Please wait..

غزل نمبر ۱

 
بہار تا بہ گلستان کشید بزم سرود
نواے بلبل شوریدہ چشم غنچہ کشود

مطلب: جب بہار نے ساز و نغمہ کی محفل کو چمن میں سجایا تو مستانی بلبل کی آواز نے کلی کی آنکھ کھول دی (پھول کھلنے لگے) ۔

 
گمان مبر کہ سرشتند در ازل گل ما
کہ ما ہنوز خیالیم در ضمیر وجود

مطلب: یہ گمان مت کر کہ ازل میں ہمارا خمیر گوندھ دیا گیا تھا ہم ابھی وجود کے دل میں خیال کی طرح ہیں ۔

 
بہ علم غرہ مشو کار مے کشی دگر است
فقیہ شہر گریبان و آستیں آلود

مطلب: علم پر مغرور نہ ہو، میکشی کا معاملہ اور ہے ۔ مفتی شہر تک نے گریبان اور آستین لتھیڑ لی ۔

 
بہار برگ پراگندہ را بہم بر بست
نگاہ ماست کہ بر لالہ رنگ و آب افزود

مطلب: بہار نے صرف بکھرے ہوئے پتوں کو اکٹھا کیا یہ ہماری نظر ہے جس نے گل لالہ پر آب و رنگ بڑھایا (اضافہ کیا) ۔ (اقبال کا نظریہ یہ ہے کہ حسن باہر نہیں ہے بلکہ دیکھنے والے کے اندر ہے) ۔

 
نظر بخویش فروبستہ را نشان ایں است
دگر سخن نہ سراید ز غائب و موجود

مطلب: اپنے آپ پر نظر رکھنے والے کی پہچان یہ ہے کہ پھر وہ غائب اور موجود کی کوئی بات نہیں کرتا (اس کے لیے غائب و موجود میں فرق نہیں رہ جاتا) ۔

 
شبے بہ میکدہ خوش گفت پیر زندہ دلے
بہ ہر زمانہ خلیل است و آتش نمرود

مطلب: ایک رات میخانے میں ایک روشن ضمیر بزرگ نے کیا خوب کہا ہر زمانے میں خلیل ہے اور نمرود کی آگ (ہر زمانے میں ان کے جانشین پیدا ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ خدا پرستوں کے نمائندہ ہیں اور نمرود دشمنان دین کا نمائندہ ہے ۔ )

 
چہ نقشہا کہ نہ بستم بکارگاہ حیات
چہ رفتنی کہ نہ رفت و چہ بودنی کہ نبود

مطلب: میں نے زندگی کی کارگاہ میں کیا کیا نقش نہیں بنائے کون سی گزرنی تھی جو نہ گزری اور کیا ہونی تھی جو نہ ہوئی (وہ کون سی شے ہے جو مٹنی تھی اور نہ مٹی، وہ کون سی چیز ہے جو ہونی تھی اور نہ ہوئی) ۔

 
بہ دیریاں سخن نرم گو کہ عشق غیور
بنائے بتکدہ افگند در دل محمود

مطلب: بت خانے والوں کے ساتھ نرمی سے بات کر کیونکہ عشق وہ آن والا ہے جس نے محمود غزنوی جیسے بت شکن کے دل میں بھی بت کدہ کی بنیاد ڈال دی ۔

 
بخاک ہند نواے حیات بے اثر است
کہ مردہ زندہ نگردد ز نغمہ داوَد

مطلب: ہندوستان کی مٹی پر زندگی کا گیت بے اثر ہے کیونکہ داوَد کے نغمے سے بھی مردہ جی نہیں اٹھتا (مردہ کو زندہ نہیں کر سکتا) نوٹ: ہندوستان کے باشندے چونکہ مردہ ہیں اس لیے میرے کلام جو دراصل حیات کا پیغام ہے ان کے دلوں میں کوئی تاثیر پیدا نہیں کر سکتا ۔ یہ روحانی طور پر مردہ ہیں ۔ ان کو تو حضرت داوَد کا نغمہ بھی زندہ نہیں کر سکتا ۔
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند