال (عمل جہاد) سے بے خبر کر دے ۔

 
بہر نرخے کہ این کالا بگیری سودمند افتد
بزور بازوئے حیدر  بدہ ادراک رازی را

مطلب: جس بھاوَ سے بھی تو یہ سودا خریدتا ہے تیرے لیے سودمند ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی قوتِ بازو کے عوض فخر الدین رازی جیسی فہم و فراست چھوڑ دے ۔ (ایسا علم کس کام کا جو مسلمان کو عملِ جہاد سے روک دے) ۔

 
اگر یک قطرہ خوں داری اگر مشت پرے داری
بیامن با تو آموزم طریق شہبازی را

مطلب: اگر تو خون کا ایک قطرہ رکھتا ہے اور اگر تو پروں کی مٹھی رکھتا ہے ہمت پرواز بھی ہے تو میرے پاس آ ۔ میں تجھے شاہبازی (دنیا پر حکمرانی کے اصول) سمجھا دوں گا ۔

 
اگر این کار را نفس دانی چہ دانی
دم شمشیر اندر سینہ باید نے نوازی را

مطلب:اور اگر تو اس کام زندگی گزارنا کو سانس کا کام سمجھتا ہے تو یہ تیری کیسی نادانی ہے بانسری بجانے کے لیے عام سانس کی نہیں تلوار کے دم طاقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس طرح بانسری بجانے کے لیے صرف سانس پھونکنا ہی کافی نہیں اس کے لیے سینے میں قوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی طرح عملی زندگی میں جان قربان کر دینے کی تمنا کرنا ہی کافی نہیں ۔

(۳۸)

 
علمے کہ تو آموزی مشتاق نگاہے نیست
واماندہ راہے ہست، آوارہ راہے نیست

مطلب: جو علم تو سیکھ رہا ہے وہ نگاہِ باطن کا شیدائی نہیں ۔ وہ راہ میں تھکن سے چور ہو کر بیٹھ جانے والا ہے راستہ طے نہیں کر سکتا ۔ اس علم میں خود کو یا خدا کو پہچاننے والی آنکھ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔

 
آدم کہ ضمیر او نقش دو جہان ریزد
با لذت آہے ہست، بے لذت آہے نیست

مطلب: وہ آدمی جس کا ضمیر دونوں جہانوں کا مصور ہے کا یہ عمل آہ لذت عشق کی بدولت ہے ۔ آہ کی لذت کے بغیر نہیں ۔

 
ہر چند کہ عشق او آوارہ راہے کرد
داغے کہ جگر سوزد در سینہ ماہے نیست

مطلب: مانا کہ اس کے محبوب کے عشق نے اسے راہوں میں بھٹکنا سکھا دیا ہے لیکن وہ داغ جو جگر کو جلا دے چاند کے سینے میں موجود نہیں ۔ اگرچہ چاند بھی فلک کی وسعتوں میں آوارہ پھرتا ہے لیکن اس کی یہ آوارگی منزل کی تمنا کے لیے نہیں ۔ یہ داغ آوارگی صرف انسان کو نصیب ہوا ہے) ۔

من چشم نہ بردارم از روئے نگارینش
آن مست تغافل را توفیق نگاہے نیست

مطلب: میں اپنے محبوب کے دلکش اور خوبصورت چہرے سے نظریں نہیں ہٹاتا ۔ لیکن اپنے حسن میں مگن اس محبوب کو ہم پر ایک نگاہ ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں ۔

 
اقبال قبا پوشد در کار جہان کوشد
دریاب کہ درویشی با دلق و کلاہے نیست

مطلب: اقبال چغہ پہن کر بھی دنیا کے کاموں میں مصروف رہتا ہے ۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ درویشی بوریا نشینی سے اور فقیری ٹوپی پہننے سے نہیں آتی ۔ درویشی لباس کی درستگی کا نام نہیں دل کی صفائی کا نام ہے ۔

(۳۹)

 
چو خورشید سحر پیدا نگاہے میتوان کردن
ہمیں خاک سیہ را جلوہ گاہے می توان کردن

مطلب: صبح کے سورج کی مانند نگاہِ حق شناس پیدا کی جا سکتی ہے اور اسی جسم خاکی کو محبوب کی جلوہ گاہ بنایا جا سکتا ہے ۔ نگاہِ حق شناس جب جسم خاکی میں پیدا ہو جائے تو اس کے نور سے دنیا کو بھی منور کیا جا سکتا ہے ۔

