Please wait..

(۴۶)

 
ز رسم و راہ شریعت نکردہ ام تحقیق
جز اینکہ منکر عشق است کافر و زندیق

مطلب: میں نے اس بارے میں شریعت کی رو سے تحقیق نہیں کی ۔ سوائے اس کے کہ عشق سے انکار کرنے والا کافر اور آتش پرست ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ عشق کے بغیر مسلمان صحیح مسلمان نہیں بن سکتا ۔ صرف عقل پر بھروسہ کر کے سچائی کی پہچان ممکن نہیں ۔ عشق کے بغیر شریعت کی بہت سے باتیں ایک معمہ نظر آتی ہیں ۔

 
مقام آدم خاکی نہاد دریا بند
مسافران حرم را خدا دہد توفیق

مطلب: یہ خاک کے پتلے اگر اپنے مقام سے آگاہ ہو جائیں اور خدا مسافران حرم کو اپنا مقام پہچان لینے کی توفیق بھی عطا کر دے تو ان پر یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ ایک کعبہ ان کے اندر بھی موجود ہے جو ان کا دل ہے (اس دل کو پاکیزہ کرنے کی ضرورت ہے) ۔

 
من از طریق نہ پرسم، رفیق می جویم
کہ گفتہ اند نخستیں رفیق و باز طریق

مطلب:مجھے طریق راہ کی تلاش نہیں ، میں تو اپنا ہمسفر ڈھونڈ رہا ہوں ۔ کیونکہ دانش مندوں نے کیا خوب کہا ہے کہ پہلے ہمسفر اور پھر راستہ ۔ کیونکہ راستے کی مشکلات میں ایک سچا ہمسفر ہی کام آ سکتا ہے) ۔

 
کند تلافی ذوق آن چنان حکیم فرنگ
فروغ بادہ فزوں تر کند بجام عقیق

مطلب: (یورپ کے دانا نے دنیا کو ہر طرح سے گمراہ کیا ہے) اب وہ اس گناہ کی تلافی میں مصروف ہے ۔ اس طرح کی وہ عقیق کے پیالے میں شراب کے جوش اور دلکشی میں زیادہ اضافہ کر رہا ہے (اہلِ یورپ نے اپنی تہذیب کی تباہ کاریوں کو چھپانے کے لیے اس تہذیب میں اور زیادہ دلکشی اور چکاچوند پیدا کر دی ہے تا کہ لوگ اس روشنی میں چھپے اندھیرے کو نہ دیکھ سکیں ۔

 
ہزار بار نکو تر متاع بے بصری
ز دانشے کہ دل او را نمی کند تصدیق

مطلب: ایسی جہالت کی دولت ہزارہا درجے بہتر ہے اس دانش سے جس کی دل تصدیق نہ کرتا ہو ۔

 
بہ پیچ و تاب خرد گرچہ لذت دگر است
یقین سادہ دلان بہ ز نکتہ ہائے دقیق

مطلب: اگر عقل کی بھول بھلیوں میں ایک قسم کا مزا بھی ہے لیکن سادہ دل لوگوں کا ایمان مشکل نکتوں اور رمز کی باتوں سے بہتر ہے ۔

 
کلام و فلسفہ از لوح دل فروشستم
ضمیر خویش کشادم بہ نشتر تحقیق

مطلب: میں نے کلام اور فلسفہ کے حروف دل کی تختی سے دھو ڈالے ہیں اور اپنے ضمیر کو تحقیق کے نشتروں سے کھول دیا ہے ۔ تا کہ میں حقیقت کی منزل پا لوں ۔

 
ز آستانہ سلطان کنارہ می گیرم
نہ کافرم کہ پرستم خداے بے توفیق

مطلب: میں بادشاہ کے آستانہ سے الگ یا دور ہو گیا ہوں ۔ میں کافر نہیں ہوں کہ بے اختیار و بے طاقت خدا کی پوجا کرتا رہوں ۔

(۴۷)

 
از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب
ہم ز خدا خودی طلب ہم ز خودی خدا طلب

مطلب: ہر کسی کی دوستی سے علیحدگی اختیار کر لے اور صرف آشنائے خدا کی صحبت اختیار کر ۔ کیونکہ اس کے سوا تیرا کوئی دوست نہیں ہو سکتا ۔ خدا سے خودی طلب کر اور خودی کے ذریعے خدا طلب کر ۔

 
از خلش کرشمہ کار نمی شود تمام
عقل و دل و نگاہ را جلوہ جدا جدا طلب

مطلب: صرف ابرو اور آنکھوں کے اشارے کوئی کرشمہ نہیں دکھاتے ۔ عقل، دل اور نگاہ کے لیے علیحدہ علیحدہ جلوے طلب کر ۔

 
عشق بسر کشیدن است شیشہ کائنات را
جام جہان نما مجو دست جہان کشا طلب

مطلب: عشق کائنات کی صراحی پی جانے کا نام ہے (پوری کائنات زیر کر لینے کا مسلک ہے) جام جہاں نما تلاش نہ کر بلکہ جہاں کو فتح کرنے والا ہاتھ طلب کر ۔

