Please wait..

(۱۶)

 
فرشتہ گرچہ بروں از طلسم افلاک است
نگاہ او بتماشاے این کف خاک است

مطلب: فرشتہ اگرچہ (انسانوں کی طرح) آسمانوں کے جادو (قوانینِ فطرت) سے آزاد ہے اس کے باوجود اس کی نظر مٹھی بھر خاک کے پتلے پر ہے ۔ یعنی وہ انسان کی رفعت کی طرف دیکھتا ہے جو اسے عشق کے سوز و گداز کی بدولت حاصل ہے ۔

 
گمان مبر کہ بیک شیوہ عشق می بازند
قبا بدوش گل و لالہ بے جنوں چاک است

مطلب: اس خیال میں نہ رہ کہ بازی عشق ایک ہی طرز پر کھیلتے ہیں (عشق کی بازی محبوب کے ایک اشارے پر ہار جاتے ہیں ) کیا تو نہیں دیکھتا کہ گلاب اور گلِ لالہ کی قبائیں جنوں کے بغیر ہی چاک ہیں (وہ جنون عشق کے بغیر ہی بازی ہار گئے ہیں ) ۔

 
حدیث شوق ادا میتوان بخلوت دوست
بنالہ کہ ز آلائش نفس پاک است

مطلب: دوست سے گوشہ تنہائی میں قصہ شوق بیان کیا جا سکتا ہے (اس میں الفاظ کی ضرورت نہیں پڑتی) بلکہ اس آہ و فغاں کے ذریعے جو نفس کی آلائش سے پاک ہو ۔

 
توان گرفت ز چشم ستارہ مردم را
خرد بدست تو شاہین تند و چالاک است

مطلب: ستارے سے (عقل ) کے ذریعے اس کی پتلی کو چھینا جا سکتا ہے کیونکہ انسانی عقل ایک تیز اور ہوشیار شاہین کی مانند ہے ۔ (جس طرح شاہین فضا میں اڑتے ہوئے پرندوں کی آنکھیں نکال سکتا ہے اسی طرح انسان بھی اپنی عقل سے فطرت کے عناصر کو مسخر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے) ۔

 
کشاے چہرہ کہ آنکس کہ لن ترانی گفت
ہنوز منتظر جلوہ کف خاک است

مطلب: اے انسان اپنا چہرہ بے نقاب کر دے کہ جس ہستی (خدا) نے تیرے اس مطالبہ پر کہ (رب ارنی) اے رب مجھے اپنا دیدار کرا (لن ترانی) تو مجھے نہیں دیکھ سکتا کہا تھا ۔ وہ خود اس خاک کی تخلیق کے دیدار کی آرزو رکھتا ہے ۔

 
دریں چمن کہ سرود است و این نواز کجاست
کہ غنچہ سر بگریبان و گل غرقناک است

مطلب: اس چمن میں ایسا کون گا رہا ہے اور یہ نوا (فریاد) کہاں سے آ رہی ہے ۔ جسے سن کر غنچہ حالت تفکر اور پھول پسینہ پسینہ ہو جاتا ہے ۔ مطلب یہ کہ کائنات میں جو اشیاء بھی موجود ہیں ان میں وہی محبوب جلوہ گر ہے جس کا ہر کوئی تماشائی ہے ۔

(۱۷)

 
عرب کہ باز دہد محفل شبانہ کجاست
عجم کہ زندہ کند رود عاشقانہ کجاست

مطلب: وہ عرب جو رات کے وقت محفلیں سجاتے تھے اب کہاں ہیں ۔ وہ عجم جو عاشقانہ نغمے زندہ کرے وہ کہاں ہیں ۔ نہ تو اب عربوں میں ایمان کی حرارت باقی ہے اور نہ ہی عجمیوں میں ذوق نغمہ گری زندہ ہے ۔

 
بزیر خرقہ پیران سبوچہ خالی است
فغان کہ کس نشناسد مے جوانہ کجاست

مطلب: پیرانِ وقت کے لبادوں کے نیچے ان کی صراحیاں (شراب معرفت) سے خالی ہیں ۔ دہائی ہے کہ یہاں کوئی نہیں جانتا ہے کہ جو کی شراب کس کے پاس ہے ۔

 
دریں چمن کدہ ہر کس نشیمنے سازد
کسے کہ سازد و وا سوزد آشیانہ کجاست

مطلب: اس دنیا کے چمن میں ہر کوئی بڑے شوق سے اپنا آشیانہ تعمیر کرتا ہے لیکن ایسا شخص کہاں ملے گا جو آشیانہ بنا کر اسے جلا ڈالے (اللہ کی راہ میں اپنی متاع عزیز قربان کرنے والے بہت کم ہیں ) ۔

 
ہزار قافلہ بیگانہ وار دید و گزشت
ولے کہ دید بانداز محرمانہ کجاست

مطلب: دنیا میں ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک ہزاروں قافلے آئے انھوں نے اس دنیا کو اجنبیوں کی طرح دیکھا ۔ اور روانہ ہو گئے ۔ لیکن ایسا قافلہ کہاں ہے جس نے اس دنیا پر محرمانہ نظر ڈالی ہو (دنیا میں لوگ بلا مقصد زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں ۔ )

 
چو موج خیز و بہ یم جاودانہ می آویز
کرانہ می طلبی بے خبر کرانہ کجاست

مطلب: ایک لہر کی طرح اٹھ کر پھر سمندر کی آغوش میں گم ہو جا ۔ اے بے خبر! تو کنارے کا خواہش مند ہے لیکن کنارہ کہاں ہے (سمندر کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا ۔ حیاتِ جاوداں حاصل کرنے کے لیے موج کی طرف سمندر کا ایک حصہ بن جا ۔ )

 
بیا کہ در رگ تاک تو خون تازہ دوید
دگر مگوے کہ آن بادہ مغانہ کجاست

مطلب: (اے دوست) میری بزمِ معرفت میں آ کہ تیری انگور کی بیل میں نیا خون (افکار تازہ) دوڑنے لگے ۔ بعد میں یہ نہ کہنا کہ وہ مے فروش (معرفت کی شراب پلانے والا) کہاں گیا (خود شناس اور معرفتِ حسن کے شراب میری محفل کے سوا کہیں اور نہ ملے گی) ۔

 
بیک نورد فرو پیچ روزگاران را
ز دیر و زود گزشتی دگر زمانہ کجاست

مطلب: صرف ایک چھلانگ میں زمانے کی (مسافت) طے کر لے ۔ اس طرح جب تو دیر یا جلدی یعنی زمانہَ ظاہری کی تقسیم سے گزر جائے گا تو یہ زمانہ تیرے قبضہ و قدرت میں ہو گا ۔

(۱۸)

 
مانند صبا خیز و وزیدن دگر آموز
دامان گل و لالہ کشیدن دگر آموز
اندر دلک غنچہ خزیدن دگر آموز

مطلب: (اے مسلمان) تو صبح کی تازہ و نرم و لطیف ہوا کی طرح اٹھ اور چلنا سیکھ لے ۔ گلاب و لالہ کے پھولوں کو پھر کھلانا شروع کر دے (اپنے آپ کو بیدار کر اور دوسروں کو بھی بیداری کا پیغام دے) ۔ اپنے دل کے غنچے میں پھر سے زندگی کی خلش پیدا کرنا سیکھ لے ۔

 
موئینہ بہ بر کردی و بے ذوق تپیدی
آن گونہ تپیدی کہ بجاے نہ رسیدی
در انجمن شوق تپیدن دگر آموز

مطلب: تو نے موٹا لباس زیب تن کیا تا کہ تو صوفی کہلائے اور بے ذوق ہی تڑپتا رہا اورر اس طرح تڑپتا رہا کہ کوئی مقام بھی حاصل نہ کر سکا (کیونکہ تیری تڑپ میں بناوٹ تھی) اہل عشق کی محفل میں نئے انداز سے تڑپنا سیکھ ۔

 
کافر دل آوارہ دگر بارہ بہ او بند
بر خویش کشا دیدہ و از غیر فروبند
دیدن دگر آموز و ندیدن دگر آموز

مطلب: خدا کی معرفت سے نا آشنا اے انسان! تو اپنے دل کو دوبارہ اس (محبوب حقیقی) سے لگا لے ۔ اپنے آپ کا جائزہ لے کر اس کی معرفت حاصل کر اور غیروں کی طرف سے آنکھیں بند کر لے ۔ نئے انداز سے دیکھنے اور نہ دیکھنے کے طریقے سیکھ ۔

 
دم چیست پیام است، شنیدی نشنیدی
در خاک تو یک جلوہ عام است ندیدی
دیدن دگر آموز، شنیدن دگر آموز

مطلب: سانس کیا ہے (محبوب کا ) پیام ہے ۔ چاہے تو اسے سنا یا نہ سنااصل میں تیرے جسم میں (جلوہَ محبوب) تو عام ہے ۔ (اب یہ تیری نظروں کا کمال ہے) تو نے دیکھا یا نہ دیکھا (محبوب کے جلوے تو ہر سانس کے ساتھ تیرے جسم خاکی میں موجود ہیں ۔ انہیں دیکھنے کے لیے چشم بینا کی ضرورت ہے) ۔ اس لیے پھر سے دیکھنا اور پھر سے سننا سیکھ ۔