 
نگاہ خویش را از نوک سوزن تیز تر گردان
چو جوہر در دل آئینہ راہے می توان کردن

مطلب: اپنی نگاہ کو سوئی کی نوک سے زیادہ تیز بنا ۔ اور جوہر کی طرح آئینہ کے دل میں راہ پیدا کی جا سکتی ہے ۔ (جس طرح آئینہ اپنے جوہر کے باعث چمکتا ہے اسی طرح نگاہِ حق شناس کی تیز روشنی بھی دلوں کو منو رکر دیتی ہے) ۔

 
دریں گلشن کی بر مرغ چمن راہ فغان تنگ است
بانداز کشود غنچہ آہے می توان کردن

مطلب: اس چمن میں جہاں مرغانِ چمن پر آ ہ و زاری کی پابندی ہے اس انداز سے آہ و زاری کی جا سکتی ہے ۔ جس انداز سے کہ غنچہ آہ کھینچ کر پھول بن جاتا ہے ۔

 
نہ این عالم حجاب او را نہ آن عالم نقاب او را
اگر تاب نظر داری نگاہے می توان کردن

مطلب: وہ محبوب ایسا ہے کہ اس کی جلوہ گری ہر جگہ ہے نہ یہ دنیا اس کے لیے پردہ ہے اور نہ مستقبل کا جہاں اسے زیر نقاب رکھے گا ۔

 
تو در زیر درختان ہمچو طفلان آشیان بینی
بہ پرواز آ کہ صید مہر و ماہے می توان کردن

مطلب: تو ننھے بچوں کی طرح درختوں کے نیچے (کھڑا ہو کر پرندوں کا) گھونسلہ دیکھے جا رہا ہے ۔ اس سے کچھ فائدہ نہ ہو گا ۔ پرواز کی طاقت پیدا کر کہ چاند اور سورج کو بھی شکار کیا جا سکتا ہے ۔

(۴۰)

 
کشیدی بادہ ہا در صحبت بیگانہ پے در پے
بنور دیگران افروختی پیمانہ پے در پے

مطلب: تو نے اے مسلمان غیروں کی صحبت اختیار کر کے ان کے افکار و خیالات کی متواتر شراب پی ہے ۔ تو نے غیروں کے نور سے مسلسل اپنے دل کے پیالے کو روشن کیا ہے ۔ غیروں کے افکار چھوڑ کر اپنے دین کی طرف لوٹ جا ۔

 
ز دست ساقی خاور دو جام ارغوان در کش
کہ از خاک تو خیزد نالہ مستانہ پے در پے

مطلب:اور مشرق کے ساقی کے ہاتھوں شرابِ سرخ کے دو جام پی لے ۔ تا کہ تیرے جسم خاکی سے مستی سے بھرپور نالہ و شیون نکلتے ہیں ۔ شراب مغرب (افکار و خیالات) نے تجھے اپنے اسلاف کے بادہٌ علم و فن سے بیگانہ کر دیا ہے ۔ اپنے اسلاف کی شراب ارغوانی پینا شروع کر دے ۔ تیرے جسم خاکی میں کیف و سرور پیدا ہو جائے گا ۔

 
دلے کو از تب و تاب تمنا آشنا گردد
زند بر شعلہ خود را صورت پروانہ پے در پے

مطلب: وہ دل کو کہ آرزو کی حدت اور تڑپ سے آشنا ہو جاتا ہے وہ خود کو پروانے کی مانند شمع پر نثار کرتا رہتا ہے ۔

 
ز اشک صبحگاہی زندگی را برگ و ساز آور
شود کشت و ویران تا  نریزی دانہ پے در پے

مطلب: صبح کے وقت کہ آہ و زاری سے سامان زندگی پیدا کر ۔ تیری یہ کھیتی دل ویران ہو جائے گی ۔ اگر تو اس میں مسلسل دانہ نہ ڈالتا رہے گا ۔

 
بگردان جام و از ہنگامہ افرنگ کمتر گوے
ہزاران کاروان بگزشت ازیں ویرانہ پے در پے

مطلب: اے مسلمان اپنے پیالے کو گردش میں لا اور یورپ کے ہنگامہ (افکار و خیالات) ترک کر دے ۔ ان کے طرز عمل کی شکایت چھوڑ کر اپنے خیالات اپنا لے ۔ مغربی اثرات خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔ تجھے کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔ دنیا کے اس ویرانے سے ہزاروں قافلے یکے بعد دیگرے گزرے ہیں لیکن کسی کوبھی ثبات نہیں ۔ اس لیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ اہل یورپ بھی ایک دن نیست و نابود ہو جائیں گے ۔