(۵۱)
دیار شوق کہ درد آشناست خاک آنجا بذرہ ذرہ توان دید جان پاک آنجا
مطلب: شہرِ عشق میں کہ جہاں کی مٹی درد آشنا ہے اس کے ذرے ذرے میں پاک جان انوار الہٰی کو دیکھا جا سکتا ہے (عاشق کے رگ و پے میں سوزِ عشق پایا جاتا ہے) ۔
مے مغانہ ز مغ زادگان نمی گیرند نگاہ می شکند شیشہ ہاے تاک آنجا
مطلب: شراب کشید کرنے والوں کی شراب ان کے بچوں سے نہیں لیا کرتے ۔ وہاں تو انگور کی بیل کی شراب سے بھری صراحیوں کو نگاہ توڑ دیتی ہے ۔ یعنی یہاں نگاہوں سے شراب پی جاتی ہے (عشق آشنا لوگ جام و مینا کے محتاج نہیں ہوتے وہ شرابِ عشق نگاہوں سے پیتے اور پلاتے ہیں ) ۔
بہ ضبط جوش جنوں کوش در مقام نیاز بہوش باش و مرو با قباے چاک آنجا
مطلب: محبوب کا آستانہ ادب کی جگہ ہے ۔ وہاں جا کر اپنے جنونِ عشق کی جوش کو قابو میں رکھنا اور کہیں بے خبری اور مدہوشی میں ایسی بات منہ سے نہ نکالنا کی محبوب خفا ہو جائے ۔ اس کے آستانے پر جنون کو قابو میں رکھ اور پھٹے ہوئے گریبان یا لباس کے ساتھ وہاں مت جانا ۔
(۵۲)
مئے دیرینہ و معشوق جوان چیزے نیست پیش صاحب نظران حور و جنان چیزے نیست
مطلب: پرانی شراب جس میں نشہ زیادہ ہوتا ہے اور جوان معشوق اہل نظر کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے (اللہ کے ولیوں کی نظر میں حور اور جنت کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ ان باتوں سے بے نیاز ہوتے ہیں ) ۔
ہر چہ از محکم و پائندہ شناسی، گزرد کوہ و صحرا و بر و بحر و کران چیزے نیست
مطلب: جس شے کو تو مضبوط ، پائیدار اور لافانی خیال کرتا ہے وہ بالاخر فنا ہو جاتی ہے ۔ اس لیے پہاڑ، صحرا، سمندر اور ساحل کی کوئی حیثیت نہیں ۔ تمام اشیاء فنا ہو جائیں گی ۔ قائم رہنے والی ذات صرف خالق کائنات ہے ۔
دانش مغربیان ، فلسفہ مشرقیان ہمہ بتخانہ و در طوف بتان چیزے نیست
مطلب: یورپ کی دانش (علم و حکمت ) اور اہل مشرق کا فلسفہ دونوں ہی بت خانہ ہیں اور بتوں کے طواف سے کوئی فائدہ نہیں ۔ (یورپ کے افکار و خیالات اور سائنسی معلومات سے انسان کائنات شناس تو ہو جاتا ہے لیکن خود شناس اور خدا شناس نہیں ہوتا ۔ خود شناسی کے لیے جذبہَ عشق کی ضرورت ہے) ۔
از خود اندیش و ازیں بادیہ ترسان مگزر کہ تو ہستی و وجود دو جہان چیزے نیست
مطلب: اپنے آپ پر غور کر اور اس زندگی کے بیاباں سے خوفزدہ ہو کر مت گزر ۔ کیونکہ تیری ہستی کی بدولت ہی دو جہاں کا وجود ہے ۔ تو کائنات کے لیے نہیں بلکہ کائنات تیرے لیے ہے ۔
در طریقے کہ بنوک مژہ کاویدم من منزل و قافلہ و ریگ روان چیزے نیست
