غزل نمبر۳۰
گریہ ما بے اثر، نالہ ما نارساست حاصل این سوز و ساز یک دل خونیں نواست
مطلب: ہمارا رونا بے اثر ہے ہماری فریاد نارسا ہے ۔ اس جلنے کرھنے کا پھل خون میں گندھی ہوئی پکار والا ایک دل ہے ۔
در طلبش دل تپید، دیر و حرم آفرید ما بہ تمنائے او، او بہ تماشائے ماست
مطلب: دل اس کی طلب میں تڑپا تو مندر اور کعبہ بنا لیے ۔ ہم اس کی تمنا میں کھوئے ہوئے ہیں وہ ہمارا تماشا کر رہا ہے ( جس طرح ہم اس سے ملنے کے آرزو مند ہیں وہ بھی تو ہم سے ملنے کا مشتاق ہے) ۔
پردگیان بے حجاب ، من بہ خودی در شدم عشق غیورم نگر، میل تماشا کراست
مطلب: وہ جو پردے میں تھے وہ بے حجاب ہیں اور میں اپنی خودی میں مستور ہو چکا ہوں ۔ اے میرے آن والے عشق دیکھ، دیدار کی چاہ کیسی ہے۔
مطرب مے خانہ دوش نکتہ دلکش سرود بادہ چشیدن خطاست، بادہ کشیدن رواست
مطلب : میخانے کے مطرب نے کل رات عجیب دل کھینچنے والی بات سنائی کہ شراب چکھنا حرام ہے، شراب کشید کرنا حلال ہے ۔
زندگی رہروان در تگ و تاز است و بس قافلہ موج را جادہ و منزل کجاست
مطلب: مسافروں کی زندگی صرف لگاتار بھاگ دوڑ میں ہے اور بس ۔ جیسے لہروں کے قافلے کا کوئی راستہ ہے اور نہ کوئی منزل (کبھی قرار نصیب نہیں ) ۔
شعلہ در گیر زد بر خس و خاشاک من مرشد رومی کہ گفت منزل ما کبریاست
مطلب: میرے خس و خاشاک پر ایک بھڑکتا ہوا شعلہ پھینکا مرشد رومی نے جو یہ کہا ہماری منزل خدا ہے (یعنی مرشد رومی نے میرے اندر عشق الہٰی کی آگ بھڑکا دی) ۔