Please wait..

(۵۱)

 
بحرفے می توان گفتن تمناے جہانے را
من از ذوق حضوری طول دادم داستانے را

مطلب: اے میرے محبوب! (ویسے تو ) ایک جہان کی تمنا کو صرف ایک حرف میں بیان کرنا ممکن ہے ۔ لیکن میں تیرے حضور اپنے ذوق کی تسلی کے لیے اپنی داستانِ (عشق) طویل کر رہا ہوں ۔

 
ز مشتاقان اگر تاب سخن بردی نمیدانی
محبت می کند گویا نگاہ بے زبانے را

مطلب: اگر تو نے اپنے چاہنے والوں سے قوت ِ گویائی چھین لی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ محبت تو ایسی چیز ہے جو ایک بے زبان کی نگاہ کو قوت ِ گویائی عطا کر دیتی ہے ۔

 
کجا نورے کہ غیر از قاصدی چیزے نمیداند
کجا خاکے کہ در آغوش دارد آسمانے را

مطلب: (اس شعر میں فرشتوں اور خاکی انسان کا موازنہ کیا گیا ہے) کہاں یہ نوری مخلوق (فرشتے) جو پیغام خدا کو لانے کے فراءض ادا کرے ہیں ۔ اور اس کے سوا وہ کچھ نہیں جانتے، اور کہاں مٹی کا بنا ہوا یہ پتلا (انسان) جو آسمان اپنے پہلو میں رکھتا ہے ۔ (اس انسان کو کائنات کے اسرار کی خبر ہے) ۔

 
اگر یک ذرہ کم گردد ز انگیز وجود من
باین قیمت نمی گیرم حیات جاودانے را

مطلب: اگر میرے وجود میں ایک ذرہ بھی کم ہو جائے تو میں اس قیمت کے بدلے میں ابدی زندگی بھی قبول نہیں کروں گا (کیونکہ کائنات میں رونق میرے ہی وجود کی وجہ سے ہے)

 
من اے دریاے بے پایان بہ موج تو در افتادم
نہ گوہر آرزو دارم نہ می جویم کرانے را

مطلب: اے بے کنار دریا (سمندر) میں تیری موج سے لپٹ گیا ہوں ۔ مجھے نہ تو موتی درکار ہے اور نہ ہی میں کنارے کی آرزو رکھتا ہوں (میرا تعلق خدا سے ہے اور میں اسی کا ہو گیا ہوں ) ۔

 
از ان معنی کہ چون شبنم بجان من فرو ریزی
جہانے تازہ پیدا کردہ ام عرض فغانے را

مطلب: اس معانی (فکر و دانش) سے کہ جو شبنم کی طرح تو نے میری جان پر نازل کیے ہیں انہیں (اپنی آہ و زاری کو) بیان کرنے کے لیے میں نے ایک نیا جہاں پیدا کر لیا ہے ( میں تیرا الہام کردہ پیغام دوسروں تک پہنچاتا رہوں گا) ۔

(۵۲)

 
چند بروی خود کشی پردہ صبح و شام را
چہرہ کشا تمام کن جلوہ ناتمام را

مطلب: (اے خالق کائنات) تو کب تک اپنے رُخ روشن پر صبح و شام کا پردہ کھینچتا رہے گا ۔ اپنی صورت مجھے دکھا اور اپنے نامکمل جلووَں کو مکمل کر دے ۔

 
سوز و گداز حالتے است بادہ ز من طلب کنی
پیش تو گریبان کنم مستی این مقام را

مطلب: عشق میں جو سوز گداز (حرار ت اور تڑپ) ہوتی ہے وہ ایسی حالت ہے جس سے مستی چھائی رہتی ہے ۔ لیکن تو مجھ سے بادہ جام کی مستی کر رہا ہے ۔ اگر میں سوز و گداز کے مقام کی مستی کا حال بیان کر دوں تو تجھے معلوم ہو جائے گا شراب عشق سے بڑھ کر مست کرنے والی اور شراب نہیں ہے ۔

 
من بسرود زندگی آتش او فزودہ ام
تو نم شبنے بدہ لالہ تشنہ کام را

مطلب: میں نے زندگی کا نغمہ سنا کر (عشق) کی آگ کو بھڑکایا ہے ۔ تو اس پیاسے حلق والے گل لالہ کو شبنم کی نمی عطا کر (یعنی اہل شوق کو اپنی معرفت کی دولت عطا کر دے) ۔

