Please wait..

غزل نمبر۳۷

 
خواجہ نیست کہ چون بندہ پرستارش نیست
بندہ نیست کہ چون خواجہ خریدارش نیست

مطلب: کوئی امیر نہیں جو غلام کی طرح اس کا بندہ نہ ہو کوئی غلام نہیں جو امیر کی طرح اس کا خریدار نہ ہو (ہر شخص حق تعالیٰ سے ملنے کا تمنائی ہے) ۔

 
گرچہ از طور و کلیم است بیان واعظ
تاب آن جلوہ بآئینہ گفتارش نیست

مطلب: واعظ گو کہ طور اور کلیم کی حکایت سنا رہا ہے مگراس کی گفتار کے آئینے میں اس جلوے کی چمک نہیں ہے (ان کی گفتگو سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خود انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی دیدار الہٰی کا شرف حاصل کیا ہے ) ۔

 
پیر ما مصلحتا رو بمجاز آورد است
ورنہ با زہرہ وشان ہیچ سروکارش نیست

مطلب: ہمارے پیر نے مصلحتاً مجاز کی طرف رخ کیا ہوا ہے ورنہ اسے حسینوں سے کوئی سروکار نہیں (جھوٹے پیروں پر طنز کیا ہے) ۔

 
دل باو بند و ازین خرقہ فروشان بگریز
نشوی صید غزالے کہ ز تاتارش نیست

مطلب: دل کو اس سے باندھ اور ان خرقہ فروشوں سے بھاگ ایسے غزال کا شکار مت ہونا جو اس کے تاتار کا نہیں ۔ یعنی کسی ایسے پیر کا مرید مت ہونا جو اس (خدا) کے دربار (تاتار) سے تعلق نہ رکھتا ہو ۔ نوٹ: تاتار کا لفظ غزال کی مناسبت سے لائے ہیں کیونکہ تاتار کے ہرن اپنے مشک کے لیے مشہور ہیں ۔

 
نغمہ عافیت از بربط من می طلبی
از کجا برکشم آن نغمہ کہ در تارش نیست

مطلب: تومیرے بربط سے چمن کا راگ طلب کرتا ہے میں کہاں سے نکالوں وہ نغمہ جو اس کے تار میں نہیں ہے ۔

 
دل ما قشقہ زد و برہمنی کرد ولے
آن چنان کرد کہ شایستہ زنارش نیست

مطلب: ہمارے دل نے قشقہ کھینچا اور برہمن بن گیا مگر ایسے کرتوت دکھائے جو اسکے زنار کے لائق نہیں ۔

 
عشق در صحبت میخانہ بگفتار آید
زانکہ در دیر و حرم محرم اسرارش نیست

مطلب: عشق مے خانے کی مجلس میں گفتار میں آیا (عشق کی زبان کھلتی ہے) کیونکہ مندر اور مسجد میں ا س کا ہمراز کوئی نہیں ۔