 
ما چشم عقاب و دل شہباز نداریم
چوں مرغ سرا لذت پرواز نداریم
اے مرغ سرا خیز و پریدن دگر آموز

مطلب: ہم (بے ہمت لوگ) عقاب کی آنکھ اور شبہاز کا دل نہیں رکھتے ۔ گھر کے (قیدی) پرندے کی طرح ہم لذت پرواز سے بھی محروم ہیں ( بے عمل ہو گئے ہیں ) ۔

 
تخت جم و دارا سر راہے نفروشند
این کوہ گران است بگاہے نفروشند
با خون دل خویش خریدن دگر آموز

مطلب: دارا اور جمشید کے تخت راہ چلتے یونہی فروخت نہیں ہوتے (تخت حکومت تگ و دو کے بغیر حاصل نہیں ہوتے) یہ بھاری پہاڑ ہیں جو تنکوں کے عوض نہیں بیچتے (ان کے حصول میں جان کی بازی لگانا پڑتی ہے) اپنے خون دل سے پھر سے خریدنے کا فن سیکھ ۔

 
نالیدی و تقدیر ہمان است کہ بود است
آن حلقہ زنجیر ہمان است کہ بود است
نومید مشو! نالہ کشیدن دگر آموز

مطلب: رونے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ اس سے تقدیر نہیں بدلتی ۔ تیری زنجیر کا حلقہ جس نے تجھے تقدیر کے قفس میں قید کر رکھا ہے وہی ہے جو پہلے سے موجود ہے ۔ اس لیے نا امید ہونے کی ضرورت نہیں ۔ نئے انداز سے نالہ و شیون کے انداز سیکھ لے ۔

 
وا سوختہ یک شرر از داغ جگر گیر
یک چند بخود پیچ و نیستان ہمہ در گیر
چوں شعلہ بخاشاک دویدن دگر آموز

مطلب: کیا تو جل کر راکھ ہو گیا ہے(بے عمل ہو گیا ہے)اگر ایسا ہے تو اپنے اس جلے ہوئے جگر سے ایک چنگاری لے ۔ اس چنگاری کو اپنے گرد لپیٹ کر پھیلا دے اور سرکنڈے کے سارے جنگل میں آگ لگا دے ۔ شعلہ کی طرح خشک گھاس پھونس میں دوڑنا پھر سے سیکھ ۔ (اب بھی تجھ میں عمل کی چنگاری موجود ہے ۔ اسے بروئے کار لا کر منزل مقصود حاصل کر لے) ۔

(۱۹)

 
اے غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگران خیز
کاشانہ مارفت بتاراج غمان خیز

مطلب: اے سوئے ہوئے نوخیز پھول، نرگس کی طرح آنکھیں کھولتے ہوئے اٹھ (جاگ) کیونکہ ہمارا گھر غموں (بے عملی) نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔

 
از نالہ مرغ چمن، از بانگ اذان خیز
از گرمی ہنگامہ آتش نفسان خیز
از خواب گران ، خواب گران ، خواب گران خیز

مطلب: (اپنی آنکھیں کھول) چاہے چمن کے پرندے کی فریاد سے یا اذان کی آواز سے جاگ ۔ اور چاہے آگ جیسی گرم سانسیں رکھنے والوں کی گرمی کے شور سے جاگ ۔ کچھ نہ کچھ عمل کرنے کے لیے اپنی آنکھیں کھول ۔ غفلت کی گہری نیند سے جاگ، گہری نیند، گہری نیند سے جاگ، گہری نیند سے جاگ ۔

 
خورشید کہ پیرایہ بسیماے سحر بست
آویزہ بگوش سحر از خون جگر بست

مطلب: سورج نے طلوع ہو کر اپنے ماتھے کو صبح کے زیور سے سجا لیا ہے ۔ اور اس نے صبح کے کانوں میں اپنے خونِ جگر کا بند لٹکا دیا ہے (صبح ہو گئی ہے) ۔

 
از دشت و جبل قافلہ ہا رخت سفر بست
اے چشم جہان بیں بہ تماشاے جہان خیز
از خواب گران ، خواب گران ، خواب گران خیز

مطلب: بیابان اور پہاڑوں سے کاروانوں نے سامان سفر باندھ لیا ہے (سفر کے لیے تیار ہیں ) دنیا کو دیکھنے والی اے آنکھ تو بھی دنیا کے تماشے کے لیے اٹھ (سرگرم عمل ہو جا) ۔ غفلت کی گہری نیند سے جاگ، گہری نیند، گہری نیند سے جاگ، گہری نیند سے جاگ ۔