 
راہ روان برہنہ پا راہ تمام خار زار
تا بہ مقام خود رسی راحلہ از رضا طلب

مطلب: مسافروں کے پاؤں ننگے ہیں اور راستہ پر خار ہے ۔ اپنے مقام پر بخیر و عافیت پہنچنے کے لیے خدا کی تسلیم و رضا کی سواری طلب کر ۔

 
چوں بہ کمال می رسد فقر دلیل خسروی است
مسند کیقباد را در تہ بوریا طلب

مطلب: جب فقر اوج کمال تک پہنچ جاتا ہے وہ شہنشاہی کے لیے راہنما بن جاتا ہے ۔ اس لیے ایران کے مشہور بادشاہ قیقباد کا تخت فقر کے بوریے کے نیچے طلب کر ۔ وہ شہنشاہی طلب کر جو فقیری میں حاصل ہوتی ہے ۔

 
پیش نگر کہ زندگی راہ بعالمے برد
از سر آنچہ بود و رفت در گزر ، انتہا طلب

مطلب: آگے غور کر کہ زندگی کسی عالم کی طرف رواں دواں ہے جو کچھ ہو چکا ہے اس کا خیال ترک کر دے اور تیری جو انتہا ہے اسے طلب کر ۔

 
ضربت روزگار اگر نالہ چو نے دہد تو را
بادہ من ز کف بنہ، چارہ ز مومیا طلب

مطلب: اگر زمانے کے آلام و مصائب تجھ میں بانسری کی طرح فریاد پیدا کر رہے ہیں تو میری شراب کے پیالے کو ہاتھ سے گرا دے اور مومیا سے علاج طلب کر ۔ (تیرے آلام و مصائب کا حل قرآن مجید میں موجود ہے ، مومیا سے مراد قرآن مجید ہے) ۔

(۴۸)

 
بینی جہان را خود را نہ بینی
تا چند نادان غافل نشینی

مطلب: تو دنیا کی طرف دیکھتا ہے لیکن اپنی معرفت حاصل نہیں کرتا ۔ اے نادان تو اپنی پہچان سے کب تک غفلت برتتا رہے گا ۔

 
نور قدیمی شب را بر افروز
دست کلیمی در آستینی

مطلب: اے انسان تو ایک قدیم نور ہے ۔ اس نور سے اپنی زندگی کی رات روشن کر ۔ تو اصل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا روشن ہاتھ ہے لیکن یہ ابھی تیری آستین میں پوشیدہ ہے (اپنی حقیقت کی پہچان کر پھر تجھے معلوم ہو جائے گا کہ تو اصل میں کیا ہے) ۔

 
بیروں قدم نہ از دور آفاق
تو پیش ازینی تو بیش ازینی

مطلب: کائنات کے دائرے سے باہر قدم رکھ تیری تخلیق اس کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے کی ہے ۔ تو اس کائنات سے زیادہ وسیع ہے ۔

 
از مرگ ترسی اے زندہ جاوید
مرگ است صیدے تو در کمینی

مطلب : اے حیات جاوداں پانے والے! تو موت سے ڈرتا ہےموت تو تیرا شکار ہے اور تو اس کی گھات میں ہے (اگر تو اپنی پہچان کر لے تو پھر تجھے موت کا کوئی ڈر نہیں ہو گا) ۔

 
جانے کہ بخشد دیگر نگیرند
آدم بمیرد از بے یقینی

مطلب: خدا جو زندگی آدمی کو عطا کر دیتا ہے وہ واپس نہیں لیتا ۔ کیونکہ دیا ہو تحفہ کوئی واپس نہیں لیتا ۔ آدمی اگر مرتا ہے تو بے یقینی کے باعث مرتا ہے ۔

 
صورت گری را از من بیاموز
شاید کہ خود را باز آفرینی

مطلب: صورتیں بنانے کا فن اگر سیکھنا چاہتا ہے تو میری شاگردی اختیار کر ۔ شاید کہ تو اس قابل ہو جائے کہ خود کو ایک نئی صورت میں دوبارہ پیدا کر لے ۔ اس پیدائش کا تعلق معرفت کی پہچان سے ہے ۔

(۴۹)

 
من ہیچ نمی ترسم از حادثہ شب ہا
شب ہا کہ سحر گردد از گردش کوکب ہا

مطلب: میں راتوں کو رونما ہونے والے حادثات سے نہیں ڈرتا، کیونکہ راتیں آخر کار ستاروں کی گردش کے باعث صبح کے اجالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔

 
نشناخت مقام خویش، افتادہ بدام خویش
عشقے کہ نمودے خواست از شورش یارب ہا

مطلب: اس نے اپنا مقام نہیں پہچانا ۔ وہ اپنے جال میں خود ہی گرفتار ہو گیا ۔ وہ عشق کہ جس نے مصائب کے باعث یارب یارب کا شور مچا رکھا ہے ۔ وہ عشق ناکام ہے جس میں مصائب برداشت کرنے کی ہمت نہیں ) ۔

