جوے آب (پانی کی نہر)
بنگر کہ جوئے آب چہ مستانہ می رود مانند کہکشان بگریبان مرغزار
مطلب: دیکھ کہ ندی کیسی مستانہ چلی جارہی ہے ۔ جیسے سبزہ زار کی چھاتی پر کہکشاں بادلوں کے
در خواب ناز بود بہ گہوارہ سحاب وا کرد چشم شوق بآغوش کہسار
مطلب: پنگھوڑے میں میٹھی نیند سوئی ہوئی تھی ۔ اس نے کہسار کی آغوش میں اپنی چشم شوق کھولی ۔ نوٹ: علامہ اقبال نے حاشیہ میں خود تصریح فرمائی ہے یہ گوءٹے کی مشہور نظم موسوم بہ نغمہ محمد کا ایک آزاد ترجمہ ہے یہ نظم رموز و کنایات سے معمور ہے ۔ گوءٹے آنحضرت کی پیغمبرانہ شان سے اور اس کامیابی سے جو آپ کو اپنے مقصد میں حاصل ہوئی بہت متاثر تھا ۔
از سنگریزہ نغمہ کشاید خرام او سیماے او چو آئینہ بے رنگ و بے غبار
مطلب : اس کا بہاوَ سنگریزوں سے نغمے نکالتا ہے اس کی پیشانی آئینہ کی طرح بے رنگ اور بے غبار ہے ۔
زی بحر بیکرانہ چہ مستانہ میرود در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ میرود
مطلب: بے کنار سمندر کی طرف کیسی مستانہ چلی جا رہی ہے اپنے آپ میں ایک اور باقی سب سے بیگانہ چلی جا رہی ہے ۔
در راہ او بہار پریخانہ آفرید نرگس و دمید و لالہ و دمید و سمن دمید
مطلب: اس کے راستے میں بہار نے پری خانہ بنا دیا ۔ نرگس پھوٹی اور لالہ اگا اور چنبیلی کے پھول کھلے ۔
گل عشوہ داد و گفت یکے پیش ما بایست خندید غنچہ و سر دامان او کشید
مطلب: گلاب نے ناز و انداز سے کہا ہمارے پاس ٹھہر، کلی مسکرائی اور اس نے اس کے دامن کا کنارہ کھینچا ۔
نا آشناے جلوہ فروشان سبز پوش صحرا برید و سینہ کوہ و کمر درید
مطلب: مگر وہ ان سبز پوش جلوہ فروشوں سے الگ رہی ۔ وہ صحرا میں سے گزری اور کوہ و کمر کی چھاتی پھاڑ دی ۔
زی بحر بیکرانہ چہ مستانہ میرود در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ میرود
مطلب: بے کنار سمندر کی طرف کیسی مستانہ چلی جا رہی ہے اپنے آپ میں ایک اور باقی سب سے بیگانہ چلی جا رہی ہے(اپنے اندر یگانہ اور باقی سب سے بیگانہ) ۔
صد جوئے دشت و مرغ و کہستان و باغ و راغ گفتند اے بسیط زمین با تو سازگار
مطلب: صحرا اور ہریاول اور پہاڑ اور باغ اور سرسبز وادی کی ان گنت ندیاں بولیں اے تو کہ تیرے لیے زمین کی وسعتیں سازگار ہیں ۔
ما را کہ راہ از تنک آبی نہ بردہ ایم از دستبرد ریگ بیابان نگاہ دار
مطلب: ہم جو کم پانی کے سبب راستہ نہیں پا سکیں ۔ ہمیں ریگستان کی ریت کی تباہی سے بچا ۔
وا کردہ سینہ را بہ ہوا ہاے شرق و غرب در بر گرفتہ ہمسفران زبون و زار
مطلب: اس نے مشرق و مغرب کی ہواؤں کے لیے اپنا سینہ کشادہ کیے ہوئے گرے پڑے ہمسفروں کو آغوش میں لیے ہوئے
زی بحر بیکرانہ چہ مستانہ میرود با صد ہزار گوہر یک دانہ میرود
مطلب: بے کنار سمندر کی طرف کیسی مستانہ چلی جا رہی ہے ہزاروں بے مثال موتی لیے ہوئے رواں دواں ہے ۔
دریائے پر خروش ز بند و شکن گزشت از تنگناے وادی و کوہ و دمن گزشت
مطلب: (گویا) یہ ٹھاٹھیں مارتا دریا بندشوں اور رکاوٹوں سے گزر گیا ۔ وہ گھاٹی اور پہاڑ اور ٹیلوں سے تنگ راستوں سے نکل گیا ۔
یکساں چو سیل کردہ نشیب و فراز را از کاخ شاہ و بارہ و کشت و چمن گزشت
مطلب: اس نے سیلاب کی طرح بلندی اور پستی کو ایک سا (برابر) کر دیا ۔ یہ شاہوں کے محل اور قلعے اور کھیتی اور چمن پر سے (باسانی) گزر گیا ۔
بیتاب و تند و تیز و جگر سوز و بیقرار در ہر زماں بتازہ رسید از کہن گزشت
مطلب: بے چین اور بپھرا ہوا ، جگر سوز اور بےقرار ہر گھڑی نئے رنگ اختیار کرتا اور پرانا رنگ چھوڑتا ۔
زی بحر بیکرانہ چہ مستانہ میرود در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ میرود
مطلب: بے کنار سمندر کی طرف کیسی مستانہ چلی جا رہی ہے اپنے آپ میں ایک اور باقی سب سے بیگانہ چلی جا رہی ہے ۔