Please wait..

در معنی این کہ ملت از اختلاط افراد پیدا می شود و تکمیل تربیت او از نبوت است
(ملت اختلاطِ افراد سے بنتی اور اس کی تکمیل تربیت نبوت سے ہوتی ہے)

 
از چہ رو بر بستہ ربط مردم است
رشتہ ی این داستان سر در گم است

مطلب:کچھ معلوم نہیں کہ انسانوں میں اول اول میل جول کا تعلق کس وجہ سے فائدہ مند ہے ۔ اس کہانی کا ابتدائی رشتہ بالکل غائب ہے ۔

 
در جماعت فرد را بینیم ما
از چمن او را چو گل چینیم ما

مطلب: ہم فرد کو جماعت میں دیکھتے ہیں اور باغ سے اسے پھول کی طرح چن لیتے ہیں (جماعت اگر چمن ہے تو فرد اس کا پھول ہے ) ۔

 
فطرتش وارفتہ ی یکتائی است
حفظ او از انجمن آرائی است

مطلب: اس کی فطرت انفرادیت کی دلدادہ ہے لیکن اس کی حفاظت کا تقاضا یہ ہے کہ انجمن آراستہ کر کے زندگی بسر کرے یعنی بہت سے افراد مل جل کر رہیں ۔

 
سوزدش در شاہراہ زندگی
آتش آوردگاہ زندگی

مطلب: زندگی کے میدان جنگ کی آگ فرد کو شاہراہ حیات میں جلا دیتی ہے ۔

 
مردمان خوگر بیک دیگر شوند
سفتہ در یک رشتہ چون گوہر شوند

مطلب: انسان اسی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ یا عادی ہو گئے اور موتیوں کی طرح ایک رشتے میں پروئے گئے ۔

 
در نبرد زندگی یار ہمند
مثل ہمکاران گرفتار ہمند

مطلب: وہ زندگی کی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں جس طرح ایک پیشے کے مختلف آدمی اکھٹے کام کرتے ہیں اسی طرح یہ بھی اکٹھے ہو گئے ۔

 
محفل انجم ز جذب باہم است
ہستی کوکب ز کوکب محکم است

مطلب: تاروں کی محفل بھی ایک خاص کشش کی بدولت قائم ہے ۔ ایک تارے کی ہستی دوسرے تارے کی وجہ سے استوار ہے ۔

 
خیمہ گاہ کاروان کوہ و جبل
مرغزار و دامن صحرا و تل

مطلب: قافلہ تو پہاڑ، پہاڑیاں ، چراگاہیں ، صحرا کا دامن اور ریت کے ٹیلے جہاں جی چاہے خیمے لگا لیتا ہے ۔

 
سست و بیجان تار و پود کار او
ناگشودہ غنچہ ی پندار او

مطلب: انسان کے کاروبار کا تانا بانا بہت ہی بے جان سا تھا گویا اس کے غور و فکر کی کلی کھل کر پھول نہیں بنی تھی ۔

 
ساز برق آہنگ او ننواختہ
نغمہ اش درپردہ ناپرداختہ

مطلب: اس کے جس ساز کی آواز سے بجلیاں پیدا ہونے والی تھیں وہ ابھی چھیڑا نہیں گیا تھا اور انسان کا نغمہ ابھی پردوں میں نامکمل پڑا تھا ۔

 
گوشمال جستجو ناخوردہ ئی
زخمہ ہای آرزو ناخوردہ ئی

مطلب: اس نے تلاش و جستجو کا تنبیہ کا تجربہ نہیں کیا تھا ۔ اور اس کے دل پر آرزو کی مضراب کی چوٹ نہیں لگی تھی ۔

 
نا بسامان محفل نوزادہ اش
می توان با پنبہ چیدن بادہ اش

مطلب: جو محفل تازہ پیدا ہوئی اس کے پاس کوئی سازوسامان نہ تھا ۔ شراب اتنی کم تھی کہ چھوٹے سے پیالے میں جذب ہو سکتی تھی ۔

 
نو دمیدہ سبزہ ی خاکش ہنوز
سرد خون اندر رگ تاکش ہنوز

مطلب: اس کی خاک سے سبزہ تازہ تازہ پھوٹا تھا ۔ اس کے انگور کی رگوں میں لہو سرد پڑا تھا ۔

