(۶)
من اگرچہ تیرہ خاکم دلے است برگ و سازم بنظارہ جمالے چو ستارہ دیدہ بازم
مطلب: میں اگرچہ سیاہ مٹی ہوں یعنی ایک خاکی جسم ہوں لیکن اس خاکی جسم کے اندر جو ایک چھوٹا سا دل ہے وہی میرا سازوسامان ہے ۔ یہ دل جب روشن ہو جاتا ہے تو سارا جسم منور ہو جاتا ہے ۔ اے خدا میں تیرے حسن کے نظارہ کے لیے ایک ستارے کی طرح آنکھیں کھلی رکھتا ہوں ۔
بہ ہواے زخمہ تو ہمہ نالہ خموشم تو باین گمان کہ شاید ز نو افتادہ سازم
مطلب: میں تو تیری مضراب کی ضرب کی تمنا میں سر سے لے کر پاؤں تک خاموش فریاد ہوں اور تو اس خیال میں ہے کہ میرے ساز میں گیت ختم ہو گیا ہے ۔
بضمیرم آن چنان کن کہ ز شعلہ نواے دل خاکیان فروزم، دل نوریان گدازم
مطلب: اے خدا! تو میرے ضمیر پر ایسی نگاہِ کرم کر کہ اپنے آتش کلام سے خاک کے بنے ہوئے انسانوں کے دلوں کو منور کر دوں اور نوری مخلوق یعنی فرشتوں کے دلوں کو پگھلا کر انہیں بھی سوز و گداز کے لطف سے آشنا کر دوں ۔
تب و تاب فطرت، ما ز نیازمندی ما تو خداے بے نیازی ، نرسی بسوز و سازم
مطلب: ہماری فطرت میں جو بے چینی یعنی حرارت اور چمک ہے اے خدا! وہ ہماری تیرے ساتھ نیاز مندی کی وجہ سے ہے ۔ اے خدا! تو نیازمندی سے سراسر نا آشنا ہے اس لیے تو ہمارے سوز اور تڑپ تک نہیں پہنچ سکتا ۔
بکسے عیان نکردم ز کسے نہان نکردم غزل آنچنان سرودم کہ برون فتاد رازم
مطلب : میں نے اپنے رازوں کو نہ تو کسی پر عیاں کیا اور نہ ہی پوشیدہ رکھا ۔ میں نے غزل ہی اس انداز سے چھیڑی کہ میرے دل کے تمام راز ظاہر ہو گئے ۔
(۷)
بصداے درد مندے بنواے دلپذیرے خم زندگی کشادم بجہان تشنہ میرے
مطلب: میں نے اپنی دردمند اور دل پذیر آواز یعنی شاعری کے ذریعے زندگی کی شراب کا مٹکا دنیا کے لیے کھول دیا ہے یعنی جذبہَ عشق ان لوگوں تک پہنچا دیا ہے جو اس سے آشنا نہیں تھے ۔
تو بروے بے نواے درآن جہان کشادی کہ ہنوز آرزویش نہ دمیدہ در ضمیرے
مطلب: اے خدا! تو نے ایک بے نوا کے لیے اس دنیا کا دروازہ بھی کھول دیا جس کی تمنا بھی ابھی کسی دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی ۔
ز نگاہ سرمہ ساے بدل و جگر رسیدی چہ نگاہ سرمہ ساے دو نشانہ زد بہ تیرے
مطلب: اے خدا! تو اپنی سرمئی آنکھ کے ساتھ میرے دل اور جگر میں اُتر گیا ہے ۔ وہ سرمئی آنکھ کتنی خوبصورت ہے جس نے ایک تیر سے دو شکار کر لیے ۔
بنگاہ نارسایم چہ بہار جلوہ داری کہ بباغ و راغ نالم چو تدرو نو صفیرے
مطلب: تو نے اے خدا میری نگاہ نارسا کو اپنے جلووں کی کیسی بہار سے آشنا کر دیا ہے کہ میں باغوں اور سبزہ زاروں میں اس چکور کی طرح فریاد کر رہا ہوں جس نے ابھی ابھی بولنا سیکھا ہو ۔
چہ عجب اگر دو سلطان بہ ولایتے نہ گنجند عجب این کہ می نگنجد بدو عالمے فقیرے
مطلب: یہ بات عجیب نہیں کہ ایک مملکت میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے ۔ عجیب یہ ہے کہ ایک فقیر دونوں جہانوں میں نہیں سما سکتا ۔ دراصل صاحبِ فقیر کے لیے دونوں جہانوں کی وسعت بھی کم ہوتی ہے ۔
