تمہید آسمانی۔ نخستین روز آفرینش :نکوھش آسمان زمین را
(کائنات کی تخلیق پیدائش کے پہلے دن آسمان کا زمین کو برا بھلا کہنا)
زندگی از لذت غیب و حضور بست نقش این جہان نزد و دور
مطلب: زندگی نے غیب و حضور کی لذت کی خاطر اس نزدیک اور دور جہان کا نقش پیدا کیا ۔ (غیب ہر لحاظ سے کہ وہ نظر نہیں آتا اور حضور اس لحاظ سے کہ کائنات کے ذرے ذرے میں تو اس کا جلوہ کارفرما ہے) ۔
آن چنان تار نفس از ہم گسیخت رنگ حیرت خانہ ی ایام ریخت
مطلب: حیات نے سانس کے تاروں کو ایک دوسرے سے کچھ اس طرح علیحدہ کر دیا کہ ایام کے حیرت خانہ کی بنیاد رکھ دی ۔
ہر کجا از ذوق و شوق خود گری نعرہ ی من دیگرم تو دیگری
مطلب: ہر جگہ خودگری کے ذوق و شوق کے باعث میں اور ہوں اور تو اور ہے کا نعرہ سنائی دے رہا ہے ۔ من دیگرم تو دیگری امیر خسرو کے اس شعر سے ماخوذ ہے ۔
ماہ و اختر را خرام آموختند صد چراغ اندر فضا افروختند
مطلب: قدرت نے چاند اور ستاروں کو گردش کرنا سکھا دیا اور یوں سینکڑوں چراغ روشن کر دیئے گئے (چاند اور ستاروں کے لیے چراغ کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے) ۔
بر سپہر نیلگوں زد آفتاب خیمہ ی زر بفت باسیمیں طناب
مطلب: نیلے آسمان پر سورج نے سونے کے تاروں سے بنا ہوا خیمہ نصب کیا جس کی رسیاں چاندی کی طرح سفید تھیں ۔ (رسیوں سے مراد سورج کی کرنیں ہیں ) ۔
از افق صبح نخستیں سر کشید عالم نوزادہ را در بر کشید
مطلب: افق سے صبح نے سر نکالا اور نئے تخلیق شدہ جہان کو اپنی آغوش میں لے لیا یعنی طلوع و غروب اور صبح و شام کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔
ملک آدم خاکدانے بود و بس دشت و بے کاروانے بود و بس
مطلب: آدم کی دنیا اس وقت محض مٹی کا ایک گھر تھا ۔ اس کا بیابان بغیر کسی کاروان کے تھا ۔ دنیا میں زندگی کی کوئی رونق نہ تھی ۔
نے بکوہے آبجوے در ستیز نے بصحرائے سحابے ریز ریز
مطلب: نہ کسی پہاڑ ہی سے کوئی ندی نبرد آزما تھی (پہاڑ سے کوئی ندی نہیں نکلتی تھی) اور نہ کسی صحرا میں کوئی بادل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گردش کر رہا تھا ۔
نے سرود طائران در شاخسار نے رم آہو میان مرغزار
مطلب: نہ شاخوں پر پرندے چہچہا رہے تھے اور نہ سبزہ زار میں ہرن بھاگ دوڑ رہے تھے ۔
بے تجلی ہاے جان بحر و برش دود پیچان طیلسان پیکرش
مطلب: اس کائنات کے بحر و بر میں جان کی تجلیاں نہ تھیں ۔ اس کے جسم کی چادر اٹھتا ہوا دھواں تھا ۔
سبزہ باد فرودیں نادیدہ ئی اندر اعماق زمین خوابیدہ ئی
مطلب: یہاں کے سبزے نے ابھی موسم بہار کی ہوا نہیں دیکھی اور وہ زمین کی گہرائیوں میں سو رہا تھا ۔ (سبزہ اگنا شروع نہیں ہوا تھا ) ۔
طعنہ ئی زد چرخ نیلی بر زمین روزگار کس ندیدم این چنین
مطلب: نیلے آسمان نے زمین کو طعنہ دیا ۔ میں نے کسی کے حالات ایسے خراب نہیں دیکھے ۔
چون تو در پہنائے من کورے کجا جز بقندیلم ترا نورے کجا
مطلب: میری فضا کی وسعتوں میں تیرے جیسا اندھا کہاں ہے ۔ میری قندیل کے بغیر تیرے پاس روشنی کہاں ہے ۔ اندھا استعارہ ہے تاریکی کا ۔
خاک اگر الوند شد جز خاک نیست روشن و پائندہ چون افلاک نیست
مطلب: مٹی اگر الوند پہاڑ بن جائے تو بھی وہ مٹی ہی رہتی ہے ۔ وہ کبھی آسمانوں کی طرح روشن اور جاودانی نہیں ہو سکتی ۔
یا بزی با ساز و برگ دلبری یا بمیر از ننگ و عار کمتری