 
عقل ورق ورق بگشت عشق بہ نکتہ رسید
طائر زیرکے برد دانہ زیر دام را

مطلب: عقل نے (زندگی اور کائنات) کی کتاب کے ہر ورق کا مطالعہ کیا ہے لیکن پھر بھی حقیقت تک نہیں پہنچ سکی ۔ وجہ یہ ہے کہ جال کے نیچے پرندوں کو پکڑنے کے لیے جو دانہ بکھیرا جاتا ہے اسے صرف عقل مند پرندہ ہی اڑا لے جا سکتا ہے اور دوسرے پرندے اپنی نادانی کے سبب دام میں پھنس جاتے ہیں (عشق زیرک ہوتا ہے اور عقل بے وقوف) ۔ عشق دانا پرندے کی طرح رمزِ عشق جان لیتا ہے اور عقل نادان پرندوں کی طرح دنیا کے گورکھ دھندے میں گرفتار ہو جاتی ہے ۔

 
نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست
سوے قطار می کشم ناقہ بے زمام را

مطلب : کہاں یہ نغمہ اور کہاں ہیں ۔ یہ شاعری کا ساز تو نغمہ پیدا کرنے کا اک بہانہ ہے ۔ میں تو ایک حدی خواں کی طرح نغمے الاپ کر بے مہار اونٹنی کو ایک مرکز کی طرف بلا رہا ہوں ۔

 
وقت برہنہ گفتن است من بہ کنایہ گفتہ ام
خود تو بگو کجا برم ہم نفسان خام را

مطلب: اب تو بات صاف صاف کرنے کا وقت ہے لیکن میں اشاریوں اور رمزوں میں بات کر رہا ہوں (کیونکہ اہلِ ذوق کی کمی ہے) اے خدا! اب تو ہی بتا کہ میں ان ناپختہ کار دوستوں کو کہاں لے جاؤں ۔

(۵۳)

 
نفس شمار بہ پیچاک روزگار خودیم
مثال بحر خروشیم و در کنار خودیم

مطلب: میں اپنی زندگی گزارنے کے لیے زندگی کے چکر میں پھنسا ہوا ہوں ۔ میں سمندر کی طرح شور کر رہا ہوں لیکن اپنے کناروں کے اندر ہی اندر بہہ رہا ہوں ۔ (انسان جتنی بھی ترقی کر لے اسے اپنی حدود میں ہی رہنا پڑتا ہے) ۔

 
اگرچہ سطوت دریا امان بکس ندہد
بخلوت صدف او نگاہدار خودیم

مطلب: اگر دریا کی موجوں کی ہیبت سے کسی کو بھی امان نہیں ۔ پھر بھی ہم اس کے صدف کی تنہائی میں خود کو محفوظ خیال کرتے ہیں ۔ جس طرح صدف کے اندر موتی تمام حوادث سے محفوظ رہتا ہے ۔ اسی طرح اللہ کے نیک بندے بھی (اولیاء) بھی خدا کی پناہ میں ہوتے ہیں ۔

 
ز جوہرے کہ نہان است در طبیعت ما
مپرس صیرفیان را کہ ما عیار خودیم

مطلب: وہ جوہر (خوبیاں ) جو ہمارے اندر پوشیدہ ہیں ۔ اسے جوہریوں سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ۔ کیونکہ ہم تو خود اپنی کسوٹی ہیں (ہم کھرے کھوٹے کا خود فیصلہ کر سکتے ہیں ) ۔

 
نہ از خرابہ ما کس خراج می خواہد
فقیر راہ تشینیم و شہریار خودیم

مطلب: ہم تو ایسے کھنڈر میں تبدیل ہو چکے ہیں کہ ہم سے کوئی (بادشاہ) خراج وصول نہیں کرتا ۔ ہم تو سر راہ بیٹھنے والے فقیر (دنیا سے بے نیاز) لوگ ہیں ۔ اپنی دنیا کے خود بادشاہ ہیں ۔

 
درون سینہ ما دیگرے! چہ بوالعجبی است
کرا خبر کہ توئی یا کہ ما دچار خودیم

مطلب: تیرے سوا ہمارے سینے میں کسی اور کی محبت ہو یہ کیسی عجیب بات ہے اب یہ کون جانے کہ وہاں تو ہے یا آئینے کے سامنے ہم ہی کھڑے ہیں ۔ مطلب یہ کہ میرے اور تیرے درمیان کوئی دوری نہیں ۔ یہ تو ایک واہمہ ہے ۔

