غزل نمبر۲۲
حسرت جلوہ آں ماہ تمامے دارم دست برسینہ، نظر بر لب بامے دارم
مطلب: میں اس ماہ کامل کے دیدار کی حسرت رکھتا ہوں ۔ ہاتھ سینے پر نظر چھت کی منڈیر پر رکھتا ہوں ۔
حسن می گفت کہ شامے نہ پذیرد سحرم عشق می گفت تب و تاب دوامے دارم
مطلب: حسن کہتا تھا کہ میری سحر شام قبول نہیں کرتی ( میں لازوال ہوں ) عشق کہتا تھا میری تب و تاب لایزال (دوائمی) ہے ۔
نہ بامروز اسیرم، نہ بفردا، نہ بہ دوش نہ نشیبے نہ فرازے نہ مقامے دارم
مطلب : میں نہ آج کا اسیر ہوں نہ کل کا نہ میں نشیب و فراز رکھتا ہوں نہ کوئی منزل ۔
بادہ ی رازم و پیمانہ گساری جویم در خرابات مغان گردش جامی دارم
مطلب: میں غیب کی شراب ہوں اور ہم پیالہ ڈھونڈتا ہوں ۔ میں مستوں کے حلقے میں پیالے کو گردش میں رکھتا ہوں ۔
بے نیازانہ ز شوریدہ نوایم مگزر مرغ لاہوتم و از دوست پیامے دارم
مطلب: میری مجذوب کی پکارر ان سنی کر کے مت گزر ۔ میں لاہوت کا پرندہ ہوں اور دوست کا پیغام لایا ہوں ۔
بردہ بر گیرم و در پردہ سخن میگویم تیغ خونریزم و خود رابہ نیامے دارم
مطلب: میں ان دیکھے کو دکھا دیتا ہوں مگر کلام چھپا کے کرتا ہوں میں خون بہانے والی تلوار ہوں لیکن خود کو نیام میں رکھتا ہوں ۔ (اگرچہ میں رموز قلندری فاش کر رہا ہوں لیکن میرا انداز بیان رمزیہ ہے یعنی میں ا ستعاروں میں گفتگو کرتا ہوں ) ۔