Please wait..

نوای وقت(زمانے کا گیت)
وقت کہتا ہے

 
خورشید بہ دامانم ، انجم بہ گریبانم
در من نگری ہیچم، در خود نگری جانم

مطلب: میرے دامن میں سورج، میرے گریبان میں ستارے ہیں اگر تو مجھے دیکھے تو میں کچھ بھی نہیں (یعنی نظر نہیں آتا) ۔ اگر تو اپنے آپ میں جھانکے (اگر تو اپنے من میں ڈوب کر معلوم کرنا چاہے) تو میں تیری جان ہوں ۔

 
در شہر و بیابانم در کاخ و شبستانم
من دردم و درمانم، من عیش فروانم
من تیغ جہاں سوزم، من چشمہ حیوانم

مطلب: شہر اور بیابان میں ہوں ، میں حجرے اورر ایوان میں ہوں ۔ میں دکھ ہوں اور سکھ کا دارو ، میں سکھ کا انبار ہوں ۔ مطلب: میں دنیا پھونکنے والی تلوار ہوں ، میں زندگی کا آب حیات کا چشمہ بھی ہوں یعنی یہ سب کچھ میری وجہ سے ہے اگر میں نہ ہوتا تو کہیں زندگی نہ ہوتی ۔ کوئی شے میری دسترس اور گرفت سے باہر نہیں ۔ میں ساری کائنات پر حکمران ہوں ۔

 
چنگیزی و تیموری ، مشتی ز غبار من
ہنگامہ ی افرنگی ، یک جستہ شرار من 

مطلب: چنگیز کی آندھی اور تیمور کا جھکڑ میرے اڑائے ہوئے غبار کی ایک مٹھی ہے ۔ فرنگیوں کا ہنگامہ میری ہی آگ سے نکلی ہوئی ایک چنگاری ہے ۔

 
انسان و جہان او، از نقش و نگار من
خون جگر مردان، سامان بہار من
من آتش سوزانم، من روضہ ی رضوانم

مطلب: انسان اور اس کا عالم میرے بنائے ہوئے بیل بوٹے، جوان مردوں کا خون جگر میری ہی بہار کا سامان ہے ۔ میں جلا دینے والی آگ ہوں ، میں رضوان کا باغ (بہشت ہوں ) ۔

 
آسودہ و سیارم، این طرفہ تماشا بین
در بادہ ی امروزم، کیفیت فردا بین

مطلب: میں ساکن بھی ہوں اور گردش میں بھی ، یہ انوکھا تماشا دیکھ ۔ میں متضاد صفات کا حامل ہوں ۔ میری آج کی شراب میں آنے والے کل کی مستی دیکھ ۔

 
پنہان بہ ضمیر من، صد عالم رعنا بین
صد کوکب غلطان بین، صد گنبد خضرا بین
من کسوت انسانم، پیراہن یزدانم

مطلب: میرے ضمیر کے اندر چھپے ہوئے سینکڑوں خوشنما عالم دیکھ ۔ سینکڑوں چمکتے ہوئے ستارے، سینکڑوں آسمان (گردش میں ہیں ) (خدا کی خدائی کا اظہار میری ہی وساطت سے ہوتا ہے) ۔ میں انسان کی پوشاک ہوں ۔ میں خدا کا لباس ہوں ۔ (یعنی خدا کی خدائی کا اظہار میری ہی وساطت سے ہوتا ہے ۔ انسان زمان و مکان کی قید میں رہ کر روحانی ترقی کرتا ہے) ۔

 
تقدیر فسون من، تدبیر فسون تو
تو عاشق لیلائی ، من دشت جنون تو

مطلب: تقدیر میرا جادو ہے، تدبیر تیرا ٹوٹکا (طریقہ) ہے ۔ جسے تو تقدیر کہتا ہے وہ میرے ہی ایک مخصوص فعل کا دوسرا نام ہے ۔ تو لیلیٰ کا عاشق ہے ، میں تیرے جنوں کا صحرا ہوں ۔

 
چون روح روان پاکم، از چند و چگون تو
تو راز درون من، من راز درون تو
از جان تو پیدایم، در جان تو پنہانم

مطلب: میں زندہ اور آزاد روح کی طرح تیرے کیسے اور کتنے کے بکھیڑوں سے پاک ہوں ۔ تو میرے باطن کا راز ہے میں تیرے اندر کا بھید ہوں ۔ (زمان کی حقیقت سے وہی شخص آگاہ ہو سکتا ہے جو اپنی حقیقت (خودی) سے آگاہ ہو ۔ جو اپنی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے وہ اپنے خدا کی معرفت حاصل کر لیتا ہے ۔ لہذا خدا، خودی اور زمانہ تینوں ایک ہی حقیقت کے تین مختلف پہلو ہیں ) مطلب: میں تیری جان سے ظاہر ہوں اور تیری روح میں پوشیدہ ہوں (پس اگر تو میری حقیقت سے آگاہ ہونا چاہتا ہے تو اپنی معرفت حاصل کر) ۔

 
من رہرو و تو منزل، من مزرع و تو حاصل
تو ساز صد آہنگی ، تو گرمی این محفل

مطلب: اے انسان! حقیقت حال یہ ہے کہ میں مسافر ہوں اور تو منزل، میں کھیتی ہوں اور تو فصل تو بے شمار نعمتوں سے بھرا ہوا ہے ۔ اس محفل کی رنگارنگی اور رونق تیرے ہی دم سے ہے ۔

 
آوارہ ی آب و گِل ، دریاب مقام دل
گنجیدہ بہ جامی بین این قلزم بی ساحل
از موج بلند تو، سربر زدہ طوفانم

مطلب: اے مٹی اور پانی کے بیچ بھٹکنے والے! دل کا ٹھکانا پہچان ۔ اے پیالے میں سمایا ہوا یہ بے کنار سمندر دیکھ ۔ (یعنی تو جو کچھ کرتا ہے یہ دراصل میری ہی تخلیقی فاعلیت ہے جو تیرے واسطہ سے ظاہر ہوتی ہے ۔ میں اس لیے ہر قسم کی فاعلیت میں مصروف ہوں کہ تو مرتبہ کمال کو پہنچ سکے ۔ گرمی محفل بن جائے یعنی تسخیر کائنات میں مشغول ہو جائے) ۔ میں تیری ہی اونچی لہر سے برپا ہونے والا طوفان ہوں ۔ (تیرا دل اس قدر وسیع ہے کہ یہ ساری کائنات اس میں سما سکتی ہے ۔ یاد رکھ میرا وجود تیری ہی جدوجہد سے ظاہر ہو سکتا ہے ۔ یعنی اگر تو اپنی خودی کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچائے گا تو میرا وجود تجھ پر آشکار نہیں ہو سکے گا ۔ )