 
کشاے پردہ ز تقدیر آدم خاکی
کہ ما بہ رہگزر تو در انتظام خودیم

مطلب: اے خدا! اس خاک کے پتلے کی قسمت کیا ہے اس راز سے پردہ اٹھا دے اور بتا کہ وہ آخر ہے کیا کہ ہم بظاہر تو اپنے منتظر ہیں لیکن اصل میں ہم تیرا ہی انتظار کر ہے ہیں (اپنے آپ کی تلاش دراصل خدا ہی کی تلاش ہے) ۔

(۵۴)

 
بہ فغان نہ لب کشودم کہ فغان اثر ندارد
غم دل نگفتہ بہتر ہمہ کس جگر ندارد

مطلب: میں نے آہ و زاری کے لیے لبوں کو وا نہیں کیا ۔ کیونکہ یہاں آہ و زاری کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اس لیے دل کا غم نہ کہنا ہی بہتر ہے کیونکہ ہر شخص کے پاس اس کے سننے کا حوصلہ بھی تو نہیں ہوتا ۔

 
چہ حرم چہ دیر ہر جا سخنے ز آشنائی
مگر این کہ کس ز راز من و تو خبر ندارد

مطلب:مسجد کیا اور مندر کیا ، ہر جگہ (اے خدا) لوگ تجھ سے شناسائی کی باتیں کر رہے ہیں ۔ ہر کوئی تیری معرفت کا دعویدار ہے ۔ لیکن ان میں کوئی بھی (ملا اورپنڈٹ)تیرے اور میرے درمیان راز کی باتیں نہیں جانتا ۔

 
چہ ندیدنی است اینجا کہ شرر جہان ما را
نفسے نگاہ دارد نفسے دگر ندارد

مطلب: یہ حالت بھی دیکھنے والی نہیں کہ یہاں (شعلہَ عشق) ہماری دنیا پر کبھی ایک نظر ڈالتا ہے اور کبھی نہیں ۔ منزل سلوک میں سالک پر بسط و قبض کی حالت طاری ہوتی ہے ۔ کبھی تو اس کی نظر سماعت سے بھی آگے جا سکتی ہے اور کبھی اسے اپنی بھی خبر نہیں ہوتی ۔

 
تو ز راہ دیدہ ما بضمیر ما گزشتی
مگر آنچنان گزشتی کہ نگہ خبر ندارد

مطلب: اے محبوب! تو ہماری آنکھوں کے راستے سے ہمارے دل میں داخل ہو ا ۔ مگر اس طرح کی نگاہوں کو خبر تک نہ ہوئی (اور دل پر تیری محبت نے قبضہ جما لیا) ۔

 
کس ازین نگین شناسان نگزشت برنگینم
بتومی سپارم او را کہ جہان نظر ندارد

مطلب: میرے پاس جو نگینہ (دل) ہے وہ کسی جوہری کی نظر سے نہیں گزرا ۔ اسے میں اب تیرے سپرد کرتا ہوں کہ یہ دنیا تو اس کی پہچان سے عاری ہے (کیونکہ اس دل کی اصل قدر و قیمت سے تو ہی آگا ہ ہے) ۔

 
قدح خرد فروزے کہ فرنگ داد ما را
ہمہ آفتاب لیکن اثر سحر ندارد

مطلب: عقل کو جلا بخشش والی شراب کا پیالہ جو اہلِ یورپ نے مجھے دیا ہے بلاشبہ سورج کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس میں صبح پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ۔ اہلِ مغرب کے علم و دانش میں روشنی تو بہت ہے لیکن اس سے دل تاریک ہو جاتے ہیں (ان کا علم خدا سے دور لے جاتا ہے ۔ روح مرجھا جاتی ہے) ۔

(۵۵)

 
ما کہ افتندہ تر از پرتو ماہ آمدہ ایم
کس چہ داند کہ چسان این ہمہ رہ آمدہ ایم

مطلب: (ہماری حالت یہ کہ) ہم تو چاند کی چاندنی سے بھی زیادہ عاجزی کے ساتھ اس زمین پر آئے ہوئے ہیں ۔ کسے خبر ہے ہم نے یہ سارا سفر کس طرح طے کیا ہےہم عالمِ ارواح سے (جہاں ہمیں دیدارِ خداوندی نصیب ہوتا تھا ) زمین پر آ گئے اور جسم میں قید ہونے کے سبب ہماری ساری قوتیں سلب ہو کر رہ گئیں ۔ اس شعر میں عالم علوی سے عالم سفلی کی طرف سفر کا ذکر ملتا ہے ۔