مطلب: اس راہِ عشق میں جو میں نے اپنی پلکوں کی نوک سے بنایا ہے ۔ منزل ، قافلہ اور اڑتی ہوئی ریت کی کوئی حیثیت نہیں ۔ وصلِ محبوب کے لیے عاشق جو راستہ بتاتا ہے وہ آسانی سے نہیں بنتا ۔ اس کے لیے پلکوں کی نوک سے راستہ کھودنا پڑتا ہے ۔ حد سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے) ۔
(۵۳)
قلندران کہ بہ تسخیر آب و گل کوشند ز شاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند
مطلب: قلندر جو کہ اپنے خاکی جسم اور مادی جہان کی تسخیر میں مصروف رہتے ہیں وہ اگرچہ بوریا نشین ہوتے ہیں پھر بھی بادشاہوں سے خراج وصول کرتے ہیں ۔ بادشاہوں کے تخت ان کے خوف سے کانپتے ہیں ۔
بجلوت اند کمندے بہ مہر و ماہ پیچند بخلوت اند و زمان و مکان در آغوشند
مطلب: جب وہ قلندر بزم آرا ہوتے ہیں تو چاند اور سورج پر کمند پھینکتے ہیں (عوام الناس کے کام سنوارتے ہیں ) اور جب بزم تنہائی سجاتے ہیں تو زمان و مکان ان کی آغوش میں ہوتے (وہ خدا کی محبت میں غرق ہو جاتے ہیں ) ۔
بروز بزم سراپا چو پرنیان و حریر بروز رزم خود آگاہ و تن فراموشند
مطلب: جس دن وہ بزم آراء ہوتے ہیں تو وہ حریر وپرنیاں جیسے ریشمی کپڑوں کی مانند نرم و گداز ہوتے ہیں (ہر دوست اور دشمن سے یکساں سلوک کرتے ہیں ) لیکن جب وہ میدان جنگ میں ہوتے ہیں وہ خود فراموشی کے عالم میں راہ ِ خدا میں اپنی جان قربان کر دیتے ہیں (آرزوئے شہادت میں وہ خود کو فراموش کر دیتے ہیں ) ۔
نظام تازہ بچرخ دو رنگ می بخشند ستارہ ہاے کہن را جنازہ بردوشند
مطلب: قلندر دو رنگی گردش کرنے والے آسمان (جس سے دنیا میں انقلابات اور انسانی زندگی میں تغیرات آتے ہیں ) کو ایک نیا نظام دیتے ہیں ۔ اور یہ لوگ پرانے ستاروں کے جنازے کندھوں پر اٹھائے ہوئے رہتے ہیں ۔
زمانہ از رخ فردا کشود بند نقاب معاشران ہمہ سر مست بادہ دوشند
مطلب: زمانے کی جدید ایجادات نے مستقبل کے چہرے سے پردہ ہٹا دیا ہے ۔ ترقی کے نئے راستے کھل رہے ہیں لیکن میرے ساتھ امت مسلمہ کے سب لوگ پرانی شراب میں مست و بے خود ہیں ۔
بلب رسید مرا آن سخن کہ نتوان گفت بحیرتم کہ فقیہان شہر خاموشند
مطلب: میرے ہونٹوں تک وہ بات آ ہی گئی جو کہ نہیں کہی جا سکتی ۔ مجھے حیرت ہے کہ شہر کے علماء خاموش ہیں ۔ ( میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس دور کے علماء کس حال میں ہیں انہیں کیا ہو گیا ہے ۔ وہ قوم کو خوابِ غفلت سے جگانے کا فریضہ انجام کیوں نہیں دیتے)
(۵۴)
دو دستہ تیغم و گردوں برہنہ ساخت مرا فسان کشیدہ و بروے زمانہ آخت مرا
مطلب: میں دونوں ہاتھوں سے چلانے والی تلوار ہوں اور آسمان نے مجھے بے نیام کر دیا (قدرت نے باطل کا مقابلہ کرنے کے لیے بے نیام کیا ہے) اور مجھے سان پر چڑھا کر زمانے پر چلا دیا ۔
من آن جہان خیالم کہ فطرت ازلی جہان بلبل و گل را شکست و ساخت مرا
