Please wait..

در معنی ایں کہ جمیعت حقیقی از محکم گرفتن نصب العین ملیہ است و نصب العین امت محمدیہ حفظ و نشر توحید است
حقیقی جمیعت ملی نصب العین پر مضبوط گرفت کا نام ہےاور امت محمدیہ کا نصب العین توحید کی حفاظت و اشاعت ہے

 
با تو آموزم زبان کائنات
حرف و الفاظ است اعمال حیات

مطلب:اے مخاطب! میں تجھے کائنات کی زبان سکھاتا ہوں ۔ وہ حروف و الفاظ کی زبان نہیں بلکہ زندگی کے اعمال کی زبان ہے ۔

 
چون ز ربط مدعائی بستہ شد
زندگانی مطلع برجستہ شد

مطلب: جب زندگی کسی مدعا سے وابستہ ہو جاتی ہے تو ایک پختہ ، موزوں اور برمحل مطلع بن جاتی ہے ۔

 
مدعا گردد اگر مہمیز ما
ہمچو صرصر می رود شبدیز ما

مطلب: اگر مدعا ہماری ایڑ بن جائے تو ہمارا گھوڑا آندھی کی طرح دوڑنے لگے گا ۔

 
مدعا راز بقای زندگی
جمع سیماب قوای زندگی

مطلب: مدعا زندگی کے حفظ و بقا کا بھید ہے اسی کی برکت سے زندگی کی قوتوں کے بےقراری دور ہوتی ہے اور وہ مرکز پر جمع ہو جاتی ہے ۔

 
چون حیات از مقصدی محرم شود
ضابط اسباب این عالم شود

مطلب: جب زندگی ایک مقصد سے آشنا ہو جاتی ہے تو اس دنیا میں اسے حاصل کرنے کے جتنے اسباب ہیں انہیں نظم و ضبط میں لے آتی ہے ۔

 
خویشتن را تابع مقصد کند
بہر او چیند گزیند رد کند

مطلب: اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیتی ہے ۔ اس کے حصول میں جس چیز کی ضرورت پڑتی ہے اس سے کام لیتی ہے ۔ جو معاون بنتی ہے اسے چن لیتی ہے جو مضر نظر آتی ہے اسے ٹھکرا دیتی ہے ۔

 
ناخدا را یم روی از ساحل است
اختیار جادہ ہا از منزل است

مطلب: ملاح سمندر میں جہاز چلاتا ہے تو صرف اس مقصد سے کہ ساحل پر پہنچ جائے ۔ مسافر راستے طے کرتے ہیں تو اس لیے کہ منزل پر فائز ہوں ۔

 
بر دل پروانہ داغ از ذوق سوز
طوف او گرد چراغ از ذوق سوز

مطلب: پروانے کے دل پر ذوق سوز نے ایک داغ لگا رکھا ہے اسی لیے وہ چراغ کے گرد چکر لگاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے ۔

 
قیس اگر آوارہ در صحراستی
مدعایش محمل لیلاستی

مطلب: قیص صحرا میں اس لیے آوارہ و سرگرداں پھر رہا ہے کہ اسے لیلیٰ کے محمل کی تلاش ہے ۔

 
تا بود شہر آشنا لیلای ما
بر نمی خیزد بہ صحرا پای ما

مطلب: اگر ہماری لیلیٰ شہر میں رہنے لگے اور صحرا کی طرف نہ جائے تو ہمارے پاؤں کبھی صحرا کی طرف نہ اٹھیں ۔

 
ہمچو جان مقصود پنہان در عمل
کیف و کم از وی پذیرد ہر عمل

مطلب: غرض کوئی بھی عمل پیش نظر لاوَ اور غور کرو، صاف معلوم ہو جائے گا کہ کسی نہ کسی مقصد کو اس کے تعلق میں جان کی حیثیت حاصل ہے ۔

 
گردش خونی کہ در رگہای ماست
تیز از سعی حصول مدعاست

مطلب: ہماری رگوں میں خون کی جو گردش ہے وہ حصول مدعا کے لیے سرگرمی ہی کی بنا پر تیز ہوتی ہے ۔