(۸)
بر سر کفر و دین فشان رحمت عام خویش را بند نقاب برکشا ماہ تمام خویش را
مطلب: اے خدا اہل کفر اور اہل ایمان دونوں پر اپنی رحمت عام نچھاور کر اور اپنے چودھویں کے چاند جیسے چہرے سے نقاب ہٹا دے ۔ کیونکہ تیری رحمت تو ہر ایک کے لیے ہے ۔ جب تیرے چہرے کے انوار و تجلیات مومن دیکھے گا تو اس کا ایمان اور مضبوط ہو گا اور جب اسے کافر دیکھیں گے تو یقینا تجھ پر ایمان لے آئیں گے
زمزمہ کہن سراے گردش بادہ تیز کن باز بہ بزم ما نگر آتش جام خویش را
مطلب: اقبال خدا سے التجا کرتے ہیں کہ پرانا گیت پھر سے گا اور شراب کی گردش کو تیز کر دے ۔ کیونکہ موجودہ زمانے نے لوگوں کو عشق خدا سے بیگانہ کر دیا ہے ۔ پھر ہماری محفل میں اپنے پیالے کی آگ کا اثر دیکھ ۔ پرانے گیت اور شراب سے مراد اپنے آبا و اجداد کی اقدار ہیں ۔
دام ز گیسوان بدوش زحمت گلستان بری صید چرا نمی کنی طائر بام خویش را
مطلب: تو اپنی زلفوں کے جال کندھوں پر پھیلا کر شکار کے لیے باغ میں جانے کی تکلیف کر رہا ہے تو اپنے مکان کی چھت پر بیٹھے ہوئے پرندے کا شکار کیوں نہیں کرتا ۔ تیرے عاشق کب سے تیری نگاہِ ناز کا تیر کھانے کو تیار بیٹھے ہیں ۔
ریگ عراق منتظر کشت حجاز تشنہ کام خون حسین باز دہ کوفہ و شام خویش را
مطلب: عراق کی ریت انتظار کر رہی ہے اور حجاز کے کھیت پیاسے ہیں ۔ کوفہ و شام کو پھر سے خونِ حسین کی ضرورت ہے ۔ حق کی آواز بلند کرنے والے کی ضرورت ہے ۔
دوش بہ راہبر زند، راہ یگانہ طے کند می ندہد بدست کس عشق زمام خویش را
مطلب: عشق کسی راہبر کے کندھوں کا محتاج نہیں ہوتا ۔ وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے ۔ عشق کسی اور کے ہاتھ میں اپنی لگا م بھی نہیں دیتا ۔
نالہ بآستان دیر بیخبرانہ می زدم تا بحرم شناختم راہ و مقام خویش را
مطلب: میں نے بت خانے کے در پر جا کر بے خبری میں آہ و فریاد کی پھر کہیں جا کر مجھے اپنے صحیح مقام اور راستے کا پتہ چلا ۔ مطلب یہ کہ برسوں دنیا کی غلامی کے بعد معلوم ہوا کہ اصل آقا تو اللہ ہی ہے جس کی غلامی پر فخر کیا جا سکتا ہے ۔
قافلہ بہار را طائر پیش رس نگر آنکہ بخلوت قفس گفت پیام خویش را
مطلب: اس پرندے کو دیکھ جو کاروانِ بہار کی آمد کی خوشخبری اس کے آنے سے پہلے دے دیتا ہے ۔ پنجرے میں بند وہ پرندہ بہار کی آمد کا پیغام دے رہا ہے ۔ یہاں شاعر اپنے آپ کو پنجرے میں بند پرندے کی طرح محسوس کر رہا ہے کیونکہ ہندوستان پر انگریز حکمران تھے اور آنے والے حالات دنیا میں تبدیلیوں کا اشارہ دے رہے تھے
(۹)
نواے من از ان پرسوز و بیباک و غم انگیز است بخاشاکم شرار افتادہ باد صبحدم تیز است
مطلب: میری فریاد سوزِ غم سے بھری ہوئی ، بے خوف اور غم اُبھارنے والی ہے ۔ کیونکہ میرے حسن و خاشاک میں چنگاری گری ہوئی ہے اور صبح کی ہوا بھی تیز ہے ۔ (اس تیز ہوا سے آگ بھڑک اٹھے گی اور مجھے ہر آلائش سے پاک کر دے گی) ۔
ندارد عشق سامانے ولیکن تیشہ دارد خراشد سینہ کہسار و پاک از خون پرویز است
مطلب: عشق کے پاس کوئی سامان نہیں ہوتا لیکن وہ ایسا تیشہ ضرور رکھتا ہے جس سے پہاڑ کا سینہ چیر دے ۔ لیکن پرویز کے خون سے بھی پاک رہتا ہے ۔ اس شعر میں شاعر نے شیریں اور فرہاد کی خوبصورت تلمیح کا استعمال کر کے بتایا ہے کہ جس طرح فرہاد نے شیریں کو حاصل کرنے کے لیے پہاڑ سے دودھ کی نہر نکالنے کی شرط منظور کر لی تھی اور بادشاہ خسرو پرویز کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا ۔ اسی طرح سچا عشق بھی اپنے پاس کوئی ایسا سامان نہیں رکھتا جس سے کسی کو نقصان کا اندیشہ ہو ۔
مرا در دل خلید این نکتہ از مرد ادا دانے ز معشوقان نگہ کاری تر از حرف دلآویز است
مطلب: ایک مردِ رمز شناس کی بات میرے دل میں چبھ گئی ہے وہ یہ کہ معشوق کی نظر کسی کا دل لبھانے والے بول سے زیادہ اثر آفریں ہوتی ہے (مردِ رمز شناس سے مراد کامل مرد ہے جس کی نگاہ مٹی کو سونے میں تبدیل کر سکتی ہے) ۔
بہ بالینم بیا یکدم نشیں کز درد مہجوری تہی پیمانہ بزم ترا پیمانہ لبریز است
مطلب: اے میرے محبوب میرے سرہانے آ کر بیٹھ جا کیونکہ تیرے غم ہجر کی وجہ سے تیری محفل میں خالی جام رکھنے والا یعنی تیری شراب وصل سے محروم تیرا یہ عاشق اپنی زندگی کا جام بھر چکا ہے یعنی اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ۔
بہ بستان جلوہ دادم آتش داغ جدائی را نسیمش تیز تر می سازد و شبنم غلط ریز است
مطلب: میں اپنے ہجر کے داغ کی آگ باغ میں لے گیا اس امید کے ساتھ کہ شاید یہ باغ کی ٹھنڈی ہوا سے سرد ہو جائے ۔ لیکن باغ کی نرم و لطیف ہوا اس آگ کو اور تیز کر رہی ہے اور شبنم بھی اسے بجھانے میں ناکام رہی ہے ۔
اشارتہاے پنہان خانمان برہم زند لیکن مرا آن غمزہ می باید کہ بیباک است و خونریز است
مطلب: محبوب کے پوشیدہ اشارے اگرچہ عاشق کا گھر برباد کر دیتے ہیں ۔ مجھے تو محبوب کے ایسے ناز و ادا چاہیں جو مجھے برباد کرنے میں کسی قسم کا خوف محسوس نہ کرے اور خون بہانے سے دریغ نہ کرے ۔
نشیمن ہر دو را در آب و گل لیکن چہ رازست این خرد را صحبت گل خوشتر آید، دل کم آمیز است
مطلب: دونوں کا گھر پانی اور مٹی میں ہے یعنی دونوں اس خاک کے پتلے انسان کے اندر ہیں لیکن یہ کیا راز ہے کہ عقل کو مٹی کی صحبت زیادہ اچھی لگتی ہے یعنی وہ مادی اشیاء کی محبت میں مبتلا رہتی ہے جبکہ دل کا اس سے کوئی تعلق نہیں (دل سے یہاں مراد ایسا دل ہے جو دنیاوی آلائشوں سے پاک ہو اور عشقِ حقیقی اس میں سمایا ہوا ہو) ۔
مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمے بینی برہمن زادہ رمز آشناے روم و تبریز است
مطلب: میری طرف دیکھ کہ ہندوستان میں تو دوبارہ نہیں دیکھ پائے گا کہ ہے تو وہ برہمنوں کی اولاد لیکن وہ مولانا جلال الدین رومی اور شمس الدین تبریزی کے معارف و حقائق کا شناسا ہے ۔
(۱۰)
دل و دیدہ کہ دارم ہمہ لذت نظارہ چہ گنہ اگر تراشم صنمے ز سنگ خارہ