مطلب: اے زمین تو یا تو دلبری کے سازو سامان یعنی انداز سے زندگی بسر کر یا پھر اپنے کمتر ہونے کی شرم میں مر جا ۔
شد زمین از طعنہ گردون خجل نا امید و دل گران و مضمحل
مطلب: زمین، آسمان کی اس طعنہ زنی سے شرمسار ہو گئی اور مایوس اور بوجھل دل والی اور مضمحل ہو گئی ۔
پیش حق از درد بے نوری تپید تا ندا ز آنسوے گردون رسید
مطلب: وہ خدا کی بارگاہ میں اپنی بے نوری کے درد سے تڑپی، یہاں تک کہ آسمان کے اس پار سے یہ آواز آئی ۔
اے امینے از امانت بے خبر غم مخور، اندر ضمیر خود نگر
مطلب: اے امین تو اپنی امانت سے بے خبر ہے ، تو غم نہ کر اپنے ضمیر کے اندر نظر ڈال یعنی تجھ میں آدم آنے والا ہے جو ایک امانت ہے ۔
روز ہا روشن ز غوغاے حیات نے از آن نورے کہ بینی در جہات
مطلب: تیرے دن زندگی کے ہنگامے سے روشن ہو جائیں گے اور اس روشنی سے نہیں جو تجھے اپنے اطراف میں نظر آ رہی ہے ۔
نور صبح از آفتاب داغ دار نور جان پاک از غبار روزگار
مطلب: یہ جو صبح کی روشنی ہے یہ تو داغ دار سورج کی بنا پر ہے جبکہ نورِ جاں زمانے کے گردو غبار سے پاک ہے ۔
نور جان بے جادہ ہا اندر سفر از شعاع مہر و مہ سیار تر
مطلب: روح کا نور راستوں کے بغیر ہی سفر میں رہتا ہے ۔ وہ نورِ جاں سورج اور چاند کی شعاعوں سے بھی زیادہ تیز رفتار ہے ۔
شستہ ئی از لوح جان نقش امید نور جان از خاک تو آید پدید
مطلب: کیا تو (زمین )نے اپنی جان کی تختی سے امید کا نقش دھو ڈالا ہے ۔ نورِ جاں تیری مٹی ہی سے ظاہر ہو گا ۔ مطلب یہ کہ نا امید نہ ہو تیری مٹی ہی سے آدم وجود میں آئے گا ۔
عقل آدم بر جہان شبخون زند عشق او بر لامکان شبخون زند
مطلب: آدم کی عقل جہان پر شب خون مارے گی ۔ اس کا عشق لامکان پر شب خوں مارے گا ۔ یعنی اس کی عقل جہان کو مسخر کرے گی اور اس کا عشق آسمان کو بھی مسخر کر لے گا ۔
راہ دان اندیشہ ی او بے دلیل چشم او بیدار تر از جبرئیل
مطلب: اس آدم کا فکر کسی راہبر کے بغیر ہی صحیح راستہ جاننے والا ہو گا اور اس کی آنکھ جبرئیل سے بھی زیادہ بیدار ہو گی ۔
خاک و در پرواز مانند ملک یک رباط کہنہ در راہش فلک
مطلب: انسان ہے تو مٹی کا بنا ہوا لیکن پرواز میں وہ فرشتے کی مانند ہے ۔ آسمان اس کے راستے کی ایک پرانی سرائے کی مانند ہے ۔ (اس کے آگے زمان و مکان کی کوئی حیثیت نہیں وہ آگے ہی بڑھتا رہتا ہے) ۔
می خلد اندر وجود آسمان مثل نوک سوزن اندر پرنیان
مطلب: وہ (انسان) آسمان کے وجود میں اس طرح کھٹکتا ہے جس طرح سوئی کی نوک پر ریشمی کپڑے میں چبھی ہوئی ہوتی ہے ۔
داغہا شوید ز دامان وجود بے نگاہ او جہاں کور و کبود
مطلب: وہ وجود کے دامن سے داغ دھبے دھوتا ہے ۔ اس کی نگاہ کے بغیر یہ جہان اندھا اور تاریک ہے ۔
گرچہ کم تسبیح و خونریز است او روزگاراں را چو مہمیز است او
مطلب: اگرچہ وہ تسبیح نہیں کرتا یا کم کرتا ہے ۔ اور ایک دوسرے کا خون بہاتا ہے (ملاءکہ نے کہا تھا کہ ہم تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور آدم جھگڑالو اور خونریز ہے ) لیکن زمانوں کے لیے وہ مہمیز کا کام کرتا ہے (زمانے کی ترقی اس کی بدولت ہو گی ) ۔
چشم او روشن شود از کائنات تا بہ بیند ذات را اندر صفات
مطلب: اس کی آنکھ کائنات سے روشن ہو گی تا کہ وہ اس ذاتِ حق کو اس کی صفات کے اندر دیکھے گا ۔
ہر کہ عاشق شد جمال ذات را اوست سید جملہ موجودات را
مطلب: جو کوئی بھی اس ذاتِ حق کے جمال کا عاشق ہو گیا وہ ساری موجودات کا سردار ہو گیا ۔ (یہ شعر مولانا رومی کا ہے