 
از تف او خویش را سوزد حیات
آتشی چون لالہ اندوزد حیات

مطلب: مدعا کی حرارت سے زندگی اپنے آپ کو جلا دیتی ہے اور لالے کی طرح آگ فراہم کر لیتی ہے ۔ اپنے آپ کو جلا دینے سے حقیقتاً جلا دینا مقصود نہیں بلکہ اس اسلوب بیان سے سعی و کوشش کی انتہائی سرگرمی کا تصور پیدا کرنا منظور ہے ۔

 
مدعا مضراب ساز ہمت است
مرکزی کو جاذب ہر قوت است

مطلب: مدعا ساز ہمت کے لیے مضراب ہے ۔ یہی مرکز ہے جو ہر قوت عمل کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔

 
دست و پای قوم را جنباند او
یک نظر صد چشم را گرداند او

مطلب: مقصد ہی قوم کے ہاتھ پاؤں میں حرکت پیدا کرتا ہے اور بہ یک وقت سینکڑوں آنکھیں اسی کے اشارے پر گردش کرنے لگتی ہیں ۔

 
شاہد مقصود را دیوانہ شو
طاءف این شمع چون پروانہ شو

مطلب: اے مخاطب! تو بھی اپنے مقصد کے لیے محبوب کے لیے دیوانگی اختیار کر اور مقصد کو شمع بنا کر پروانے کی طرح اس کا طواف شروع کر دے ۔

 
خوش نوائی نغمہ ساز قم زدہ است
زخمہَ معنی بر ابریشم زدہ است

مطلب: قم کے نغمہ ساز یعنی مشہور شاعر ملک قمی نے ایک نہایت اچھا ترانہ سنایا ہے ۔ گویا حقیقت کا نغمہ تار پر لگایا ہے ۔

 
تاکشد خار از کف پارہ سپر
می شود پوشیدہ محمل از نظر

مطلب: جب تک مسافر اپنے تلوے سے کانٹا نکالے، محمل نظروں سے پوشیدہ ہو جاتا ہے ۔

 
گر بقدر یک نفس غافل شدی
دور صد فرسنگ از منزل شدی

مطلب: اگر تو ایک دم کے لیے بھی غافل ہو گا تو منزل سے سینکڑوں فرسنگ دور ہو جائے گا ۔

 
این کہن پیکر کہ عالم نام اوست
ز امتزاج امہات اندام اوست

مطلب: یہ پرانا پیکر جس کا نام دنیا ہے عناصر کے ربط و ضبط سے بنا ہے اور اس میں ابتدا ہی سے ارتقا کا عمل جاری ہے ۔

 
صد نیستان کاشت تا یک نالہ رست
صد چمن خون کرد تا یک لالہ رست

مطلب: اس نے سینکڑوں نیستان بوئے اور ان میں ایک نالہ پیدا کیا ۔ سینکڑوں باغوں کا خون کر کے ایک لالہ اگایا ۔

 
نقشہا آورد و افکند و شکست
تا بہ لوح زندگی نقش تو بست

مطلب: نقشوں کے خاکے تیار ہوئے اور بٹھائے گئے ۔ پھر انہیں مٹایا گیا اے مسلمان بناوَ بگاڑ کا یہ سلسلہ اس لیے جاری رہا تاکہ زندگی کی تختی پر تیرا نقش بٹھایا جا سکے ۔

 
نالہ ہا در کشت جان کاریدہ است
تا نوای یک اذان بالیدہ است

مطلب: جانوں کے کھیت میں آہ و فغاں کی کاشت جاری رہی یہاں تک کہ ایک اذان کی صدا نے فروغ پایا ۔

 
مدتی پیکار با احرار داشت
با خداوندان باطل کار داشت

مطلب: یہ دنیا مدت تک احرار سے لڑتی رہی، اسے جھوٹے معبودوں سے محبت تھی ۔

 
تخم ایمان آخر اندر گل نشاند
با زبانت کلمہَ توحید خواند

مطلب: آخر ایمان کا بیج مٹی میں بویا گیا ، وہ اگا ، بڑھا ، پھولا پھلا اور اے مسلمان تیری زبان سے اس دنیا نے توحید کا کلمہ پڑھا ۔

 
نقطہَ ادوار عالم لا الہ
انتہائی کار عالم لا الہ

مطلب: تو لا الہ یعنی کلمہ توحید کی حقیقت جانتا ہے ۔ جہان کے ہر دور و گردش کا مرکزی نقطہ لا الہ ہے ۔ اور اس جہان کے کام کی انتہا بھی لا الہ ہے ۔

