پس چہ باید کرد اے اقوام شرق
(تو پھر اے مشرقی اقوام اب کیا کرنا چاہیے)
آدمیت زار نالید از فرنگ زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ
مطلب: نوع انسان فرنگیوں کے ہاتھوں بڑی ہی نالاں ہے (سخت فریاد کر رہی ہے) زندگی نے اہل فرنگ سے کئی ہنگامے پائے ہیں ۔
پس چہ باید کرد اے اقوام شرق باز روشن می شود ایام شرق
مطلب: تو پھر اے مشرقی اقوام اب کیا ہونا چاہیے تاکہ مشرق کا دور پھر سے روشن ہو جائے ۔
در ضمیرش انقلاب آمد پدید شب گزشت و آفتاب آمد پدید
مطلب:اسکے ضمیر میں انقلاب رونما ہو چکا ہے ۔ رات گزر گئی اور سورج طلوع ہو چکا ہے ۔
یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد زیر گردوں رسم لادینی نہاد
مطلب: یورپ تو اپنی تلوار ہی سے گھائل ہو چکا ہے، اس نے دنیا میں لادینی کی رسم کی بنیاد رکھ دی ہے ۔
گرگے اندر پوستین برہ ئی ہر زمان اندر کمین برہ ئی
مطلب: وہ تو میمنے کی کھال میں ایک ایسا بھیڑیا ہے جو ہر لحظہ میمنے ہی کی گھات میں ہے ۔
درنگاہش آدمی آب و گل است کاروان زندگی بے منزل است
مطلب : اس کی نگاہ میں آدمی محض مٹی کا پتلا ہے اور زندگی کا قافلہ بس یونہی اور بے مقصد رواں ہے ۔
ہر چہ می بینی ز انوار حق است حکمت اشیا ز اسرار حق است
مطلب: جو کچھ تو دیکھتا ہے وہ سب حق تعالیٰ کے انوار سے ہے ۔ اشیا کی حکمت حق کے اسرار میں سے ہے ۔
ہر کہ آیات خدا بیند حر است اصل این حکمت ز حکم انظر است
مطلب: جو کوئی خدا کی نشانیاں دیکھ لے وہ مرد حر ہے، اس حکمت کی بنیاد حکم انظر ہے ۔
بندہ مومن ازو بہروز تر ہم بہ حال دیگران دل سوز تر
مطلب: مرد مومن نے اس حکمت سے وافر حصہ پایا ہے، اور دوسروں کے معاملے میں بھی بے حد خیر خواہ اور ہمدرد ہے ۔
علم چون روشن کند آب و گلش از خدا ترسندہ تر گردد دلش
مطلب: جب علم اس کے وجود کو منور کرتا ہے تو اس کے قلب میں اور زیادہ خوف خدا جاگزین ہوتا ہے ۔
علم اشیا خاک ما را کیمیاست آہ در افرنگ تاثیرش جداست
مطلب: اشیا کا علم ہماری خاک کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے، لیکن افسوس کہ یورپ میں اس کی تاثیر مختلف انداز میں ظاہر ہوئی ۔
عقل و فکرش بے عیار خوب و زشت چشم او بے نم دل او سنگ و خشت
مطلب: اس کی عقل اور فکر نے نیکی و بدی کا امتیاز چھوڑ دیا اس کی آنکھ بے نم ہو گئی اور اس کا دل پتھر اور اینٹ کی طرح سخت ہو گیا ۔
علم ازو رسواست اندر شہر و دشت جبرئیل از صحبتش ابلیس گشت
مطلب: اس کی وجہ سے علم آبادی و بیابان میں رسوا ہو گیا ہے ۔ اس کی صحبت میں رہ کر جبرئیل پر بھی ابلیسیت کی چھاپ لگی گئی ہے ۔
دانش افرنگیان تیغے بدوش در ہلاک نوع انسان سخت کوش
مطلب: اہل مغرب کی دانش تو ایسے ہی ہے جیسے کندھے پر تلوار ہو، یہ بنی نوع انسان کی ہلاکت کے درپے ہے ۔
باخسان اندر جہان خیر و شر در نسازد مستی علم و ہنر
مطلب: اس نیکی اور بدی کی دنیا میں علم و ہنر کی مستی گھٹیا لوگوں یا قوموں کے لیے سازگار نہیں ۔
آہ از افرنگ و از آئین او آہ از اندیشہ لادین او