 
آہے کہ ز دل خیزد از بہر جگر سوزی است
در سینہ شکن او را آلودہ مکن لب ہا

مطلب: جو آہ و فغاں تیرے دل سے نکلتی ہے جگر سوزی کے لیے ہے ۔ اس لیے اسے سینہ ہی میں جذب رہنے دے ۔ اپنے ہونٹوں کو اس سے آلودہ مت کر ۔

 
در میکدہ باقی نیست از ساقی فطرت خواہ
آن مے کہ نمی گنجد در شیشہ مشرب ہا

مطلب : وہ شراب کہ جو مذہب کے مختلف طریقوں کی صراحیوں میں نہیں سماتی اس میکدہ خالی ہو چکا ہے ۔ وہ شراب عشق تجھے خانقاہوں اور مساجد میں نہیں ملے گی ۔ ساقی فطرت خدا سے طلب کر ۔ اسی سے تیری تشنگی دور ہوگی ۔

 
آسودہ نمی گردد آن دل کہ گسست از دوست
با قراَت مسجد ہا با دانش مکتب ہا

مطلب: وہ دل جو دوست محبوب سے جدا ہو گیا ہے اسے مسجدوں میں قرآن کی قراَت یا مدرسہ کی حکمت و دانش سے قرار نہیں ملتا ۔

(۵۰)

تو کیستی ز کجائی کہ آسمان کبود
ہزار چشم براہ تو از ستارہ کشود

مطلب: تو کون ہےتو کہاں سے آیا ہےکہ نیلے آسمان نے تیرے استقبال میں تیری راہ میں ستاروں کی ہزاروں آنکھیں کھول رکھی ہیں (تیری عظمت و نشان یہ ہے کہ ساری کائنات تیرے جلووں کی منتظر ہے) ۔

 
چہ گوئمت کہ چہ بودی چہ کردہ چہ شدی
کہ خوں کند جگرم را ایازی محمود

مطلب: میں کیا کہوں کہ تو کیا تھا ۔ تو نے کیا کیا اور تو کیا تھا اور کیا ہو گیاکہ محمود کی ایازی (اپنے محمود ایاز کی غلامی میرے جگر کا خون کر رہی ہے ( تو نے اپنے اعلیٰ منصب کو چھوڑ کر نفس دنیا کی غلامی اختیار کر لی ہے ۔

 
تو آن نہ کہ مصلےٰ از کہکشان میکرد
شراب صوفی و شاعر تر از خویش ربود

مطلب: تو وہی تو نہیں جس کے کہکشاں کو اپنا مصلیٰ بنایا تھا ۔ جاہل صوفیوں اور بے مقصد شاعری کی شراب نے تجھے اپنی معرفت سے بیگانہ کر دیا ہے ۔ کہکشاں پر مصلیٰ بچھانے سے مراد کائنات پر حکمرانی ہے ۔

 
فرنگ اگرچہ ز افکار تو گرہ بکشاد
بجرعہ دگرے نشہ ترا افزود

مطلب: یہ صحیح ہے کہ یورپ نے تیرے افکار کی گرہیں کھول کر اسے جدید علوم سے روشناس کیا ہے ۔ لیکن اس کا شراب کا ایک دوسرا گھونٹ (ملحدانہ افکار) پلا کر تیرے نشہ کو بڑھا کر تجھے مدہوش کر دیا ہے ۔

سخن ز نامہ و میزان دراز تر گفتی
بحیرتم کہ نہ بینی قیامت موجود

مطلب: تو نے روزِ محشر نامہ اعمال اور انہیں تولنے کے ترازو کی بات تو بڑی طویل کی ہے ۔ مجھے حیرت ہے کہ تو اس قیامت کو نہیں دیکھ رہا جو تیرے سامنے موجود ہے ۔

 
خوشا کسے کہ حرم را درون سینہ شناخت
دمے تپید و گزشت از مقام گفت و شنود

مطلب: خوش قسمت ہے وہ شخص جس نے اپنے سینے کے اندر حرم کو پہچان لیا (حرم سے مراد دل ہے جہاں خدا کا گھر ہے ) وہ دل تھوڑی دیر کے لیے تڑپا اور حقیقت پا لینے کے بعد گفت و شنید کی منزل سے گزر گیا ۔ (جسے معرفتِ حق مل گئی اس نے خاموشی اختیار کر لی) ۔

 
از ان بمکتب و میخانہ اعتبارم نیست
کہ سجدہ نبرم بر در جبیں فرسود

مطلب: مدرسے اور مے خانے پر میں اس لیے اعتبار نہیں کرتا کہ آج کل کے مدرسے اور مے خانے (خانقاہوں ) کے علماء اور صوفیا لوگوں کو اللہ کے سامنے جھکانے کے بجائے اپنے سامنے جھکنے کا درس دیتے ہیں ۔ اور میں اسی لیے اس دروازے پر سجدہ نہیں کرتا جس پر کہ ماتھے گھسے ہوئے ہیں (ان مدرسوں اور خانقاہوں کے افکار فرسودہ ہو چکے ہیں ) ۔