 
چرخ را از زور او گردندگی
مہر را پایندگی رخشندگی

مطلب: آسمان اسی کے زور سے گھوم رہا ہے، سورج کو اسی کی بدولت استواری اور آب و تاب حاصل ہے ۔

 
بحر گوہر آفرید از تاب او
موج در دریا تپید از تاب او

مطلب: سمندر نے لا الہ ہی کی چمک دمک سے موتی پیدا کئے اور دریا کے اندر موج کو اسی تڑپ سے بہرہ یاب کیا ۔

 
خاک از موج نسیمش گل شود
مشت پر از سوز او بلبل شود

مطلب: مٹی لا الہ کی باد نسیم سے پھول بن جاتی ہے اور مٹھی بھر کر اس کے سوز سے بلبل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔

 
شعلہ در رگہای تاک از سوز او
خاک مینا تابناک از سوز او

مطلب: انگور کی رگوں میں اسی کے سوز کی بدولت آگ گردش کر رہی ہے ۔ صراحی کی مٹی میں بھی اس کے سوز کی بدولت چمک دمک ہے ۔

 
نغمہ ہایش خفتہ در ساز وجود
جویدت ای زخمہ ور ساز وجود

مطلب: عالم ہستی کے ساز میں لا الہ کے نغمے سوئے ہوئے ہیں ۔ اے زخمے والے ہاتھ آج عالم ہستی کا ساز تیری تلاش میں ہے تا کہ تو زخمہ لگائے اور سوئے ہوئے نغمے جاگ اٹھیں ۔

 
صد نوا داری چو خون در تن روان
خیز و مضرابی بتار او رسان

مطلب: تیرے پاس سینکڑوں نغمے ہیں جو خون کی طرح تیرے بدن میں د وڑ رہے ہیں اٹھ اور اس کے تار کو مضراب سے چھیڑ دے ۔

 
زانکہ در تکبیر راز بود تست
حفظ و نشر لا الہ مقصود تست

مطلب: کیونکہ تکبیر ہی میں تیری ہستی کا راز چھپا ہوا ہے اور جان لے کہ تیرا اصل مقصد توحید کی حفاظت و اشاعت ہے ۔

 
تا نخیزد بانگ حق از عالمی
گر مسلمانی نیاسائی دمی

مطلب: اگر تو مسلمان ہے تو تجھے اس وقت تک ایک دم کے لیے بھی آرام سے نہیں بیٹھنا چاہیے جب تک کہ زمانہ بھر سے حق کی آواز نہ اٹھنے لگے ۔

 
می ندانی آیہ ام الکتاب
امت عادل ترا آمد خطاب

مطلب: اے ملت اسلامیہ! کیا قرآن مجید کی وہ آیت تجھے معلوم نہیں جس میں تجھے امت عادل کا خطاب ملا ۔

 
آب و تاب چہرہ ایام تو
در جہان شاہد علی الاقوام تو

مطلب: زمانے کے چہرے کی رونق اور تازگی تیرے ہی دم سے ہے تو اس دنیا میں تمام قوموں کے لیے گواہی دینے والی ہے ۔ اس میں اشارہ قرآن مجید کی اس آیت کی طرف ہے اور ہم نے تمہیں نیک ترین اور عادل ترین امت ہونے کا درجہ عطا فرمایا تاکہ تم تمام انسانوں کے لیے گواہی دینے والے ہو اور تمہارے لیے رسول اللہ گواہی دینے والے ہیں (البقرہ) ۔

 
نکتہ سنجان را صلای عام دہ
از علوم امتی پیغام دہ

مطلب: جو نکتہ شناس ہیں انہیں دعوت عام دے اور امت نبی کے علوم سے آگاہ کر ۔

 
اُمّی پاک از ہوی گفتار او
شرح رمز ماغوی گفتار او

مطلب: وہ اُمّی ، جس کی گفتگو قرآن ارشاد کے مطابق نفس کی خواہش سے پاک تھی اور جو کچھ اس کی زبان مقدس پر جاری ہوتا تھا وحی کے ذریعے سے پہنچا ہوا آسمانی پیغام تھا ۔ وہ اُمّی جس کے ارشادات ماغویٰ کی شرح تھے یعنی ان میں بے راہی کی کوئی بات نہ تھی ۔