 
با رقیبان سخن از درد دل ما گفتی
شرمسار از اثر نالہ و آہ آمدہ ایم

مطلب: تو نے (اے محبوب) ہمارے دردِ دل کی بات ہمارے رقیبوں سے کہہ دی ہے ۔ اب میں اپنی فریاد اور آہ و زاری کے اثر سے شرمندہ ہو رہا ہوں ۔ (کیونکہ رقیب جان گئے ہیں کہ میری فریاد بے اثر ہے) ۔

 
پردہ از چہرہ برافگن کہ چو خورشید سحر
بہر دیدار تو لبریز نگاہ آمدہ ایم

مطلب: اپنے (رخِ روشن) سے پردہ ہٹا کر ہمارے سامنے آ ۔ جس طرح صبح کا سورج رات کا پردہ ہٹا کر سامنے آتا ہے ۔ ہم تیرے دیدار کے لیے دیدہَ دل فرش راہ کئے بیٹھے ہیں ۔

 
عزم ما را بہ یقیں پختہ تر ساز کہ ما
اندریں معرکہ بے خیل و سپہ آمدہ ایم

مطلب: میرے ارادے کو یقین کی دولت عطا کر کے اسے ذرا اور پختہ کر دے ۔ کیونکہ ہم اس معرکہ َ (عقل و عشق) میں گھوڑوں اور سپاہیوں کے بغیر (بے سروسامان) آئے ہیں ۔ کیونکہ یہ معرکہ یقین کامل سے ہی سر کیا جا سکتا ہے ۔

 
تو ندانی کہ نگاہے سر راہے چہ کند
در حضور تو دعا گفتہ براہ آمدہ ایم

مطلب: کیا تو اس بات سے بے خبر ہے کہ کسی کی سر راہ نظر بازی کسی کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے (ہمیں اس بات کی خبر ہے) اس لیے ہم تیرے دروازہَ محبت پر دعائیں پڑھتے ہوئے آئے ہیں (کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری مست نظر کا ایک اشارہ ہمیں لوٹ لے) ۔

(۵۶)

 
اے خداے مہر و مہ خاک پریشانے نگر
ذرہ در خود فرو پیچد بیابانے نگر

مطلب: اے سورج و چاند کے خدا! میری پریشان خاک کی طرف نظر کر اور دیکھ کہ خاک کے اس چھوٹے سے ذرے میں ایک (وسیع و عریض) بیاباں سمایا ہوا ہے (عشق نے اس خاک کے بنے ہوئے پتلے میں خدائی صفات پیدا کر دی ہیں ) ۔

 
حسن بے پایان درون سینہ خلوت گرفت
آفتاب خویش را زیر گریبانے نگر

مطلب: تیرے بے پناہ حسن (خوبصورت چہرے) نے میرے سینے میں اپنی جگہ بنا رکھی ہے ۔ اپنے اس سورج کی حرارت میرے گریبان میں دیکھ (کہ میں تیری صفات کا مظہر بن گیا ہوں ) ۔

 
بر دل آدم زدی عشق بلا انگیز را
آتش خود را بآغوش نیستانے نگر

مطلب: تو نے آدم کے دل پر اپنے بے پناہ حسن کے ذریعے قبضہ کر لیا ہے اب اس آگ کی جلن اپنے سرکنڈوں کی آغوش میں دیکھ (کہ اس نے کس طرح خرمنِ دل جلا کر رکھ دیا ہے) ۔

 
شوید از دامان ہستی داغہائے کہنہ را
سخت کوشی ہائے این آلودہ دامانے نگر

مطلب: اے محبوب! تیرا یہ (عشق) ہستی کے پرانے داغ (زخم) دھو دیتا ہے ۔ اس آلودہ دامن انسان کی سخت جدوجہد کی طرف دیکھ (کہ عشق کی موجودگی نے اسے ذرہ آفتاب کر دیا ہے) ۔

 
خاک ما خیزد کہ سازد آسمانے دیگرے
ذرہ نا چیز و تعمیر بیابانے نگر

مطلب: میری مٹی ایک اور آسمان کی تعمیر کے لیے اٹھتی ہے ۔ یہ (انسان) ہے تو ایک ناچیز خاک کا ذرہ لیکن غور کر کہ وہ بیابانِ عشق کی تعمیر میں مصروف ہے ۔