Please wait..

غزل نمبر۹

 
صورت نہ پرستم من، بتخانہ شکستم من
آن سیل سبک سیرم، ہر بند گسستم من

مطلب: میں صورت کا پجاری نہیں ہوں میں نے مندر ڈھا دیا ہے ۔ میں وہ تیز رو سیلاب ہوں جس نے سارے بند توڑ دیے ہیں ۔

 
در بود نبود من اندیشہ گمان ہا داشت
از عشق ہویدا شد ایں نکتہ کہ ہستم من

مطلب: میرے ہونے اور نہ ہونے میں عقل طرح طرح کے گمان میں تھی یہ راز عشق سے کھلا (عشق سے یہ نکتہ ظاہر ہوا) کہ میں موجود ہوں ۔

 
در دیر نیاز من در کعبہ نماز من
زنار بدوشم من تسبیح بدستم من

مطلب: میں مندر میں پجاری، میں ہی کعبے میں نمازی میرے کندھے پر زنار میرے ہاتھ میں تسبیح (عاشق ہر شے اور ہر مقام میں خواہ دیر ہو یا حرم ، خدا ہی کا جلوہ دیکھتا ہے اس کی نظر میں زنار اور تسبیح دونوں یکساں ہو جاتے ہیں ) ۔

 
سرمایہ ی درد تو غارت نتواں کردن
اشکی کہ ز دل خیزد، در دیدہ شکستم من

مطلب: تیرے درد کی پونجی غارت نہیں کی جا سکتی دل سے جو آنسو امڈ کے آتا ہے میں اسے آنکھوں سے دھر لیتا ہوں ۔

 
فرزانہ بگفتارم، دیوانہ بہ کردارم
از بادہ ی شوق تو ہشیارم و مستم من

مطلب: قول میں دانا ہوں عقل میں دیوانہ ہوں تیری چاہت کی شراب سے میں ہوشیار بھی ہوں اور مست بھی (تیری محبت نے میرے اندر دو متضاد کیفیتیں پیدا کر دی ہیں ۔ فرزانہ (ہوشیار) بھی ہوں اور دیوانہ (مست) بھی ہوں ۔