جواب ۔ پہلا بند
خودی را زندگی ایجاد غیر است فراق عارف و معروف خیر است
مطلب: خودی کی زندگی کا راز اسی میں ہے کہ وہ اپنے غیر کو تخلیق کرے ۔ کیونکہ خدا کی خودی نے بھی خود کو مشہور کرنے کے لیے اپنا غیر (انسان) پیدا کیا ۔ اس لیے عارف اور معروف میں یہ جو تفریق نظر آتی ہے اچھی بات ہے ۔ (عارف و معروف ایک اکائی سے دو ہونے کے سبب ایک دوسرے کے طالب ہو گئے ۔ چونکہ خودی کی زندگی کا راز غیر کی تخلیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس عارف و معروف کا فرق اچھی بات ہے (یہی بات انائے مقید اور انائے مطلق پر صادق آتی ہے) ۔
قدیم و محدث ما از شمار است شمار ما طلسم روزگار است
مطلب: ہمارے قدیم اور محدث گنتی کی بنیاد پر ہیں ۔ (قدیم کو ہم اپنے وجود میں اول شمار کرتے ہیں اور محدث کو دوم ۔ حالانکہ قدیم نے ہی محدث کو وجود دیا) اس لیے قدیم اور محدث میں فرق کے باوجود بھی وہ واحد ہیں ۔ ہماری گنتی تو زمانے کے جادو کی طرح ہے ۔ جس طرح جادو فریب ہے ۔ اسی طرح ہماری گنتی بھی فریب نظر ہے ۔
دمادم دوش و فردا می شماریم بہ ہست و بود و باشد کار داریم
مطلب: ہم تو ہر دم گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل کا شمار کرتے رہتے ہیں ۔ ہم تو ماضی حال اور مستقبل کے جھمیلوں میں پڑے رہتے ہیں اور قدیم و محدث کو زمانے کے شمار کے لحاظ سے اول اور دوم قرار دیتے ہیں ) ۔
ازو خود را بریدن فطرت ماست تپیدن نارسیدن فطرت ماست
مطلب: خود کو اس سے الگ کرنا ہماری فطرت میں شامل ہے ۔ کیونکہ اس کے بغیر ہمارا اپنا وجود کہاں ہوتااب جبکہ ہم اس سے الگ ہو گئے ہیں تو اس کے حصول کی تڑپ ہمیں بے قرار رکھتی ہے ۔ یہ تڑپ اور اصل تک نہ پہنچنا ہی ہماری فطرت ہے (اس سے ہماری ہستی قائم ہے) ۔
نہ ما را در فراق او عیارے نہ او را بے وصال ما قرارے
مطلب: اب اصل صورتِ حال یہ ہے کہ نہ اس کے ہجر میں ہمارا کوئی مقام و مرتبہ ہے اور نہ اسے ہمارے وصال کے بغیر چین ہے ۔ (اسے اپنی صفات کی جلوہ گری کے لیے ہمارے وجود کی ضرورت ہے ۔ اور ہمیں اپنے وجود کی بقا کے لیے اس کی ضرورت ہے ۔ یہ وصال دونوں کے لیے ضروری ہے) ۔
نہ او بے ما نہ ما بے او چہ حال است فراق ما فراق اندر وصال است
مطلب: نہ وہ ہمارے بغیر اور نہ ہم اس کے بغیر کوئی چیز ہیں ۔ آخر یہ معاملہ کیا ہے ہمارا فراق وصال کے اندر فراق ہے (ہم ایک دوسرے سے الگ بھی ہیں نہیں بھی ) اپنے مرتبہ کے لحاظ سے وہ خدا ہے اور ہم بندے ۔ دونوں جدا جدا ہیں ۔ لیکن صفات کی جلوہ گری کے لحاظ سے دونوں ایک ہیں ۔ ورنہ خدا اور بندے میں فرق واضح ہے ۔
جدائی خاک را بخشد نگاہے دہد سرمایہ کوہے بکاہے