 
منزل دیو و پری اندیشہ اش
از گمان خود رمیدن پیشہ اش

مطلب : اس کے فکر و خیال پر دیو و پری اور بھوت پریت چھائے ہوئے تھے ۔ وہ اپنے خیال سے ڈر کر اٹھ بھاگتا تھا ۔

 
تنگ میدان ہستی خامش ہنوز
فکر او زیر لب بامش ہنوز

مطلب: اس کی ناپختہ زندگی کا میدان بہت تنگ تھا اور اس کی سوچ بچار نارسا تھی ۔ ابھی اس کے لب بام کے نیچے تھی ۔

 
بیم جان سرمایہ ی آب و گلش
ہم ز باد تند می لرزد دلش

مطلب: جان کا خوف انسان کی آب و گل کا سرمایہ تھا ۔ تیز ہوا بھی چلتی تو اس کا دل لرز جاتا (کانپ اٹھتا) ۔

 
جان او از سخت کوشی رم زند
پنجہ در دامان فطرت کم زند

مطلب: انسان کی جان محنت و مشقت سے دور بھاگتی تھی اور اس نے فطرت کے دامن میں کبھی پنجہ نہیں مارا تھا ۔

 
ہر چہ از خود می دمد برداردش
ہر چہ از بالا فتد برداردش

مطلب: جو کچھ خود بخود زمین سے اگ آتا یا اوپر سے گر پڑتا ، اسی کو اٹھا کر گزارہ کر لیتا ۔

 
تا خدا صاحبدلی پیدا کند
کو ز حرفی دفتری املا کند

مطلب: یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کوئی صاحب دل پیدا کر دیتا ہے جو ایک حرف سے ایک دفتر لکھوا دیتا ہے ۔

 
ساز پردازی کہ از آوازہ ئی
خاک را بخشد حیات تازہ ئی

مطلب: اس کی ساز نوازی میں ایسا اعجاز ہوتا ہے کہ دو مقاموں سے ترکیب پائی ہوئی ایک نوا سناتا ہے اور خاک کو نئی زندگی بخش دیتا ہے ۔

 
ذرہ ی بی مایہ ضو گیرد ازو
ہر متاعی ارج نو گیرد ازو

مطلب: بے حس و حرکت خاک کی رگوں میں نیا زندگی کا خون دوڑ جاتا ہے ۔ بے حقیقت ذرہ اس صاحب دل سے نور حق کی روشنی حاصل کر لیتا ہے ۔

 
زندہ از یک دم دو صد پیکر کند
محفلی رنگین ز یک ساغر کند

مطلب: اور جو بھی جنس اس کے پاس ہو اس میں نئی قدر و قیمت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس کی ایک پھونک سے دو سو (ہزاروں ) پیکر زندہ ہو جاتے ہیں اس کے ایک پیالے سے پوری محفل میں رونق اور رنگینی پیدا ہو جاتی ہے ۔

 
دیدہ ی او می کشد لب جان دمد
تا دوئی میرد یکی پیدا شود

مطلب: صاحب دل کی نگاہوں میں خاص جذب و کشش کا اعجاز ہوتا ہے ۔ اس کے لبوں سے جو کچھ نکلتا ہے وہ سننے والوں میں نئی زندگی پیدا کر دیتا ہے ۔ اس کی مقدس تعلیمات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانوں سے دوئی اور بیگانگی مٹ جاتی ہے ۔ وحدت اور یگانگی پیدا ہو جاتی ہے ۔

 
رشتہ اش کو بر فلک دارد سری
پارہا ی زندگی را ہمگری

مطلب: اس کا دھاگا جس کا سرا آسمان تک پہنچا ہوتا ہے زندگی کے اجزاکو رفو کر کے باہم جوڑ دیتا ہے ۔ اس صاحب دل کے فیض روحانی کا سلسلہ آسمان سے وابستہ ہوتا ہے وہ زندگی کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک کل بنا دیتا ہے ۔

 
تازہ انداز نظر پیدا کند
گلستان در دشت و در پیدا کند

مطلب: وہ انسانوں کی نگاہوں میں نیا انداز پیدا کر دیتا ہے اور صحرا اور کو گلزار بنا دیتا ہے ۔ جن سے رنگ رنگ کے پھولوں ، طرح طرح کی خوشبووَں اورگوناگوں پھلوں کی فراوانی ہو ۔