 
خاور ہمہ مانند غبار سر راہے است
یک نالہ خاموش و اثر باختہ آہے است

مطلب: اہل مشرق سب کے سب راہ غبار (گرد) کی مانند ہیں ۔ پسماندہ ہیں وہ ایک خاموش فریاد اور بے اثر آہ کی مانند ہیں ۔

 
ہر ذرہ این خاک گرہ خوردہ نگاہے است
از ہند و سمر قند و عراق و ہمدان خیز
از خواب گران ، خواب گران ، خواب گران خیز

مطلب: اس اہل مشرق کی مٹی کا ہر ذرہ ایسی آنکھ کی طرح ہے جس پر گرہ باندھ دی گئی ہو(اور اہل مغرب کی مکاری سمجھنے سے قاصر ہے) ۔ اہل مشرق ہندوستان، سمرقند، عراق اور ہمدان جہاں بھی ہیں اپنے حقوق اور اپنی روایات کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔ غفلت کی گہری نیند سے جاگ، گہری نیند، گہری نیند سدے جاگ، گہری نیند سے جاگ ۔

 
دریاے تو دریاست کہ آسودہ چو صحرا است
دریاے تو دریاست کہ افزوں نشد و کاست

مطلب: اے مشرق کے باسی تیری زندگی کا دریا وہ دریا ہے جس میں صحراؤں کی خاموشی اور سکون پایا جاتا ہے (تجھ میں عمل کی کوئی تحریک نہیں ) تیرا دریا، وہ دریا ہے جس کے پانیوں میں اضافہ تو نہیں ہوا، کمی ضرور ہوئی ہے ۔

 
بیگانہ آشوب و نہنگ است چہ دریاست
از سینہ چاکش صفت موج روان خیز
از خواب گران ، خواب گران ، خواب گران خیز

مطلب: تیرا دریا، طوفان، تلاطم اور خطرناک مگر مچھوں سے بے خبر ہے (تیری زندگی عمل کے طوفان سے خالی ہو چکی ہے)اس کے باوجود دریا کے پھٹے ہوئے سینے میں بہتی ہوئی لہر کی مانند اٹھ (متحرک ہو جا) گہری نیند، گہری نیند ، گہری نیند سے جاگ، گہری نیند سے جاگ ۔ (اے گہری نیند کے مزے لوٹنے والے آنکھیں کھول عمل کا وقت آ پہنچا) ۔

 
این نکتہ کشائندہ اسرار نہان است
ملک است تن خاکی و دیں روح روان است

مطلب: یہ باریک بات پوشیدہ رازوں کو کھولنے والی ہے کہ ملک اگر مٹی کا جسم ہے تو دین اس کی روح رواں ہے (دین اس کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے زندہ رکھتا ہے) ۔

 
تن زندہ و جان زندہ ز ربط تن و جان است
با خرقہ و سجادہ و شمشیر و سنان خیز
از خواب گران ، خواب گران ، خواب گران خیز

مطلب: اگر جسم زندہ ہے اور روح بھی زندہ ہے تو پھر جسم اور روح میں تعلق قائم رہتا ہے جس طرح جسم کے بغیر روح اور روح کے بغیر جسم بے کار ہے ملک اور دین کا معاملہ بھی یہی ہے ۔ اس لیے دین کے نفاذ کے لیے خرقہ ، سجادہ اور شمشیر و سناں کے ساتھ کوشش کرنا ہو گی ۔ دینی اور روحانی ترقی کے لیے جہاں سادگی و فقر درکار ہیں وہاں کبھی کبھی تلوار کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیے گہری نیند ، گہری نیند، گہری نیند سے جاگ، گہری نیند سے جاگ، گہری نیند سے جاگ ۔

 
ناموس ازل را تو امینی تو امینی
داراے جہان را تو یساری تو یمینی

مطلب: اے مسلمان تو قانونِ فطرت کا امانتدار ہے تیرے پاس اللہ کی امانت (اس کا قانون ازل قرآن کی صورت میں موجود ہے) تو اس قانون فطرت کا دایاں بازو ہے ۔

 
اے بندہ خاکی تو زمانی و زمینی
صہباے یقیں در کش و از دیر گمان خیز
از خواب گران ، خواب گران ، خواب گران خیز