 
تا بدست آورد نبض کائنات
وانمود اسرار تقویم حیات

مطلب: اس امی نبی نے کائنات کی نبض اپنے دست مبارک میں لی تو زندگی کی پختگی کے تمام بھید کھول کر رکھ دیے ۔

 
از قبای لالہ ہای این چمن
پاک شست آلودگیہای کہن

مطلب: اس چمن میں لالوں کی قبا پر جتنی آلودگیاں پرانے زمانے سے چھائی ہوئی تھیں ان سب کو دھو کر صاف کر دیا ۔

 
در جہان وابستہَ دینش حیات
نیست ممکن جز بہ آئینش حیات

مطلب: اس دنیا میں زندگی اسی امی نبی کے دین سے وابستہ ہے اور یاد رکھو اس کی شریعت اور اس کے مقرر کئے ہوئے قاعدوں کے بغیر جینا ممکن ہی نہیں ۔

 
ای کہ میداری کتابش در بغل
تیز تر نہ پا بہ میدان عمل

مطلب: اے ملت اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن مجید تیرے بغل یعنی پاس ہے اس کے نور سے فائدہ اٹھا اور عمل کی میدان میں چلنا شروع کر دے ۔

 
فکر انسان بت پرستی بت گری
ہر زمان در جستجوی پیکری

مطلب: انسان کا شیوہ ابتدا سے یہ رہا ہے کہ بت بنائے اور انہیں پوجے وہ ہر گھڑی کسی نئے بت کی تلاش میں رہتا ہے ۔

 
باز طرح آذری انداخت است
تازہ تر پروردگاری ساخت است

مطلب: اب اس نے پھر آذر کا طریقہ اختیار کر لیا ہے اور نت نئے بت بنا کر کھڑے کر دیے ہیں ۔

 
کاید از خون ریختن اندر طرب
نام او رنگ است و ہم ملک و نسب

مطلب: وہ بت خون بہا کر خوشی سے ناچتے ہیں ان کے نام ہیں رنگ، ملک اور نسل (ملک کا بت یورپ نے پیدا کیا، رنگ کا بت بھی یورپ ہے ان بتوں نے عالم انسانیت کو چھوٹے بڑے ٹکروں میں بانٹ دیا اور جگہ جگہ ایک دوسرے سے دشمنی کی آگ بھڑکا دی) ۔

 
آدمیت کشتہ شد چون گوسفند
پیش پای این بت نا ارجمند

مطلب: اقبال نے کیا خوب فرمایا کہ دیکھو، ان نامراد بتوں کے پاؤں میں انسانیت بھیڑ بکری کی طرح بیدردی سے ذبح کر ڈالی گئی ۔

 
ای کہ خور دستی ز مینای خلیل
گرمی خونت ز صہبای خلیل

مطلب: اے ملت اسلامیہ تو نے ابراہیم کی صراحی سے شراب پی ہے تیرے خون میں اسی شراب کی حرارت دوڑ رہی ہے ۔

 
بر سر این باطل حق پیرہن
تیغ لا موجود الا ہو بزن

مطلب: اٹھ اور اس باطل کا سر جس نے حق کا لباس پہن رکھا ہے لاموجود الا ہو کی تلوار چلا کر قلم کر دے ۔

 
جلوہ در تاریکی ایام کن
آنچہ بر تو کامل آمد عام کن

مطلب: اس دنیا کے طول و عرض میں اندھیرا چھا گیا ہے ۔ اٹھ اور اجالے کا سروسامان کر دے ۔ جو دین تجھ پر کامل ہوا ہے اسے چپے چپے میں پھیلا دے ۔

 
لرزم از شرم تو چون روز شمار
پرسدت آن آبروی روزگار

مطلب: میں تو شرم کے مارے کانپ اٹھتا ہوں جب سوچتا ہوں کہ قیامت کے دن وہ پاک ذات جو اس کائنات کی آبرو تھی

 
حرف حق از حضرت ما بردہ ئی
پس چرا بادیگران نسپردہ ئی

مطلب: اے ملت تجھ سے پوچھے گی کہ تجھے ہماری پیش گاہ سے ایک پیغام دیا گیا تھا تو نے اسے دوسروں تک کیوں نہ پہنچایا