(۶۱)
ترا نادان امید غم گساریہا ز افرنگ است دل شاہیں نسوزد بہر آن مرغے کہ در چنگ است
مطلب: اے ناداں تو اپنے غموں کے علاج کی امید اہلِ یورپ سے رکھتا ہے ۔ شاہین کا دل اس پرندے کے لیے نہیں جلتا جو اس کے پنجے میں جکڑا ہوا ہو ۔ (جس طرح شکاری اپنے شکار پر رحم نہیں کھاتا اسی طرح اہلِ یورپ بھی اپنی سنگدلی کی بدولت محکوم اقوام پر رحم نہیں کھاتے ۔ اس لیے اہل یورپ سے محکوم لوگوں کو رحم کی امید نہیں رکھنی چاہیے) ۔
پشیمان شو اگر لعلے ز میراث پدر خواہی کجا عیش بروں آوردن لعلے کہ در سنگ است
مطلب: اگر تو اپنے باپ کی وراثت کا حقدار بننا چاہتا ہے تو محنت کر کیونکہ وہ مزا جو پتھر سے لعل نکالنے میں ہے وہ بغیر محنت کے حاصل ہونے والی چیز نہیں (آرام اور تن آسانی سے زندگی کا گوہرِ مقصود حاصل نہیں ہوتا) ۔
سخن از بود و نابود جہان با من چہ می گوئی من این دانم کہ من ہستم ندانم این چہ نیرنگ است
مطلب: تو مجھ سے جہاں کے ہونے یا نہ ہونے کی کیا بات کرتا ہے میں تو اتنا جانتا ہوں کہ میں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ یہ جہان موجود ہے کیا یہ تماشا ہے یا ہے بھی یا نہیں ۔ (مجھے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ) کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں ایک حقیقت ہوں اور جہاں محض ایک قیاس ہے) ۔
دریں میخانہ ہر مینا ز بیم محتسب لرزد مگر یک شیشہ عاشق کہ از وی لرزہ برسنگ است
مطلب: اس میخانہ (دنیا میں ) ہر صراحی احتساب کرنے والے کے خوف سے کانپتی ہے (کہ محتسب کو خبر ہونے پر وہ اسے توڑ نہ دے ) مگر ایک عاشق کا شیشہ ہے کہ اس سے پتھر بھی خوفزدہ ہے (ہر گناہ گار اپنے گناہوں کے احتساب سے خوفزدہ ہوتا ہے لیکن اللہ کے دوستوں کو کسی کا ڈر نہیں ہوتا) ۔
خودی را پردہ میگوئی بگو! من باتو این گویم مزن این پردہ را چاکے کہ دامان نگہ تنگ است
مطلب: تو اگر خودی کو پردہ کہتا ہے (تو شوق ہے) کہ ، لیکن میں تجھ سے یہ کہتا ہوں کہ اس پردے کو چاک کرنے کی کوشش نہ کر ۔ کیونکہ نگاہ اس تجلی کی تاب نہ لا سکے گی جو اس پردے کے پیچھے پنہاں ہے ۔
کہن شاخے کہ زیر سایہ او پر بر آوردی چو برگش ریخت ازوے آشیان برداشتن ننگ است
مطلب: درخت کی پرانی شاخ جس کے سائے میں تو نے اپنے بال و پر نکالے ہیں ۔ جب اس شاخ کے پتے جھڑ گئے ہیں تو اس سے گھونسلہ اٹھا لیا شرم کی بات ہے (عہدِ زوال میں پرانے ساتھیوں کو چھوڑ جانا مردانگی نہیں ) ۔
غزل آن گو کہ فطرت ساز خود را پردہ گرداند چہ آید زان غزل خوانے کہ با فطرت ہم آہنگ است
مطلب: اے شاعر غزل وہ کہہ کہ فطرت اسے اپنے ساز کا پردہ جانے (جسے سن کر فطرت کے نظام کار میں ہلچل مچ جائے) ایسی غزل کہنے سے کیا حاصل جو فطرت کے ہم آہنگ ہو ۔ جس سے تبدیلی ممکن نہ ہو ۔ غزل ایسی ہو جو معاشرے میں انقلابی تبدیلی لے آئے ۔