مطلب: تو اپنے اس امانت داری کے منصب کو بھول کر محض ایک خاکی جسم رہ گیا ہے ۔ اور زمان و مکان کی قید میں پھنس گیا ہے (اگر و اس قید سے رہائی حاصل کرنا چاہتا ہے تو یقین کی شراب پی لے اور وہم کے مندر کو خیر باد کہہ دے ۔ زندگی کی حقیقت تیرے ہاتھ آ جائے گی ۔ گہری نیند، گہری نیند، گہری نیند سے جاگ، گہری نیند سے جاگ

 
فریاد ز افرنگ و دل آویزی افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزی افرنگ

مطلب: یورپ سے اور اس کی دل لبھانے والی رنگین فضاؤں سے خدا بچائے ۔ یورپ کے شیریں (فرہاد کی محبوبہ) کے حسنِ جہاں سوز اور پرویز کی طرح کی مکارانہ چالوں سے بھی خدا محفوظ رکھے ۔ (اہل یورپ اپنی مکارانہ تہذیب و ثقافت اور دین فروش علوم و فنون کے ذریعے اہلِ اسلام کو اپنی ظاہری چمک میں پھنسا چکے ہیں ) ۔

 
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ
معمار حرم باز بہ تعمیر جہان خیز
از خواب گران ، خواب گران ، خواب گران خیز

مطلب: ساراجہاں فرنگیوں کی (فکری و سیاسی بورش) کی وجہ سے ویرانہ بن چکا ہے ۔ (چنگیز خان نے تو قتل عام کیا تھا اور شہر برباد کیے تھے) یورپ نے تو قلب و روح کی دنیا کو ویران کر دیا ہے ۔ ان کی تباہی و بربادی چنگیز خان کی بربریت سے کہیں بڑھ کر ہے (اے مسلمان) تو معمار حرم ہے اس لیے اب تیرے عمل کا وقت ہے ۔ تو اس جہان خراب کی از سر نو تعمیر کے لیے آگے بڑھ کیونکہ تیرے سوا جسم و روح کی تعمیر کوئی نہیں کر سکتا ۔ اس لیے گہری نیند، گہری نیند، گہری نیند سے جاگ، گہری نیند سے جاگ ۔

(۲۰)

 
جہان ما ہمہ خاک است و پے سپر گردد
ندانم این کہ نفسہاے رفتہ بر گردد

مطلب: ہماری دنیا جو کہ سب کی سب مٹی ہے اور یہ مٹی ایک دن بے سپر ہو جائے گی ۔ مجھے معلوم نہیں کہ جو سانسیں جا چکی ہیں وہ واپس آئیں گی یا نہیں (مرنے کے بعد کیا ہو گا، میں اس سے بے خبر ہوں ) ۔

 
شبے کہ گور غریبان نشیمن است او را
مہ و ستارہ ندارد چسان سحر گردد

مطلب: وہ رات کہ مرنے کے بعد دوسرے جہان کے مسافروں کی قبر اس کا ٹھکانہ ہے ۔ وہ رات نہ تو چاند رکھتی ہے اور نہ تارے ۔ نہ جانے اس کی صبح کیسی ہو گی(مرنے کے بعد حالات کیا ہونگے، خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا) ۔

 
دلے کہ تاب و تب لا یزال می طلبد
کرا خبر کہ شود برق یا شرر گردد

مطلب: وہ دل جو اس دنیا میں لافانی چاہت اور تڑپ کا طلبگار ہوتا ہے کسے معلوم کہ قبر میں جانے کے بعد وہ برق بن کر دوسروں میں زندگی کی تڑپ پیدا کرے گا یا چنگاری کی طرح بجھ جائے گا ۔

 
نگاہ شوق و خیال بلند و ذوق وجود
مترس ازیں کہ ہمہ خاک رہگزر گردد

مطلب: (ان تمام باتوں کے باوجود) اگر تو نگاہِ شوق رکھتا ہے ۔ تیرے خیالات بلند ہیں اور تجھ میں ذوقِ وجود بھی ہے تو اس بات سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ سب کچھ زندگی راستے کی گرد بن کر اڑ جائے گی (وہ مرنے کے بعد بھی فنا نہیں ہو گا) ۔

 
چنان بزی کہ اگر مرگ ماست مرگ دوام
خدا ز کردہ خود شرمسار تر گردد

مطلب: تو اس دنیا میں اس طرح زندگی گزار کہ اگر ہماری موت ہمیشہ کی موت ہے تو ہمارا تخلیق کار اپنے کئے پر زیادہ شرمندہ ہو ۔ (یعنی ایسے کام کر جن سے قادر مطلق تجھے اپنا خلیفہ بنانے پر فخر کرسکے ۔ اور ہمیشہ موت دینے پر شرمسار ہو کہ میں نے اس انسان کو ہمیشہ کی نیند کیوں سلا دیا) ۔