مطلب: افسوس ہے اہل مغرب پر اور ان کے آئین پر، اور افسوس ہے اس کے لادین فکر پر ۔
علم حق را ساحری آموختند ساحری نے کافری آموختند
مطلب: انھوں نے تو علم حق کو بھی جادو بنا دیا، جادو ٹونا بھی نہیں بلکہ کافری سکھا دی ہے ۔
ہر طرف صد فتنہ می آرد نفیر تیغ را از پنجہ رہزن بگیر
مطلب: اس کے ہر طرف سینکڑوں فتنے کھڑے کر دیے ہیں ۔ اس لٹیرے کے ہاتھ سے تلوار چھین لینی چاہیے ۔
اے کہ جان را باز می دانی ز تن سحر این تہذیب لادینے شکن
مطلب: تو کہ روح کو جسم سے الگ سمجھتا ہے ، اس لادین تہذیب کے جادو کو توڑ دے ۔
روح شرق اندر تنش باید دمید تا بگردد قفل معنی را کلید
مطلب: اس کے بدن میں مشرقی روح پھونکنی چاہیے، تاکہ وہ حقیقت کے قفل کی چابی بن جائے ۔
عقل اندر حکم دل یزدانی است چون ز دل آزاد شد شیطانی است
مطلب: عقل اگر دل کے حکم کے اندر رہے تو وہ خدائی قوت ہے اور اگر دل سے آزاد ہو جائے تو شیطانی قوت بن جاتی ہے ۔
زندگانی ہر زمان در کش مکش عبرت آموز است احوال حبش
مطلب: زندگی ہر لمحہ کش مکش میں ہے ۔ حبشہ کے حالات عبرت آموز ہیں (مسولینی نے حبشہ پر حملہ کیا تو اقوام یورپ خاموش رہیں ) ۔
شرع یورپ بے نزاع قیل و قال برہ را کرد است بر گرگان حلال
مطلب: یورپ کی شرع نے کسی مقدمے اور دلیل کے بغیر میمنے کو بھیڑیوں کے لیے حلال قرار دیا ہے ۔
نقش نو اندر جہان باید نہاد از کفن دزدان چہ امید کشاد
مطلب: دنیا میں نیا قانون جاری کرنا چاہیے، کیونکہ ان کفن چوروں سے بہتری کی کوئی امید نہیں ۔
در جنیوا چیست غیر از مکر و فن صید تو این میش و آن نخچیر من
مطلب: جنیوا میں (جمیعت اقوام کا مرکز) میں مکر و فریب کے سوا اور کیا ہےیہی کہ اس کو تو شکار کر لے اور اسے میں کر لوں ۔
نکتہ ہا کو می نہ گنجد در سخن یک جہان آشوب و یک گیتی فتن
مطلب: ایسے نکتے ہیں جو الفاظ میں نہیں سما سکتے ۔ بس دنیا بھر کے فساد اور جہان بھر کے فتنے ہیں ۔
اے اسیر رنگ پاک از رنگ شو مومن خود، کافر افرنگ شو
مطلب: تو جو رنگ اور نسل کا غلام ہے اس سے (رنگ و نسل کے چکر سے ) آزاد ہو جا ۔ اپنی تعلیمات پر ایمان لے آ اور یورپ کا منکر بن جا ۔
رشتہ سود و زیان در دست تست آبروئے خاوران در دست تست
مطلب: نفع اور نقصان کا معاملہ تیرے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ مشرق کی آبرو تیرے ہاتھ میں ہے ۔
این کہن اقوام را شیرازہ بند رایت صدق و صفا را کن بلند
مطلب: ان پرانی اقوام کو پھر اکھاڑ کر اور صدق و صفا کا جھنڈا بلند کر ۔
اہل حق را زندگی از قوت است قوت ہر ملت از جمیعت است
مطلب: اہل حق کی زندگی کا دارومدار قوت پر ہے، ہر ملت کی قوت اس کی جمیعت پر موجود ہے
راے بے قوت ہمہ مکر و فسون قوت بے رائے جہل است و جنون
مطلب: قوت نہ ہو تو رائے محض مکر و فسوں ہے اور بغیر رائے کے قوت جہالت اور پاگل پن ہے ۔
سوز و ساز و درد و داغ از آسیاست ہم شراب و ہم ایاغ از آسیاست
مطلب: سوز و ساز اور درد و داغ ایشیاء سے ہے ۔ شراب بھی انہی (ایشا والوں ) کی ہے اور پیالہ بھی انہی کا (سارے انبیا ایشیا میں پیدا ہوئے) ۔