مطلب: اے میرے محبوب تو میری نظروں کے سامنے نہیں ہے اور میں یہ جو دل اور آنکھیں رکھتا ہوں وہ تیرے دیدار کا نظارہ کرنے کی تمنا کی مکمل لذت لیے ہوئے ہیں (تو چونکہ پنہاں ہے اور مجھے اپنے دیدار کی نعمت سے محروم کر رکھا ہے ) اس لیے اگر میں نے سخت پتھر سے تیرا یہ خیالی بت تراش لیا ہے تو اس میں کونسی ایسی برائی ہے
تو بجلوہ در نقابی کہ نگاہ بر نتابی مہ من اگر ننالم تو بگو دگر چہ چارہ
مطلب: اے خدا! سامنے ہونے کے باوجود پوشیدہ ہے اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ تو ہمارے ذوقِ نظارہ کی تاب نہیں لا سکتا ۔ اے میرے چاند ایسی صورت میں جبکہ میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں تو میری نگاہوں سے اوجھل ہے ۔ میں اگر آہ و زاری کروں یا نہ کروں تو میرے لیے اس کے علاوہ اب اور چارہ ہی کیا (محبوب جلوہ کناں اس لیے ہے کہ کائنات کے ہر ذرے میں موجود ہے اور پوشیدہ اس اعتبار سے ہے کہ وہ ہماری ظاہری نظروں سے اوجھل ہے) ۔
چہ شود اگر خرامی بسراے کاروانے کہ متاع ناروانش دلکے است پارہ پارہ
مطلب: اے محبوب وہ کیا منظر ہو گا جب تو اس کارواں سرائے میں خود چل کر آ جائے ۔ جس کی بے کار دولت ایک ٹکڑے ٹکڑے چھوٹا سا دل ہے ۔ مطلب یہ کہ عاشق کے پاس ٹوٹے پھوٹے دل کی دولت کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ اگر اس تہی دامن عاشق کی طرف محبوب توجہ کرے گا تو اس کے بگڑے کام سنور جائیں گے ۔
غزلے زدم کہ شاید بہ نوا قرارم آید تب شعلہ کم نگردد ز گسستن شرارہ
مطلب: میں نے تو غزل اس لیے چھیڑی تھی کہ شاید اس طرح فریاد کرنے سے میرے بے قرار دل کو چین نصیب ہو جائے لیکن ایک چنگاری کے نکل جانے سے شعلے کی حرارت و تپش پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔
دل زندہ کہ دادی بہ حجاب در نسازد نگہے بدہ کہ بیند شررے بسنگ خارہ
مطلب: تو نے مجھے جو زندہ دل دیا ہے اسے تیرا پردے میں رہنا گوارا نہیں ہے ۔ وہ تو تجھے اپنے سامنے صاف صاف دیکھنا چاہتا ہے ۔ اگر تو مجھے اپنا جلوہ دکھانا نہیں چاہتا تو پھر مجھے ایسی نگاہ بخش دے جو سخت پتھر کے اندر پوشیدہ شرارے کو بھی دیکھ لے ۔
ہمہ پارہ دلم را ز سرور او نصیبے غم خود چسان نہادی بہ دل ہزار پارہ
مطلب: میرے دل کا ہر ٹکڑا (محبوب کی شراب عشق) کے سرور سے اپنا نصیب بناتا ہے ۔ میں حیران ہوں کہ اے خدا تو نے اپنے عشق کا غم ہزار ٹکڑوں میں تقسیم اس دل میں کس طرح رکھ دیا ۔
نکشد سفینہ کس بہ یمے بلند موجے خطرے کہ عشق بیند بسلامت کنارہ
مطلب: کسی کی کشتی بلند و بالا موجوں والے سمندر میں وہ خطرہ نہیں دیکھتی جو خطرہ اسے عشق کے سمندر کے کنارے کی سلامتی میں نظر آتا ہے ۔
بشکوہ بے نیازی ز خدایگان گزشتم صفت مہ تمامے کہ گزشت بر ستارہ
مطلب: میں اپنی بے نیازی کے باعث اس دنیا کے خداؤں سے بے پرواہ رہا ۔ چودھویں رات کے چاند کی طرح جو ستاروں کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھ جاتا ہے میں بھی دنیاوی جاہ و جلال ، دولت اقتدار اور حرص جیسے خداؤں سے بچ کر گزر گیا ۔