مطلب: جدائی مٹی میں نگاہ (معرفت آشنائی) پیدا کرتی ہے ۔ ایک تنکے کو پہاڑ کا سرمایہ عطا کرتی ہے (انائے مطلق کو اپنی جلوہ گری کے لیے اپنے غیر کی ضرورت تھی ۔ ایک ایسا آئینہ جس میں وہ اپنے حسن کا تماشا کر سکے) ۔
جدائی عشق را آئینہ دار است جدائی عاشقاں را سازگار است
مطلب: جدائی عشق کا آئینہ ہے ۔ ایسا آئینہ جس میں اس کا عکس پایا جاتا ہے ۔ جدائی عاشقوں کے لیے سازگار ہے ۔ (خدا معشوق اور غیر خدا جو کچھ بھی ہے وہ عاشق ہے ۔ عاشق اور معشوق دو الگ الگ وجود رکھنے کے باوجود انہی کے اصول کے مطابق ایک ہیں ۔ عاشق میں معشوق ہی کی جلوہ گری ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ معشوق کے حسن کا اپنا جلوہ ہے اور عاشق کا جلوہ معشوق کی اداؤں کے سبب ہے) ۔
اگر ما زندہ ایم از دردمندی است وگر پایندہ ایم از دردمندی است
مطلب: اگر ہم زندہ ہیں تو دردمندی کے باعث زندہ ہیں اگر ہم پائندہ ہیں تو بھی دردمندی کی وجہ سے ہیں ۔
من و او چیست اسرار الٰہی است من و او بر دوام ما گواہی است
مطلب: من اور او کیا ہیں ۔ یہ اللہ کے بھید ہیں ۔ من اور او ( میں اور وہ)ہماری ہمیشہ کی زندگی کی گواہی دے رہے ہیں (یہ اللہ کے اسرار ہیں انہیں اللہ والے ہی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہ ان مقامات سے گزرے ہوئے ہوتے ہیں اس لیے یہ باتیں عقل و فکر کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں ۔
بخلوت ہم بجلوت نور ذات است میان انجمن بودن حیات است
مطلب: خلوت میں بھی اور جلوت میں بھی اسی ذات کا نور ہے ۔ زندگی انجمن میں ہونے کا نام ہے (اور انجمن ضرورت عشق ہے ۔ عشق حسن کا خریدار ہو گا تبھی اس کی قیمت لگے گی ۔ انائے مطلق (خدا) نے اسی لیے انائے مقید (اپنا غیر) پیدا کیا ہے ۔
محبت دیدہ ور بے انجمن نیست محبت خود نگر بے انجمن نیست
مطلب: محبت انجمن کے بغیر محوِ نظارہ نہیں ہوتی ۔ اور محبت انجمن کے بغیر اپنا تماشا کرنے والی بھی نہیں ۔
بہ بزم ما تجلی ہاست بنگر جہاں ناپید و او پیداست بنگر
مطلب: ہماری انجمن میں (حسنِ معشوق کی) جلوہ گری ہے ۔ اس کا نظارہ کر ۔ جہان ناپید ہے لیکن وہ موجود ہے ۔ ذرا غور سے دیکھ تو سہی (اس سارے جہان کا وجود حسنِ ازل کے جلووَں کے باعث ہے) ۔
در و دیوار و شہر و کاخ و کو نیست کہ اینجا ہیچکس جز ما و او نیست
مطلب: جہان کے درودیوار ، آبادیاں ، شہر محل اور گلیاں (جہان کی جملہ اشیاء) بے حقیقت ہیں ۔ ان کا وجود حسنِ ازل کی تجلیات کی بدولت ہے ۔ اس جگہ ہمارے اور اس کے سوا کوئی نہیں ۔ (ما اور او خودی اور خدا ایک ہی ذات کے دو رخ ہیں ۔ جب وجود کو انائے مطلق کے رنگ میں دیکھا جائے تو وہ خدا ہے اور جب انائے مقید میں دیکھا جائے تو وہ خودی ہے) ۔
