غزل نمبر۲۹
در جہان دل ما دور قمر پیدا نیست انقلابیست ولے شام و سحر پیدا نیست
مطلب: ہمارے دل کی دنیا میں چاند کی گردش نہیں پائی جاتی ایسا چاند نہیں جو گھٹتا بڑھتا ہو ۔ ایک الٹ پلٹ تو مچی رہتی ہے لیکن رات اور دن کا چکر دکھائی نہیں دیتا ۔دل کی دنیا زمان و مکان کی قیود سے بالاتر ہے۔
وائے آن قافلہ کز دونی ہمت میخواست راہگزارے کہ در و ہیچ خطر پیدا نیست
مطلب: افسوس ہے اس قافلے پر جس نے ہمت کی پستی کے باعث ایسی راہ چاہی کہ جس میں کسی خطرہ کا سامنا نہ ہو ۔
بگزر از عقل و در آویز بموج یم عشق کہ در آن جوے تنک مایہ گہر پیدا نیست
مطلب: عقل سے گزر جا اور عشق کے سمندر کی لہروں میں ہاتھ پاؤں مار ۔ عقل کی مدد سے محبوب حقیقی کا دیدار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی کم گہری ندی میں موتی نہیں پایا جاتا ۔
آنچہ مقصود تگ و تاز خیال من و تست ہست در دیدہ و مانند نظر پیدا نیست
مطلب: جس کے لیے میرے اور تیرے خیال کی یہ ساری بھاگ دوڑ لگی ہوئی ہے وہ آنکھ میں ہے مگر نظر کی طرح دکھائی نہیں دیتا ۔ (انسان خدا کی ہستی کو دل میں محسوس کرتا ہے لیکن آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا) ۔