 
از تف او ملتی مثل سپند
بر جہد شور افکن و ہنگامہ بند

مطلب: (آپ نے بار بار دیکھا ہو گا کہ ) حرمل کا دانہ آگ پر رکھا جائے تو اس سے ایک خاص آواز نکلتی ہے اور وہ اچھل کر باہر جا پڑتا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ صاحب دل کی حرارت پوری قوم کو حرمل کے دانے کا مرقع بنا دیتی ہے یعنی قوم ایک نعرے اور ایک ہنگامے کے ساتھ خدا کی راہ میں ہمہ تن سرگرم عمل ہو جاتی ہے ۔

 
یک شرر می افکند اندر دلش
شعلہ ی در گیر می گردد گلش

مطلب: صاحب دل ایک چنگاری اس قوم کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کی خاک کو ایک ایسا شعلہ بنا دیتا ہے جو ہر شے کو گرفت میں لے لینے کے لیے مضطرب ہو ۔

 
نقش پایش خاک را بینا کند
ذرہ را چشمک زن سینا کند

مطلب: اس کے پاؤں کا نقش خاک میں بینائی کی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے ۔ ذرے میں تجلیات کا ایسا سروسامان بہم پہنچا دیتا ہے کہ وہ طور سینا سے چشمک زنی کرتا ہے ۔

 
عقل عریان را دہد پیرایہ ئی
بخشد این بی مایہ را سرمایہ ئی 

مطلب: یہ صاحب دل برہنہ عقل کو لباس پہنا دیتا ہے تاکہ اس کی برہنگی چھپ جائے اور اس مفلس و قلاش کو سرمایہ بخش دیتا ہے ۔

 
دامن خود میزند بر اخگرش
ہر چہ غش باشد رباید از زرش

مطلب: اس عقل کے انگاروں کو دامن سے ہوا دیتا ہے اس طرح اس کے سونے کو پگھلا کر سارا کھوٹ باہر نکال لیتا ہے ۔ جب تک عقل آسمانی ہدایت سے فیضیاب نہ ہو وہ عقل محض رہتی ہے ۔

 
بندہا از پا گشاید بندہ را
از خداوندان رباید بندہ را

مطلب: نبی کی تعلیم انسانوں کے پاؤں کو ان بیڑیوں سے آزاد کر دیتی ہے جو اس نے خود پہن لی تھیں ۔ اور جو انسان مختلف دیوتاؤں اور معبودوں کی پرستش میں لگا ہوا تھا اسے تمام پرستشوں سے نجات دلا کر ایک خدا کی چوکھٹ پر لے آتی ہے ۔

 
گویدش تو بندہ ی دیگر نہ ئی
زین بتان بی زبان کمتر نہ ئی

مطلب: نبی ان سے کہتا ہے کہ تو خواہمخواہ دوسروں کا غلام کیوں بنتا ہے کیا تو ان بتوں سے بھی کمتر ہے جو بول نہیں سکتےیہاں حضرت ابراہیم کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر سورہ انبیاء میں آیا ہے ۔ یعنی حضرت ابراہیم قوم کو بت پرستی سے منع کرتے تھے ۔ قوم کہتی تھی کہ ہمارے باپ دادا انہیں بتوں کو پوجتے آئے ہیں اور ہم انہیں کے مذہب پر چلیں گے ۔ حضرت ابراہیم نے ایک دن موقع پا کر بڑے بت کو چھوڑا باقی تمام بتوں کو توڑ پھوڑ ڈالا ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ نبی انسانوں سے یہی کہتا ہے کہ کیا تم ان بے زبان بتوں سے بھی فروتر ہو ۔

 
تا سوی یک مدعایش می کشد
حلقہ ی آئین بپایش می کشد

مطلب: نبی انسانوں کو ایک مقصد کی طرف لے جاتا ہے ۔ ضابطے اور آئین کی زنجیر ان کے پاؤں میں ڈال دیتا ہے ۔ پھر ا ن کے دل میں توحید کا نکتہ بٹھاتا اور سکھاتا ہے تاکہ خدا کے سامنے جھکیں ۔