عشق را ما دلبری آموختیم شیوہ آدم گری آموختیم
مطلب: ہم نے عشق کو دلبری (ایشیا والوں ) نے سکھائی ہے ۔ آدم گری (شخصیت سازی) کا انداز بھی ہمارا ہی سکھایا ہوا ہے ۔
ہم ہنر ہم دین ز خاک خاور است رشک گردون خاک پاک خاور است
مطلب: ہنر بھی اور دین بھی مشرق ہی کی سرزمین سے پیدا ہوئے ۔ مشرق کی خاک پاک پر آسمان بھی رشک کرتا ہے ۔
وا نمودیم آنچہ بود اندر حجاب آفتاب از ما و ما از آفتاب
مطلب: جو کچھ مخفی تھا اسے ہم نے باہر نکال کے رکھ دیا ۔ سورج ہم سے ہے اور ہم سورج سے ہیں ۔
ہر صدف را گوہر از نیسان ماست شوکت ہر بحر از طوفان ماست
مطلب: ہر صدف کے اندر کا موتی ہماری ہی بارش کے قطرے سے پیدا ہوا ۔ ہر سمندر کے شان و شوکت ہمارے ہی طوفان سے ہے ۔
روح خود در سوز بلبل دیدہ ایم خون آدم در رگ گل دیدہ ایم
مطلب: ہم نے اپنی روح بلبل کے سوز میں بولتی دیکھی ہے ۔ پھول کے رگ و ریشہ میں ہم نے آدم کا خون دوڑتا دیکھا ہے ۔
فکر ما جویاے اسرار وجود زد نخستیں زخمہ بر تار وجود
مطلب: ہماری فکر وجود کے اسرار کی جویا تھی ۔ ہماری ہی فکر نے وجود کے تار پر پہلے پہل ضرب لگائی تھی ۔
داشتیم اندر میان سینہ داغ برسر راہے نہادیم این چراغ
مطلب: ہمارے سینے میں داغ (محبت) تھا جسے ہم نے چراغ کی صورت میں سرراہے رکھ دیا ۔
اے امین دولت تہذیب و دین آن ید بیضا بر آر از آستین
مطلب: (اے ایشیا) تو جو تہذیب اور دین کی دولت کا امین ہے پھر وہی یدبیضا اپنی آستین سے باہر نکال ۔
خیز و از کار امم بکشا گرہ نشہ افرنگ را از سربنہ
مطلب: اٹھ اور قوموں کے معاملات کو سلجھا اور مغرب کا نشہ سر سے اتار پھینک ۔
نقشے از جمیعت خاور فگن واستان خود را از دست اہرمن
مطلب: اتحاد مشرق کی کوئی بنیاد ڈال ۔ اپنے آپ کو اہرمن (شیطان) کے پنجے سے چھڑا لے ۔
دانی از افرنگ و از کار فرنگ تا کجا در قید زنار فرنگ
مطلب: تو فرنگیوں کو بھی سمجھتا ہے اور ان کے کام کو بھی تو پھر کب تک ان کی زنار کی قید میں رہے گا
زخم ازو نشتر ازو سوزن ازو ما و جوے خون و امید رفو
مطلب: زخم لگانے والا بھی وہ (یورپ) ہے، نشتر بھی اس کا اور سوئی بھی اس کی ہے ۔ ادھر ہم ہیں اور خون کی ندی ہے اور اسی سے زخموں کے سینے کی امید رکھے ہوئے ہیں ۔
خود بدانی بادشاہی قاہری است قاہری در عصر ما سوداگری است
مطلب: تو خود جانتا ہے کہ بادشاہی قاہری ہے ، اور یہ قاہری ہمارے دور میں سوداگری ہے ۔
تختہ دکان شریک تخت و تاج از تجارت نفع و از شاہی خراج
مطلب: آج کل دکانداری تخت و تاج کی شریک بن گئی ہے ۔ تجارت سے نفع حاصل کرتے ہیں اور بادشاہت خراج وصول کر رہی ہے ۔
آن جہانبانے کہ ہم سوداگر است بر زبانش خیر و اندر دل شراست
مطلب: وہ حکمران جو سوداگر بھی ہے اس کی زبان پر بھلائی کی باتیں ہیں مگر دل کے اندر شر ہے ۔
گر تو میدانی حسابش را درست از حریرش نرم تر کرپاس تست
مطلب: اگر تو اس کے معاملے کو اچھی طرح جان لے تو تجھے معلوم ہو گا کہ اس کے ریشم سے تیرا اپنا سوتی کپڑا کہیں زیادہ ملائم ہے ۔