مطلب: میں وہ خیالوں کا جہان ہوں کہ فطرت ازلی نے بلبل اور گل کا جہان توڑ کر مجھے تخلیق کیا (مجھ سے نرمی و نزاکت نکل کر مجھے تیز دھار تلوار بنا دیا ہے) ۔
مئے جوان کہ بہ پیمانہ تو می ریزم ز رواقی است کہ جام و سبو گداخت مرا
مطلب: وہ جوان شراب جو میں تیرے پیالے میں انڈیل رہا ہوں اس شراب کے مٹکے سے ہے جس کی شراب نے میرے لیے پیالے اور مٹکے دونوں کو پگھلا دیا ہے ۔ یہ وہ شراب ہے جو دل عاشق گداز کر دیتی ہے ۔
نفس بہ سینہ گدازم کہ طائر حرمم توان ز گرمی آواز من شناخت مرا
مطلب: میں اپنے سانس کو اپنے سینے میں گداز کر رہا ہوں (ضبطِ نفس سے کام لے رہا ہوں )کیونکہ میں حرم کا پرندہ ہوں ۔ اور مجھے میری آواز کی گرمی کے ذریعے پہچانا جا سکتا ہے ۔
شکست کشتی ادراک مرشدان کہن خوشا کسے کہ بدریا سفینہ ساخت مرا
مطلب: قدیم علما کی عقل و خردکی کشتی ٹوٹ گئی ہے ۔ خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس نے اس دریائے حیات میں مجھے اپنی کشتی بنایا ۔ (میرے خیالات و افکار سے استفادہ کیا) ۔
(۵۵)
مثل شرر ذرہ را تن بہ تپیدن دہم تن بہ تپیدن دہم، بال پریدن دہم
مطلب: میں ذرے کو چنگاری کی طرح تن گرم کرنے کا طریقہ دیتا ہوں ۔ اور اس بہانے میں دراصل اسے اڑنے والے پر عطا کرتا ہوں ۔ میرے کلام میں بے سوز شخص میں گرمیَ عشق پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور گرمیَ عشق اسے آسمان کی بلندیوں کی طرف جا نے کے طریقے بتاتی ہے ۔
سوز نوایم نگر ریزہ الماس را قطرہ شبنم کنم خوے چکیدن دہم
مطلب: میری نوا میں ایسا سوز ہے کہ جس سے الماس کے ٹکڑے شبنم کے قطروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں ٹپکنے کی عاد ت ہو جاتی ہے ۔
چوں ز مقام نمود نغمہ شیریں زنم نیم شبان صبح را میل دمیدن دہم
مطلب: چونکہ میں مقام نمود سے میٹھا میٹھا نغمہ چھیڑ رہا ہوں ۔ اس لیے میں آدھی راتوں میں ہی صبح کو نمودار ہونے کی ترتیب دے دیتا ہوں ( میں اپنی شاعری میں زمانہَ تخلیق کی باتیں کر رہا ہوں جس طرح وجود باری تعالیٰ نے کائنات کو وجود بخش کر اسے نمود عطا کی اسی طرح میری شاعری سن کر ہر شخص میں فوری جذبہ عمل پیدا ہو رہا ہے ۔
یوسف گم گشتہ را باز کشودم نقاب تا بہ تنک مایگان ذوق خریدن دہم
مطلب: گم شدہ یوسف کا میں نے پھر سے نقاب ہٹایا ہے تا کہ کم حوصلہ لوگوں میں اسے خریدنے کا شوق پید اکروں ۔ جو لوگ مقصد حیات بھلا بیٹھے ہیں میں اپنی شاعری کے ذریعے مقصد کے حصول لیے لذت عمل کا سامان پیدا کر رہا ہوں ۔
عشق شکیب آزما خاک ز خود رفتہ را چشم ترے داد و من لذت دیدن دہم
مطلب: صبر آزما عشق نے اپنے مقصد سے بے خبر آدمی کو آنسو دیئے ہیں اور آنسووَں سے بھیگی ہوئی آنکھوں میں محبوب کے دیدار کی لذت پیدا کی ہے ۔