گہے خود را ز ما بیگانہ سازد گہے ما را چو سازے می نوازد
مطلب: او جو ہے وہ کبھی خود کو ما سے بیگانہ بنا لیتا ہے اور کبھی ما کو ساز کی طرح بجاتا ہے ۔ (خدا کبھی ہم سے بیگانوں جیسا سلوک کرتا ہے اور کبھی اپنوں کی طرح پیش آتا ہے) ۔
گہے از سنگ تصویرش تراشیم گہے نادیدہ بروے سجدہ پاشیم
مطلب: کبھی ہم پتھر سے اس کی تصویر بنا لیتے یں اور کبھی اسے دیکھے بغیر ہی اس پر سجدے نچھاور کرنا شروع کر دیتے ہیں (یہ سب حیلے اس کی قربت کے حصول کے لیے ہیں ) ۔
گہے ہر پردہ فطرت دریدیم جمال یار بیباکانہ دیدیم
مطلب: اس کے دیدار کے لیے کبھی ہم نے فطرت کا ہر پردہ چاک کیا ، قانون کی خلاف ورزی کی اور حسنِ یار کا بیباکانہ نظارہ کیا ۔
چہ سودا در سر این مشت خاک است ازیں سودا درونش تابناک است
مطلب: اس مٹی کی مٹھی کے سر میں یہ کیا جنون ہے ، دیدار کا کہ اس جنون سے اس کا باطن تابناک ہے ۔
چہ خوش سودا کہ نالد از فراقش ولیکن ہم ببالد از فراقش
مطلب : یہ کیسا خوب سودا ہے کہ جو اس کے ہجر و فراق میں آہ و فریاد کر رہا ہے اوراس کے ہجر سے ارتقائی منازل بھی طے کر رہا ہے ۔ نہایت الہٰی تک پہنچ رہا ہے ۔
فراق او چناں صاحب نظر کرد کہ شام خویش را بر خود سحر کرد
مطلب: اس حسنِ مطلق کے فراق نے ایسا صاحب نظر کیا کہ اس نے اپنی شام کو خود پر سحر کر لیا (حسنِ مطلق کی جب اشیائے کائنات میں جلوہ فرمائی ہوئی ۔ خود سے الگ ہوا تو اس نے اپنے حسن کی قدرو قیمت سمجھنے والا تخلیق کر لیا ۔ جو صاحب نظر بن کر اس کے حسن کا نظارہ کر رہا ہے ) ۔
خودی را دردمند امتحان ساخت غم دیرینہ را عیش جوان ساخت
مطلب: اس حسن مطلق نے خودی کو فراق کے امتحان میں ڈال دیا ۔ اس نے پرانے زخم کو تروتازہ کر کے عیش بنا دیا ۔
گہرہا سلک سلک از چشم تر برد ز نخل ماتمے شیریں ثمر برد
مطلب: وہ بھیگی ہوئی آنکھوں سے گہر ہائے اشک کے بہت سے ہار لے گیا ۔ اس نے ماتمی درخت سے میٹھا پھل پا لیا ۔
خودی را تنگ در آغوش کردن فنا را با بقا ہم دوش کردن
مطلب: خودی کو بڑے اچھے طریقے سے اپنے پہلو میں جگہ دینے کا مطلب فنا کو بقا کے برابر کرنا ہے (انائے مطلق جب تمام ضروریات کے ساتھ انائے مقید میں جگہ بنا لیتی ہے تو مقید میں مطلق کی صفات شامل ہو جاتی ہیں اس اسے مقام بقا حاصل ہو جاتا ہے ۔
خلاصہ
قدیم اور حادث میں دوئی کہیں نہیں ہے ۔ حقیقت کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ۔ فرق تعین کے لحاظ سے فرق پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ ہر عادت میں قدیم ہی کی جلوہ گری ہوتی ہے ۔ خدا نے اپنے جمال کے مشاہدے کے لیے اپنا یہ غیر یعنی کائنات پیدا کی ۔ اس لیے خود کا عرفان خدا کی پہچان ہے ۔