غزل نمبر۲۱
فریب کشمکش عقل دیدنی دارد کہ میر قافلہ و ذوق رہزنی دارد
مطلب: عقل کی کشمکش کا فریب دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ سالار کارواں ہے مگر رہزنی کا چسکا رکھتی ہے ۔
نشان راہ ز عقل ہزار حیلہ مپرس بیا کہ عشق کمالے ز یک فنی دارد
مطلب: ایک طرف تو انسانی عقل رہنمائی کی مدعی ہے دوسری طرف یہی عقل انسان کو غلط راستہ پر لے جانا چاہتی ہے ۔ زندگی کا مسئلہ سلجھانے کے بجائے اور الجھاتی ہے ۔ عقل جو ہزار حیلوں کی مالک ہے سے راستے کا پتہ مت پوچھ ۔ عشق کی طرف آ جو یک فنی کی وجہ سے کمال رکھتا ہے (عشق ایک فن ہے یعنی صرف نشاندہی کا فن جانتا ہے) ۔
فرنگ گرچہ سخن با ستارہ میگوید حذر کہ شیوہ او رنگ جوزنی دارد
مطلب: اگرچہ اہل فرنگ ستاروں سے باتیں کرتے ہیں مگر خبردار ان سے بچ کیونکہ ان کے انداز میں ساحری رنگ ہے ۔
ز مرگ و زیست چہ پرسی درین رباط کہن کہ زیست کاہش جان ، مرگ جانکنی دارد
مطلب: تو اس پرانی سرائے میں موت اور زندگی کا کیا پوچھتا ہے زندگی جان کا گھلنا ہے اور موت جان کا کھینچ کھینچ کر نکلنا ہے ۔
سر مزار شہیدان یکے عنان در کش کہ بے زبانی، ما حرف گفتنی دارد
مطلب:(اے شہسوار اپنے) شہیدوں کے مزار پر ایک پل کو باگ کھینچ کہ ہماری بے زبانی کچھ کہنے کو ہے ۔
دگر بدشت عرب خیمہ زن کہ بزم عجم مے گزشتہ و جام شکستنی دارد
مطلب: (ایک بار) پھر عرب کے صحرا میں خیمہ لگا کہ عجم کی محفل میں شراب ہے سو جوٹھی اور پیالہ ہے سو اب ٹوٹا کہ تب ۔
نہ شیخ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد
مطلب: اقبال نہ شہر کا پیشوا ہے نہ شاعر نہ صوفی، وہ راستے پر بیٹھا ہوا فقیر ہے مگر دل غنی رکھتا ہے(کسی سے کچھ طلب نہیں کرتا) نوٹ: اقبال نے ازراہ انکسار اپنے آپ کو فقیر راہ نشیں لکھا ہے حالانکہ وہ ایک درویش گوشہ نشین تھے ۔