(۶۲)
بگزر از خاور و افسونی افرنگ مشو کہ نیززد بجوے این ہمہ دیرینہ و نو
مطلب: مشرق سے گزر جا (اہل مشرق کے افکار کا اثر قبول نہ کر) اور اہل یورپ کے جادو کی بھی پرواہ نہ کر (اہل یورپ کی تہذیب و عیار سے بھی دامن بچا) کیونکہ یہ دونوں پرانے اور نئے دو جو کی قیمت کے برابر بھی نہیں ہیں (اپنی تہذیب حجازی اپنا لے کیونکہ اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے) ۔
چوں پرکاہ کہ در رہگزر باد افتاد رفت اسکندر و دارا و قباد و خسرو
مطلب: راہ میں پڑے ہوئے گھاس کے بے کار تنکے کی مانند یونان کا سکندر، ایران کا درا ، قیقباد اور خسرو جیسے عظیم فرمانروا اڑ گئے ۔ (دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ نہیں رہا ۔ خواہ وہ کتنا ہی طاقتور تھا ۔ دنیا میں صرف ازلی و ابدی اصول ہی باقی رہیں گے) ۔
زندگی انجمن آرا و نگہدار خود است اے کہ در قافلہ بے ہمہ شوبا ہمہ رو
مطلب: زندگی انجمن آراستہ کرنے والی اور اپنی حفاظت خود کرنے والی ہے ۔ اے وہ شخص جو اس کاروان زندگی میں شامل ہے سب کارواں کے ساتھ چل، لیکن اپنی منفرد حیثیت بھی برقرار رکھ ۔
تو فروزندہ تر از مہر منیر آمدہ آنچنان زی کہ بہر ذرہ رسانی پرتو
مطلب: اے انسان تو روشن اور روشنی دینے والے سورج سے بھی زیادہ روشن ہے ۔ تو اس طرح زندگی بسر کر کہ تیری روشنی سے ہر ذرہ چمک اٹھے ۔
آن نگینے کہ تو با اہرمنان باختہ ہم بجبریل امینے نتوان کرد گرو
مطلب: اس نگیں (دل) کو جسے تو شیطانوں کے پاس ہار چکا ہے ۔ اسے تو جبریل امین کے پاس گروی بھی نہیں رکھا جا سکتا (تو نے اپنے دل کی قدر نہیں کی) ۔
از تنک جامی ما میکدہ رسوا گردید شیشہ گیرد حکیمانہ بیاشام و برو
مطلب: میرے پیالے کی تنگ دامنی سے شراب خانہ کی رسوائی ہو گئی ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ شاید شراب خانے ہی میں شراب کم ہو گئی ہے ۔ (حالانکہ شراب خانے میں تو شراب کی کمی نہ تھی میرا ہی ظرف تنگ تھا) ۔ اب بھی وقت ہے مٹکا اٹھا کر عقل مندوں کی طرح پی کر شراب خانے سے جا (کیونکہ شراب حقیقت تو میکشوں کے ظرف کے مطابق ہی پلائی جاتی ہے) ۔
(۶۳)
جہان رنگ و بو پیدا تومی گوئی کہ راز است این یکے خود را بتارش زن کہ تو مضراب و ساز است این
مطلب: یہ جہان جو رنگ اور خوشبووَں سے بھرپور ہے ۔ لیکن تو اس جہان رنگ و بو کو ایک راز کہتا ہے ایک دفعہ خود کو اس کے تاروں پر لگا تجھے معلوم ہو جائے گا کہ تو مضراب ہے اور یہ جہان ایک ساز ہے ۔ تیرے مضراب کے بغیر سازِ جہاں میں نغمگی پیدا نہیں ہو سکتی ۔
نگاہ جلوہ بدمست از صفاے جلوہ می لغزد تومی گوئی حجاب است این نقاب است این مجاز است این