بے نیاز از کارگاہ او گزر در زمستان پوستین او مخر
مطلب: تو ان کی طرف توجہ نہ دے، بے اعتنا ہو جا ۔ سردیوں میں اس کی پوستین بھی نہ خرید ۔
کشتن بے حرب و ضرب آئین اوست مرگہا در گردش ماشین اوست
مطلب: بغیر کسی جدال و قتال کے مار ڈالنا اس کا دستور ہے ۔ اس کی مشینری کی گردش میں کئی اموات پوشیدہ ہیں ۔
بوریاے خود بہ قالینش مدہ بیذق خود را بہ فرزینش مدہ
مطلب: اپنا بوریا اس کے قالین کے عوض مت دے ۔ اپنے پیادے کو اس کے وزیر کے بدلے میں نہ دے ۔
گوہرش تف دار و در لعلش رگ است مشک این سوداگر از ناف سگ است
مطلب: اس کا موتی عیب دار اور اس کا لعل نقص والا ہے ۔ یہ سوداگر جو اپنی کستوری بیچ رہا ہے وہ ہرن کی بجائے کتے کی ناف سے حاصل کرتا ہے ۔
رہزن چشم تو خواب مخملش رہزن تو رنگ و آب مخملش
مطلب: اس کی مخملیں بستر پر سونے سے آنکھ کی بینائی چلی جاتی ہے ۔ اس کی مخمل کی چمک اور اس کا رنگ تجھے لبھا کر لوٹ لینے والا ہے ۔
صد گرہ افگندہ درکار خویش از قماش او مکن دستار خویش
مطلب: تو نے تو اپنے کام میں سو الجھنیں ڈال لی ہیں ۔ اس کی قماش سے اپنی پگڑی مت بنا ۔
ہوشمندے از خم او مے نخورد ہر کہ خورد اندر ہمیں میخانہ مرد
مطلب: کوئی سمجھدار اس کی صراحی سے شراب نہیں پیتا ۔ اور جس کسی نے پی لی وہ بس اسی شراب خانے کے اندر مر جاتا ہے ۔
وقت سودا خندخند و کم خروش ما چو طفلانیم و او شکر فروش
مطلب: کاروبار کرتے وقت ہنس ہنس کر باتیں کرتا ہے اور ذرا بھی چیختا چلاتا نہیں ۔ ہم تو اس کے سامنے بچوں کی طرح ہیں جبکہ وہ مٹھائی بیچنے والے کی مانند ۔
محرم از قلب و نگاہ مشتری است یارب این سحر است یا سوداگری است
مطلب: وہ گاہک کے دل و نگاہ کو پوری طرح پڑھنا جانتا ہے ۔ خدایا یہ سوداگری ہے یا جادوگری ۔
تاجران رنگ و بو بردند سود ما خریداران ہمہ کور و کبود
مطلب: رنگ و بو (ظاہری چمک دمک) کے سوداگر تو نفع کما کر لے گئے اور ہم خریدار اندھے کے اندھے ہی رہ گئے ۔
آنچہ از خاک تو رست اے مرد حر آن فروش و آن بپوش و آن بخور
مطلب: اے مرد حر جو کچھ تیری زمین سے پیدا ہوتا ہے اسے بیچ ۔ وہی کچھ پہن اور وہی کچھ کھا ۔
آن نکوبینان کہ خود را دیدہ اند خود گلیم خویش را بافیدہ اند
مطلب: وہ جو سمجھدار لوگ جو اپنے آپ کو پہچانتے ہیں وہ اپنی لوئی کو خود بنتے ہیں ۔
اے ز کار عصر حاضر بے خبر چرب دستیہاے یورپ را نگر
مطلب: تو جو اس دور کے معاملے سے بے خبر ہے ذرا یورپ کی کاریگریوں کو سمجھ ۔
قالین از ابریشم تو ساختند باز او را پیش تو انداختند
مطلب: وہ تیرے ریشم سے قالین بنتا ہے ۔ پھر تیرے ہی سامنے اسے فروخت کے لیے پیش کر دیتا ہے ۔ تیرے یہاں ہی لا کر ڈال دیا ۔
چشم تو از ظاہرش افسون خورد رنگ و آب او ترا از جا برد
مطلب: تیری نگاہیں اس کے ظاہر سے دھوکا کھا رہی ہیں ، اس کی ظاہری چمک دمک نے تجھے اپنے مقام سے گرا دیا ہے ۔
واے آن دریا کہ موجش کم تپید گوہر خود را از غواصان خرید
مطلب: افسوس ہے اس سمندر پر جس کی موجوں میں جوش و خروش نہ رہا ۔ جس نے اپنے ہی موتی کو غوطہ خوروں سے خریدا ۔