مطلب: محبوب حقیقی کے جلووں میں پوری طرح مست رہنے والی نگاہ محبوب کے جلووں کی آب و تاب سے لغزش کھا جاتی ہے ۔ آنکھوں میں محبوب کے جلووں کی تاب نظارہ نہیں ۔ اس لیے تو یہ کہتا ہے کہ یہ نقاب ہے ، حجاب ہے، اور مجاز ہے (اگر تو خوب غور کرے تو آنکھوں کے سامنے حائل تمام پردے ہٹ جائیں گے) ۔
بیا در کش طنات پردہ ہاے نیلگونش را کہ مثل شعلہ عریان بر نگاہ پاکباز است این
مطلب: آ (اور اس دنیا کے آسمان پر پڑے ہوئے ) نیلے پردوں کی طنابیں کھینچ یہ جہان پاکیزہ نگاہوں پر شعلہ کی طرح ظاہر ہے ۔ (اللہ کے نیک بندوں پر اس جہان کی حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کیونکہ ان کی نگاہیں دنیا کی آلودگی سے پاک ہوتی ہیں ) ۔
مرا این خاکدان من ز فردوس بریں خوشتر مقام ذوق و شوق است این ، حریم سوز و ساز است
مطلب: میرا یہ جسم خاکی فردوس برین سے بڑھ کر ہے کیونکہ میرا یہ ذوق و شوق کا مقام اور سوز و ساز کا گھر ہے (جبکہ فردوس بریں ان تمام جذبات و احساسات سے بے خبر ہے) ۔
این زمانے گم کنم خود را، زمانے گم کنم او را زمانے ہر دو را یابم چہ راز است این چہ راز است این
مطلب: ایک وقت ایسا ہوتا ہے میں حالت عشق میں اپنے آپ کو گم کر لیتا ہوں ۔ اور کبھی یہ حالت ہوتی ہے کہ میں اسے یعنی خدا کو گم کر دیتا ہوں (حالت جذب میں چلا جاتا ہوں ) پھر ایک وقت آتا ہے کہ میں دونوں (خدا کو )اور (خود کو) پا لیتا ہوں ۔ یہ کیا راز ہے (یہ راز کوئی معرفت آشنا ہی بتا سکتا ہے جس نے میرے جذب و سلوک کی منازل طے کر رکھی ہوں ) ۔
(۶۴)
از داغ فراق او در دل چمنے دارم اے لالہ صحرائی باتو سخنے دارم
مطلب: محبوب کی جدائی کے زخموں سے دل کا چمن آباد ہے ۔ اے لالہ صحرائی میں تجھ سے بات کرنا چاہتا ہوں (تجھے اپنے دل کی بات بتانا چاہتا ہوں ) ۔
این آہ جگر سوزے در خلوت صحرا بہ لیکن چہ کنم کارے با انجمنے دارم
مطلب: جگر کو جلانے والی یہ آہ جو میں برسر بزم کھینچتا ہوں صحرا کی خلوت میں کھینچنی بہتر ہے ۔ لیکن کیا کروں میری مجبوری یہ ہے کہ انجمن دنیا سے تعلق رکھتا ہوں (عشق مجھے صحراؤں کی طرف لے جاتا ہے لیکن دنیا کے فراءض مجھے اپنی طرف کھینچتے ہیں ) ۔
(۶۵)
بہ نگاہ آشناے چو درون لالہ دیدم ہمہ ذوق و شوق دیدم ہمہ آہ و نالہ دیدم
مطلب: میں نے معرفت کی نگاہ سے لالہ کے پھول کے اندر دیکھا تو مجھے وہ تمام پھول ذوق و شوق سے لبریز اور آہ و نالہ دکھائی دیا ۔
بہ بلند و پست عالم تپش حیات پیدا چہ دمن چہ تل چہ صحرا رم این غزالہ دیدم
مطلب: اس جہان کی پستی اور بلندی میں زندگی کی حرارت عیاں ہو ہی ہے کیا وادی ، کیا ٹیلہ ، کیا صحرا میں اس ہرنی کو چوکڑیاں بھرتے دیکھا ہے ۔
نہ بہ ماست زندگانی نہ ز ماست زندگانی ہمہ جاست زندگانی ز کجاست زندگانی
مطلب: اس کے باوجود زندگی نہ ہمارے ساتھ ہے اور نہ یہ زندگی ہماری وجہ سے ہے ۔ ہمیں زندگی پر اختیار نہیں اور نہ ہی ہم اسے تخلیق کر سکتے ہیں ۔ زندگی ہر جگہ ہے لیکن یہ کہاں سے ہے کوئی نہیں جانتا